نئی سیاسی صف بندیاں ؟

نئی سیاسی صف بندیاں ؟
 نئی سیاسی صف بندیاں ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈاکٹر عاصم حسین بہت اہم شخصیت ہیں، ان کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ ان کے آصف علی زرداری کے ساتھ طویل اور قریبی تعلقات ہیں۔ وہ آرتھوپیڈک ڈاکٹر ہیں مگر وفاقی وزیر انہیں پٹرولیم اور گیس کا بنایا گیا۔ وہ کیڈٹ کالج پٹارو سے فارغ التحصیل ہوکر کچھ عرصہ پاک فوج میں رہے اور لیفٹیننٹ بن کر ریٹائر ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے ایم بی بی ایس کیا اور میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم کے لئے آسٹریا بھی گئے اور واپس آکر سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔


آصف علی زرداری کے ساتھ تعلقات ڈاکٹر عاصم حسین کے بہت کام آئے، زرداری صدر مملکت بنے تو انہوں نے اس حیثیت میں ڈاکٹر عاصم حسین کو اعزازی ذاتی معالج رکھ لیا۔ پھر انہییں وفاقی وزیر بنا دیا گیا۔ یہی ڈاکٹر عاصم حسین کچھ عرصہ پہلے وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے درمیان اختلافات کا باعث بنے۔ انہیں رینجرز نے گرفتار کیا، ان پر متعدد الزامات ہیں، جن میں ضیاء الدین ہسپتال کراچی میں دہشت گردوں کا علاج کیا جانا بھی شامل ہے، وہ ضیاء الدین گروپ آف ہاسپٹلز کے چیئرمین ہیں، ان کے والد تجمل حسین اور والدہ اعجاز فاطمہ اس ادارے کے بانی ارکان تھے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی گرفتاری سے سیاست میں ہلچل مچ گئی اور محسوس ہونے لگا کہ پوری سندھ حکومت اس ایک شخص کے پیچھے کھڑی ہے اور ہر قیمت پر کھڑے رہنا چاہتی ہے۔ حتیٰ کہ ڈاکٹر عاصم حسین کی خاطر قانون میں تبدیلی کر دی گئی۔ جس طرح رینجرز کے اختیارات کا معاملہ سندھ اسمبلی میں لے جایا گیا اس سے بدنیتی ہی ٹپکتی رہی۔ یہ سب کچھ آصف علی زرداری کے ایماء ہی پر کیا گیا۔ محسوس ہوتا رہا اور اس تناظر میں اب بلاول بھٹو زرداری نے بھی کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔


بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کے یہ کہنے سے ایکشن پلان کو نقصان پہنچ سکتا ہے کہ اس پلان کے نام پر صوبوں کے خلاف سازش ہو رہی ہے، یہ کہہ کر انہوں نے پیپلز پارٹی کی تبدیل شدہ پالیسی کا اعلان کیا ہے کہ اب وہ اپوزیشن کی حیثیت سے اپنا حقیقی کردار ادا کرے گی۔ بلاول بھٹو کے یہ کہنے سے پارتی کی نئی راہ کا تعین نمایاں ہوتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی نگرانی کے لئے پارلیمانی کمیشن قائم کیا جائے، پارلیمنٹ میں آواز نہ سنی گئی تو پیپلز پارٹی عوام کی عدالت میں جائے گی۔
پارلیمنٹ کا جو اہم کردار پچھلے کچھ عرصہ سے دیکھنے میں آیا ہے اس میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے بھی جمہوریت کے تحفظ کے نام پر حکومت کی بھرپور حمایت کی۔ اب اگر پیپلز پارٹی اس سے مختلف کردار منتخب کرتی ہے تو پارلیمنٹ کے اندر بدلی ہوئی صورتحال نظر آئے گی اور ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار بالآخر چھوڑ ہی دے۔ پہلے بھی ایسے متعدد مواقع آئے جب محسوس ہوتا تھا کہ وہ یہ داغ دھو دے گی مگر ابھی تک اس میں کامیاب نہیں ہوسکی۔


پیپلز پارٹی کا وفاقی حکومت سے ایک اختلاف سرکاری اداروں کی نجکاری کے حوالے سے بھی سامنے آیا ہے۔ وہ پاکستان سٹیل اور پی آئی اے کی مجوزہ نجکاری کی شدید مخالفت کر رہی ہے اور اس معاملے میں بھرپور مزاحمت کا بھی عندیہ دیتی ہے۔ نجکاری پیپلز پارٹی کی بھی پالیسی رہی ہے، جبکہ مسلم لیگ (ن) نجکاری پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ پیپلز پارتی مزدور دوست ہونے کی داعی رہی ہے اور یہ نجکاری کی مخالفت بھی اسی نکتے پر مبنی ہے کہ اس سے ملازمین کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔


عوام کے مفادات کا خیال رکھنا یقیناً سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے لیکن جو نجکاری پالیسی اپنی رہی ہو اس پر مخالف حکومت کی طرف سے عملدرآمد کی مخالفت کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ جو جماعت عوام سے مینڈیٹ لے کر آئی ہو اسے اقتدار میں آکر اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے، اس لیے اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت قومی اداروں کی نجکاری چاہتی ہے تو یہ اس کا مینڈیٹ ہے مگر پیپلز پارٹی اس پالیسی کی شدید مخالفت کر رہی ہے۔


پیپلز پارٹی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اور نجکاری سے متعلق اپنے موقف پر قائم رہی تو وہ دوسری جماعتوں سے بھی معاونت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ ہوسکتا ہے کہ اس صورت میں نئی سیاسی صف بندیاں ہوں اور پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف کوئی بڑا اتحاد بنانے میں کامیاب ہو جائے۔ تحریک انصاف کا مفاد بھی یہ ہے کہ اپوزیشن مضبوط ہو، اس حوالے سے پیپلز پارٹی اور اس کے درمیان رابطوں کی توقع کی جاسکتی ہے۔

مزید :

کالم -