غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

علی گڑھ تحریک اُردو کی پہلی شعوری تحریک تھی، جس میں مقصدیت، سادہ بیانی اور استدلالیت کو اولیت کا درجہ حاصل تھا۔ سر سید نے جس تحریک کی بنیاد رکھی اس کے پیچھے غالب کا نیا شعور پوری طرح کارفرما نظر آتا ہے۔سرسید غالب کو چچا غالب کہتے تھے۔ان سے سر سید کا رشتہ احترام کا بھی تھا اور ایسے باکمال شخص کا بھی،جس سے انہوں نے فکری خوشہ چینی کی۔

غالب شاعرانہ مزاج کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عملیت پسند شخص بھی تھے۔ان کی نظر اپنے عہد کے ادبی منظر نامے کے ساتھ ساتھ اس سیاسی و سماجی ماحول کا بھی گہرا مطالعہ کر رہی تھی،جو مستقبل کے ہندوستان کا نیا سیاسی و سماجی نقشہ بنا رہا تھا۔یہی وجہ تھی کہ غالب نے سر سید کی کتاب پر ایک فکری اور شعوری نوعیت کی منظوم تقریظ لکھی،جس نے سر سید کے افکار کو بدلنے میں مہمیز کا کام کیا۔

کسی نے کہا ہے غالب وہ شاعر ہے، جو ایک صدی پہلے پیدا ہو گیا تھا،یعنی ان کے شعور کا دائرہ اگلی صدی تک پھیلا ہوا ہے، دوسرا یہ کہ بقول ڈاکٹر آفتاب احمد خان’’وہ اُردو کے واحد شاعر ہیں،جن کے ساتھ پوری زندگی گزاری جا سکتی ہے‘‘۔
ایک شاعر کی حیثیت سے غالب اتنے مقبول کیوں ہیں؟ اس سوال کے جواب پر غور کرنے سے اُن کی بہت سی خوبیاں سمجھ میں آ سکتی ہیں۔کسی شاعر کے بہت مقبول ہونے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ خواص سے لے کر عوام تک بے شمار لوگوں کو اس کے بہت سے شعر یاد ہیں، جو زندگی کے مختلف موقعوں پر یاد آتے رہتے ہیں۔غالب کی مقبولیت اِسی قسم کی ہے۔یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے،وہ یہ کہ کسی شاعر کے زیادہ سے زیادہ شعر زیادہ لوگوں کو کیوں یاد آتے ہیں؟
اس بات کے دو سبب نظر آتے ہیں:اول تو یہ کہ کسی شاعر کی شاعری میں انسانی زندگی اور انسانی فطرت کے اتنے پہلو موجود ہوں کہ اُس کے شعر زندگی کی مختلف صورتِ حال میں یاد آتے رہیں۔ دوسرے یہ کہ شعر اِس اندازے سے کہے گئے ہوں کہ وہ حافظے پر آسانی سے نقش ہو جائیں۔
غالب کی شاعری میں یہ دونوں خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ان کی شاعری زندگی کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے پہلوؤں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔غالب کے ایک مشہور نقاد و ڈاکٹر بجنوری نے کہا تھا کہ وہ کون سا نغمہ ہے، جو اُن کے ساز میں نہیں پایا جاتا۔ بظاہر یہ بات مبالغہ آمیز معلوم ہوتی ہے،لیکن بڑی حد تک صحیح ہے۔

وہ اُن شاعروں میں سے نہیں،جو زندگی کے صرف دو ایک پہلوؤں پر زیادہ شعر کہتے ہیں ان کے ہم عصر شاعر مومن کی شاعری زیادہ تر حسن و عشق کے معاملات تک محدود ہے۔ان کے دوسرے ہم عصر شاعر ذوق کی شاعری میں محاورات، ضرب الامثال اور کہاوتوں کے استعمال میں نام پیدا کیا۔ ذوق کے ایک اُستاد نصیر دہلوی نے نہایت مشکل قافیے اور ردیف میں شعر کہنے میں مہارت دکھائی۔

ذوق کے مشہور شاگرد داغ دہلوی نے زبان، محاورات اور ضرب الامثال کے استعمال میں کمال ظاہر کرنے کے علاوہ محبوب سے شوخی اور چھیڑ چھاڑ کی شاعری میں امتیاز حاصل کیا۔

