اشرف المخلوقات۔۔۔ تابع رسول ؐ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔ کیا اس کی تمام شر انگیزیاں، تکبر، غرور کو نظر انداز کر دیا جائے گا، انسان نیک و بد کی تمیز سے بہرہ مند ہے آگ اور پانی میں فرق کر سکتا ہے، پھر کیا اس سے کوئی ایسی حرکت یا کوئی ایسا عمل سرزد ہونا چاہئے جو انسانیت کے حسن اور شرف کے منافی ہو، جو اسے اسفل سافلین میں پہنچا دے (گھٹیا سے بھی گھٹیا جگہ پوزیشن) ہم جنسوں کے حقوق پر زد پڑے ایسا ہر فعل لازماً اجتماعی امن اور راحت کے نظام میں کم یا زیادہ اختلاف کا باعث ہو گا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسے اختلال انگیز افعال و حرکات سے احتراز حقیقتاً ہر فرد کے لئے ضروری ہے،کیونکہ اگر کسی کی کوئی حرکت کسی وقت اس کے ساتھیوں کو نقصان پہنچائے گی تو دوسرے موقع پر اس کے ساتھیوں کی ایسی ہی حرکت اس کے ساتھیوں کے لئے تکلیف اور پریشانی کا موجب بنے گی۔اسلام کی برتری یہ ہے کہ اس کے تمام اصول، قانون اس کی بنیاد معاشرے میں رحمت و محبت جاری و ساری رکھنے کے لئے ہیں۔ وہ چاہتا ہے رحمت و محبت کے فروغ و عمومیت میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو تمام افراد معاشرے میں اخوت۔ خلوص۔ ہمدردی اور یکجہتی کے ساتھ زندگی گزاریں تاکہ معاشرہ مستحکم ہو۔ یہ سب رحمت ہی کی کارفرمائی کے اصول ہیں۔ غرض اسلام نے دینی عقائد واعمال کا جو تصور قائم کیا ہے اس کی بنیاد بھی تمام تر رحمت اور محبت پر ہی رکھی ہے۔ قرآن مجید کی مختلف تصریح(ترجمے) کے مطابق خدا اور بندوں کے درمیان بھی رشتہ محبت کا ہی ہے۔ سچی عبادت ہے اس عبادت میں معبود صرف معبود نہ ہو، بلکہ محبوب بھی ہو اِسی لئے فرمایا جو لوگ ایمان والے ہیں ان کے دِلوں میں سب سے بڑھ کر چاہت اللہ کی ہی ہوتی ہے (سورۃ بقرہ 165) اے پیغمبرؐ ان لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے واقعی محبت رکھتے تو چاہئے کہ میری پیروی کرو۔ کیونکہ مَیں تمہیں اللہ سے محبت کی حقیقی راہ دکھا رہا ہوں۔ اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ تم سے محبت کرنے لگے لگا اور تمہارے گناہ بخش دے گا وہ بڑا غفور و رحیم ہے(آلِ عمران31) خود رسولؐ اللہ کی ذات بابرکت سے محبت بھی اِس لئے دُنیا بھر کے انسانوں پر فائق و برتر ہو گئی کہ ان کے ذریعے سے ہمیں خدا کا راستہ ملا۔
حضور نبی اکرمؐ کا فرمان ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک حقیقی مومن نہیں ہو سکتا جب تک مَیںؐ اُس کے نزدیک باپ، بیٹے اور پورے عالم انسانیت سے محبوب تر نہ ہو جاؤں، موجودہ حالات میں بدقسمتی ہے کہ چند لوگ نا نماز، نا روزہ، نا وضو ، نا پرہیز گاری پھر بھی خود کو مومن کہلاتے ہیں یا سمجھتے ہیں(نعوذ باللہ) رسولؐ اللہ جو نورِ ہدایت لے کر آئے اس کے سوا ہدایت کا کوئی وجود نہیں اور انسان کے لئے سب سے پہلی چیز ہدایت حق ہے اس کے بعد تمام رشتے آتے ہیں اور خود رشتوں کے واجبات نیز ان کی تکمیل و سرانجام کے طریقے ہمیں اسی نور ہدایت سے ملے جو رسولؐ اللہ کے ذریعے سے ہماری زندگی میں مشعل راہ بنے، پاک و صاف زندگی گزارنے کے اصول میسر آئے۔