علم کوئی کیپسول نہیں
ایک خاتون نے مجھ سے کہا کہ آپ نام سے کیسے کسی انسان کے بارے میں بتاسکتے ہیں اور یہ کہ جب وہ پڑھائی میں بہت زیادہ مصروف نہیں تھی تو اسکا ایمان بہت مضبوط تھا اور وہ زیادہ عبادت وغیرہ کرتی تھی لیکن اب جبکہ اسے پڑھائی بھی کرنی ہے، ذریعہ معاش بھی تلاش کرنا ہے، اسے لگتا ہے کہ یہ مصروفیت اسے اللہ سے تھوڑا دور کر رہی ہے...
میں نے ان سے کہا کہ آپ جب یہ کہہ رہی ہیں کہ آپ اللہ سے دور ہو گئیں تو اس سے آپ کی مراد ، وہ عبادات ہیں جو اللہ نے فرض فرمائیں۔ جیسے نماز ہے۔ اب اگر آپ پانچ میں سے چار نمازیں پڑھ پاتی ہیں تو آپ نے اسے اللہ سے دوری سمجھ لیا۔
پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی فرائض کو قربت کا ذریعہ نہیں بتایا۔ محض فرائض ، قربت کا ذریعہ نہیں ہیں۔ مجھے بس اتنا کہنے کی اجازت دیجیے گا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام معاملات، اچھائی اور برائی کے ، سب کے لیے بنائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام نظام اس لیے بنایا ہے تاکہ انسان ایک متوازن کلچر کے اندر زندگی گزارے۔
اب قربت کا طریقہ کیا ہے؟ وہی طریقہ ہے جو اس دنیا میں بھی نافذ ہوتا ہے۔ اگر اس دنیا میں کسی سے محبت ہو جائے تو کیا طریقہ ہوتا ہے؟
محبوب کے گھر کے پانچ چکر لگانا تو کوئی طریقہ نہیں ہو گا ناں؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔
پھر کیا طریقہ ہو گا؟ محبت کیسے ہو گی؟
وہ ایسے ہو گی کہ جب آپ کو جنونِ محبت حاصل ہو جائے گا تو پھر آپ سوتے ہوئے کروٹ بھی لے رہے ہوں گے تو اُسی کا خیال دل میں ہو گا.....
قربت یہ ہے کہ آپ کے دل میں، آپ کے پاس کس کے خیال سب سے زیادہ ہیں۔ تو یہ جو قربت کے معاملات ہیں ان کو اللہ کے بھروسے پرچھوڑ دینا بہتر ہوتا ہے البتہ ہمیں کوشش ضرور کرنی چاہیے۔
اللہ کا شکر ہے زندگی میں بہت ہی اچھے اور ’’ظالم‘‘ قسم کے استادوں سے واسطہ پڑا ہے۔ ظالم اس طرح کہ ایک بار میں نے اپنے استادِ محترم احمد رفیق صاحب سے بڑے تکبر سے (اللہ مجھے معاف فرمائے) پوچھا کہ استادِ محترم! میں نے سارا کچھ پڑھ لیا ہے تو اب مجھے اور کیا پڑھنا چاہیے؟ تو استاد نے بھی ایک لمبا کش لیا ، مجھے دیکھا اور کہا کہ جس طرح تُو پڑھتا ہے ، تو کوڑے پر سے بھی کاغذ اُٹھا کر پڑھ لے، تیرے لیے وہ بھی علم ہے......
پندرہ سال ہو گئے لیکن میں اس بات کو بھولا نہیں کہ جہاں تکبر آجائے وہاں انسان کُوڑا ہو جاتا ہے۔
لیکن دوسری طرف میں استاد کا یہ سبق بھی نہیں بھولا کہ علم کبھی سستا نہیں آتا۔ یہ ظالم ہوتا ہے اور آج کے لوگ جب تک اس ظلم کو برداشت کرنا نہیں سیکھیں گے، وہ علم نہیں لے سکتے۔
مختصر یہ کہ خدا کی قربت کا اندازہ یا حتمی فیصلہ ان معاملات سے نہیں ہوتا جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیے ہیں۔
محبت اور عشق میں آپ فرض ادا نہیں کرتے، احسان کرتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے بھی احسان کی توقع رکھنی چاہیے اور اس کی مخلوق سے بھی احسان کرنا چاہیے، انصاف نہیں (فرض تو صرف انصاف ہے)۔
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
اب دوسری بات کہ نام سے معاملات کیسے بتائے جاتے ہیں تو بنیادی طور پر تو یہ علم استادِ محترم پروفیسر احمد رفیق اختر سے ہی سیکھا ہے لیکن مجھے ذاتی طور پر آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ استاد ایسا کرتے کیسے ہیں۔ بہت دفعہ ان سے پوچھا بھی لیکن استادِ محترم نے چیدہ چیدہ باتیں بتائیں، کبھی تعلیم کے طور پر یہ علم نہیں دیا۔ اور اب اس عمر میں آ کر احساس ہوتا ہے کہ استاد نے صحیح ہی کیا کیونکہ ہم کارپوریٹ ورلڈ کے سیکولر ذہن والے لوگ ہیں ہمارا خیا ل ہوتا ہے کہ صوفی کے پاس بھی کوئی قاعدہ ہو گا جس کو وہ پڑھائے گا اور ہم پڑھنے کے بعد صوفی بن جائیں گے۔لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ کچھ چیزوں کے شاید کیپسول نہیں ہوتے۔
اپنے استاد کو اتنا’’ دیکھنے‘‘ کے بعد میں اس بات کو یوں سمجھا ہوں کہ اس معاملے کا تعلق شاید علم سے اتنا زیادہ نہیں (ہے سہی لیکن اتنا بڑا تعلق نہیں)۔ اس معاملے کا تعلق اس بات سے زیادہ ہے کہ آپ خود کو ہر وقت یادِ الٰہی میں مشغول رکھنے کی عادت ڈالیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے نفسیاتی اور نفسی خیالات کو اپنے آپ سے جدا کرنے میں مہارت حاصل کر لیں تو جب آپ کے قلب پر خیال وارد ہو گا تو یہ سوچا جا سکتا ہے کہ یہ خیال آپ کا ذاتی نہیں ہے۔ اگر آپ یہ کیفیت اور یہ حالت جانچنے کے قابل ہو جائیں گے تو پھر آپ کی زبان سے جو بھی بات نکلے گی، وہ صحیح ہو گی۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