ان شاعروں کے برعکس غالب نے اپنے آپ کو کسی خاص خانے میں بند نہیں کیا۔انہوں نے زندگی کے ہر پہلو سے دلچسپی لی اور زندگی کے ہر مزے کو چکھا۔ان کے یہاں حسن و عشق کی رنگا رنگی بھی ہے،تصوف کے مسائل بھی ہیں،جسمانی لذتوں کی طلب بھی ہے،روحانی کیفیتوں کا اظہار بھی ہے، خوشی کے ساتھ غم کے تجربے بھی ہیں اور مایوسیوں کے باوجود امید کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی سے متعلق غالب کے تجربات اور مشاہدات میں بڑا تنوع اور رنگا رنگی ہے۔ وہ زندگی کو جیسا دیکھتے ہیں، ویسا ہی پیش نہیں کر دیتے،بلکہ اس کے بارے میں کچھ سوچتے بھی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اقبالؒ کی طرح وہ بھی مفکر شاعر مانے جاتے ہیں۔ان کی شاعری میں روایتی موضوعات،یعنی عشق، محبوب، عاشق، رقیب، آسمان، آشنا جنون اور ایسے ہی دیگر الفاظ نہایت عمدہ انداز میں بیان ملتا ہے۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے اور 15فروری 1869ء کو دہلی میں وفات پائی۔
ایک مفکر کی حیثیت سے غالب اور اقبالؒ کا فرق نہایت واضح ہے۔ اقبالؒ کے یہاں انسانی زندگی کا ایک مکمل فلسفہ ملتا ہے،جو زندگی کے انفرادی اور اجتماعی،یعنی فرد اور جماعت،دونوں پہلوؤں سے تعلق رکھتا ہے۔ اقبالؒ کا فلسفہ اپنی قوم،بلکہ دُنیائے انسانیت کے لئے ایک نصب العین پیش کرتا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے انسان کو اعلیٰ اصولوں و اقدار کی تعلیم دیتا ہے۔

غالب کی شاعری نہ تو کوئی نصب العین پیش کرتی ہے، نہ اس کے حصول کے لئے خاص اصول و اقدار پر عمل کرنے کی ہدایت کرتی ہے۔وہ صرف یہ دکھانے کی کوشش کرتی ہے کہ انسانی زندگی اور انسانی فطرت کیسی ہے،اس کی مجبوریاں اور پیچیدگیاں کیا ہیں،اس کی کشمکش اور کشا کش کی نوعیت کیا ہے۔انسان کن خوش گمانیوں اور خود فریبیوں کے سہارے زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔بعض اوقات وہ خدا سے کتنا مایوس ہوتا ہے اور خدا کے بندوں سے کتنا خائف رہتا ہے۔اگر ایک جملے میں غالب اور اقبالؒ کی شاعری کے فرق کو بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو شاید یہ کہنا کافی مشکل ہو گا کہ غالب۔۔۔۔۔۔ حقائق کا شاعر ہے اور اقبالؒ اقدار کا، غالب کی شاعری زندگی کی بنیادی یا ٹھوس حقیقتوں کی ترجمانی کرتی ہے اور اقبالؒ کی شاعری زندگی کی بنیادی اقدار کی۔
یہاں تک غالب کے بارے میں جو کچھ کہا گیا اس سے غالب کی مقبولیت کے صرف ایک باب پر روشنی پڑتی ہے۔ غالب کو فارسی زبان سے نہایت دلچسپی تھی۔پندرہ سولہ سال کی عمر تک انہوں نے اس زبان پر بہت اچھی قدرت حاصل کر لی تھی۔ جب انہوں نے شاعری شروع کی تو فارسی کے بعض ایسے شاعروں کو نمونے کے طور پر سامنے رکھا جو خیال و بیان دونوں کے اعتبار سے مشکل مانے جاتے ہیں۔

ان میں بیدل زیادہ نازک خیال اور مشکل شاعر ہیں۔غالب نے جب ایسے مشکل شاعروں کے رنگ میں شعر کہنے کی کوشش کی تو ان کی شاعری بھی زبان اور خیال کے اعتبار سے بہت مشکل ہو گئی اور اس میں وہ نزاکت اور لطافت یا خوبصورتی بھی نہ آ سکی، جو بیدل اور فارسی کے دوسرے شاعروں کے یہاں پائی جاتی ہے۔ فارسی شاعروں کے انداز میں شعر کہنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ غالب کی شاعری میں زبان کے اعتبار سے فارسیت در آئی۔بعض اوقات تو پورا پورا مصرع یا شعر فارسی کا معلوم ہونے لگا۔ خیال کے اعتبار سے اس میں نیا پن ضرور آیا،مگر اس نئے پن میں کوئی مزا نہ تھا۔ مثلاً:
شمار سبحہ مرغوب بتِ مشکل پسند آیا
تماشائے بیک کف بُردنِ صد دل پسند آیا
اس قسم کے اشعار پر ان کے ہم زمانہ لوگ اس طرح کی فارسی آمیز بے مزا شاعری کو پسند نہ کرتے تھے اور کہتے تھے:
کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
بارہ سال کی عمر سے چوبیس پچیس سال کی عمر تک غالب نے اس انداز کے شعر کہہ کہہ کر ایک دیوان جمع کر لیا تھا۔اس میں شک نہیں کہ اس عمر تک غالب شاعری کے میدان میں بھٹکتے رہے، لیکن اس گمنامی کے زمانے میں بھی انہوں نے کئی اشعار ایسے کہے ہیں، جو ان کے نہایت مشہور اور مقبول شعروں میں سے ہیں مثلاً:
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا ربّ
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پا پایا
عجز و نیاز سے تو نہ آیا وہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچئے
غیر سے دیکھئے کیا خوب نباہی اُس نے
نہ سہی ہم سے پر اس بت میں وفا ہے تو سہی
یہ اشعار اگرچہ غالب کی شاعری کے ابتدائی دور کی پیداوار ہیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے اشعار میں غالب کی شاعری کا دوسرا دور شروع ہوتا نظر آتا ہے۔دوسرے دور میں ان کی زبان بہت صاف ہو چکی ہے۔فارسی الفاظ اور فارسی تراکیب کی کثرت کے باوجود ان کے اشعار میں فارسیت سے زیادہ اُردو پن جھلکنے لگا ہے اور خیال میں وہ بلندی اور گہرائی دکھائی دینے لگی، جس نے بالآخر غالب کو غالب بنایا۔