یہ بھی بتا دیا کہ خدائے بزرگ و برتر سے محبت کی عملی راہ خدا کے بندوں کی محبت سے ہو کر گزرتی ہے جو شخص چاہتا ہے کہ خدا سے محبت کرے اسے چاہئے کہ خدا کے آخری بنی حضرت محمدؐ کی پیروی اور حضورؐ کے ارشادات کی روشنی میں خدا کے بندوں سے محبت کرنا سیکھے۔ قرآن مجید اور احادیث میں خدا کے بندوں سے پیار کے لئے جو کچھ موجود ہے اس کا خاصا بڑا حصہ مختلف مواقع پر جا بجا ذکر خیر ہوتا رہتا ہے اس دُنیا میں نگرانی اور دیکھ بھال کے محتاجوں کی کوئی صنف ایسی نہیں، جس کے لئے مختلف صورتوں میں احکام موجود نہ ہوں۔ عزیزوں اور رشتہ داروں کی اعانت، بیواؤں،مسکینوں اور اسیروں کی امداد۔ غلاموں کو غلامی سے چھڑانا،مسافروں کی خبر گیری، قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ان کو سہارا دینا غرض کون سی ضرورت ہے، جس کا ذکر قرآن مجید میں نہیں آیا۔ واضح رہے کہ اسیروں سے مراد وہ لوگ نہیں، جو جرائم کے ارتکاب کے بعد جیلوں میں چلے جاتے ہیں۔ اسلام کے اسیروں کی مراد وہ لوگ ہیں جو جنگ میں پکڑے جائیں یا زمانہ ماضی کی طرح اب کوئی ظالم شخص کسی کو گرفتار کر کے اپنی خدمات پر لگا دے،جہاں اسلامی معاشرہ قائم نہ ہو غیر مسلم ملکوں میں رہائش پذیر مسلمان اپنے تمام واجبات کتاب و سنت کے مطابق پورے کریں،وہاں کوئی ایسا محتاج نظر ہی نہیں آ سکتا،جسے کسی کی طرف حسرت بھری نظر سے دیکھنے یا ہاتھ پھیلانے کی ضرورت ہو۔ ارباب استطاعت کا اسلامی جذبہ خیر، نیز محتاج کی اسلامی خود داری اور عزتِ نفس دونوں اپنی جگہ کار فرما ہوں گے، محتاج کسی سے نہیں لیتا کہ اس کا ممنون ہونا پڑے، اللہ نے اُس کا حصہ مقرر کر دیا ہے اور وہ اپنا حصہ لیتا ہے۔ یہ اسلام تھا جو رسول اللہؐ دُنیا بھر کے انسانوں کے لئے لائے تھے۔ آخری نبیؐ اس اُمت جو دُنیا میں ہے، جس میں تقریباً16ہزار مخلوقات ہیں ان کے نبیؐ ہیں،اللہ تعالیٰ کا فضل صرف ان لوگوں پر نہیں ہوتا ،جو مسلمان ہیں، بلکہ ان تمام لوگوں کے لئے ہے جو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس دُنیا میں موجود ہیں، لیکن افضل مخلوقات وہ ہے جو حضور نبی اکرمؐ پر ایمان لائے اور کلم�ۂ گو ہیں،اسلام میں کردار کی تکمیل اور شخصیت کو اسلام کے اصولوں کے مطابق ڈھالنا بھی ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری نبیؐ سے پیار کرنے والے،محبت کرنے والے، سچا عشق کرنے والے ان کو بہت عزیز اور پیارے ہوتے ہیں۔ ایک مثال لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ یہ بہت مشہور واقعہ ہے کہ نور الدین زنگی دمشق کا گورنر تھا اگر آپ کے ذہن میں نور الدین زنگی نہ آ رہا ہو۔ آپ کو سمجھانے کے لئے مَیںیہاں صلاح الدین ایوبی کا نام لوں گا،کیونکہ کم و بیش ہر ایک مسلمان ان کے نام سے واقف ہے۔ صلاح الدین ایوبی نور الدین زنگی کے کمانڈر تھے اور انہوں نے صلیبی جنگوں میں انگریزوں کو کافی پریشان کیا تھا،زچ کیا تھا۔ اب ذرا غور فرمائیں کہ ان لوگوں کے کردار کی تکمیل کیا ہو گی اور یہ کون لوگ ہوں گے، ان کی جواب دہی کیا ہوں گی،جو ان کے فیصلوں نے تاریخ میں ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ نور الدین زنگی نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ رسول پاکؐ اس سے کہہ رہے ہیں کہ نور الدین زنگی اُٹھو۔ سفر کرو مدینے کا، میری قبر میں پانی آ رہا ہے اور لوگ میری قبر سے میرے جسم کو نکالنا چاہتے ہیں۔ اُس نے صبح اُٹھ کر سوچا کہ یہ خواب ہے اور یقیناًمجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو گی جو اس طرح کا خواب مجھے آیا۔ یہ خواب اُس کو مسلسل تین دن تک آیا۔ اب یہاں ایک بات ایک روایت یہ بھی بن گئی کہ تین دن کا جو خواب ہے اس پر بحث کی جا سکتی ہے، پھر اس نے ایک دانا عقل مند گورنر سے مشورہ کیا کہ مجھے مسلسل تین دن یہ خواب آیا، گورنر کوئی اچھا ایماندار آدمی ہو گا اُس نے کہا کہ وقت ضائع نہ کریں فوراً بلا تاخیر سفر شروع کریں ذرا غور کریں کہ دمشق سے مدینہ پاک کا سفر کتنا طویل ہے، اُس وقت کو بھی ذرا اپنے سامنے رکھ کر دیکھئے کہ یہ سفر نور الدین زنگی نے صرف16دِنوں میں طے کیا۔ وہ کتنی رفتار سے چلا ہوگا،جو آج کے دور کے کسی ایسے شخص کا مقابلہ کر سکے جو کہ ان کی تربیت گاہوں میں اپنی ذہانت کو لے کر آتے ہیں۔ نور الدین زنگی بہت سے تحائف اپنے ساتھ لے کر گیا تھا سو جب وہ مدینہ منورہ پہنچا، روض�ۂ پاک میں حاضری، سجدہ نیاز کیا پھر اُس نے شہر کے تمام لوگوں کو بلایا اور سب کو تحائف پیش کئے وہ تحائف اِس لئے دے رہا تھا کہ تحائف لینے سب لوگ آئیں گے وہ چاہتا تھا ان لوگوں کو شناخت کرے جو اس کو خواب میں دکھائے گئے تھے، لیکن وہ نظر نہ آئے، تو اُس نے لوگوں کو پوچھا کہ کیا کوئی ایسا شخص ہے، جو مجھے ملنے نہیں آیا تو لوگوں نے کہا کہ ہاں دو لوگ ایسے ہیں جو آپ کو ملنے نہیں آئے وہ چونکہ ہر وقت عبادت میں مشغول رہتے ہیں ان کو آپ سے ملنے یا تحائف کی خواہش نہیں، نور الدین نے کہا کہ چلو ہم چلتے ہیں سو نور الدین زنگی ان کے ہاں گیا تو وہاں سوائے اسلام کی کتابوں اور جائے نمازوں کے کچھ نہیں تھا جب اچانک اُس نے ایک جائے نماز اٹھایا تو اس کے نیچے ایک خندق تھی، جس کے ذریعے وہ دونوں روض�ۂ رسولؐ اقدس تک پہنچنا چاہتے تھے یہ بتانے کا مقصد ہے کہ آج کے زمانے میں بھی ایسے لوگ بہت ہوں گے،جو بنیادی عقائد کو ٹھیس پہنچاتے ہیں وہ آپ کے دین کو بدنام کرتے ہیں اب نہ نور الدین زنگی ہے، نہ ہی صلاح الدین ایوبی، لیکن اللہ کے اولیاء اکرام دھرتی پاکستان پر موجود ہیں، سلامتی ہے۔