آگے چل کر،یعنی ان کی شاعری کے تیسرے دور میں غالب کی زبان میں فارسیت اور بھی کم ہو جاتی ہے، زبان سہل اور سادہ ہو جاتی ہے۔ خیال کی گہرائی میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے،لیکن اُن کی شاعری اپنی گہرائی کے باوجود پہلے دور کی طرح ناقابلِ فہم نہیں رہتی۔اب اُن کی شاعری زبان و بیان کے نئے پن اور خیال و مضمون کے اچھوتے پن کا امتزاج بن جاتی ہے اور اس میں اچھی اور اعلیٰ شاعری کی بہت سی خوبیاں پیدا ہو چکی ہیں۔
زبان کے معاملے میں غالب کی امتیازی خصوصیت جو انہیں دوسروں سے الگ کرتی ہے، فارسی الفاظ و تراکیب کی طرف ان کی طبیعت کا جھکاؤ ہے۔شروع میں وہ اتنی فارسی استعمال کرتے تھے کہ اگر مصرع یا شعر کے ایک آدھ اُردو لفظ کو ہٹا دیا جائے تو پورا مصرع یا شعر فارسی کا ہو جائے، مثلاً

نغمہ ہائے غم کو بھی اے دِل غنیمت جانیئے
بے صدا ہو جائے گا یہ ساز ہستی ایک دن
سربر ہوئی نہ وعدہ، صبر آزما سے عمر
فرصت کہاں کہ تیری تمنا کرے کوئی
غالب کے بارے میں لطیفے مشہور ہے،ان کی طبیعت میں جو خوشی اور شگفتگی تھی اس نے ان کی شاعری میں ظرافت اور طنز کی شکل اختیار کی ہے۔ ان کی ظرافت ہمیں قہقہہ لگانے پر نہیں،بلکہ مسکرانے اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ان کی طرز بھی پڑھنے والوں کے ذہن میں خیال کی لہریں پیدا کرتی ہے مثلاً:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
یہ شعر غالب کی ظرافت کی اچھی مثال ہے۔ کہتے ہیں کہ کراماّ کاتبین،یعنی وہ دو فرشتے جو انسان کے دائیں اور بائیں شانوں پر ہوتے ہیں اور انسان کے اچھے بُرے اعمال لکھتے رہتے ہیں وہ ہم انسانوں کے بارے میں جو کچھ لکھ دیتے ہیں اس کی بنیاد پر حشر میں ہمیں سزا دی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ جب کراماّ کاتبین ہمارے اعمال لکھ رہے تھے تو کیا گواہ کے طور پر ہمارا کوئی آدمی موجود تھا۔اس سوال کو سن کر آدمی بے اختیار مسکرانے اور سوچنے لگتا ہے کہ اگرچہ یہ بات مذاقاً کہی جا رہی ہے، مگر کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔
غالب کے طنز کی ایک اور مثال دیکھئے:
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
اس طنز کو پڑھ کر انسانی زندگی کی بے بسی اور بے چارگی کے بارے میں خیالات کی لہریں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ بے شک غالب ایک ہمہ گیر شاعر ہے۔ڈاکٹر رشید امجد اپنے ایک مضمون میں غالب کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’غالب ایک عظیم شاعر ہی نہیں، بلکہ ایک دانشور بھی ہیں۔وہ اپنے عہد سے بہت آگے کا منظر دیکھ رہے تھے۔ان کے شعور نے ان تبدیلیوں کی چاپ سُن لی تھی،جنہوں نے آگے جا کر برصغیر کی صورتِ حال کو بدلنا تھا۔غالب کی بصیرت جس طرح اپنے عہد کے زوال کو دیکھ رہی تھی،ان کی سوچ کا مثبت انداز جس طرح عملیت پذیر تھا،ان کی وجہ ان کی بڑی پہلو دار شخصیت تھی‘‘۔یہی پہلو داری ان کی شاعری میں بھی نظر آتی ہے۔ان کی پہلو داری کا حامل ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
اس شعر کا خاص وصف یہ ہے کہ لہجے بدل بدل کر پڑھنے سے شعر کے مفاہیم بدلتے جاتے ہیں اور شعر قاری کے لطف میں اضافے کا باعث بنتا جاتا ہے۔یہی پہلو داری ان کی شاعری میں بھی جگہ جگہ نظر آئے گی۔ یہی بات ہے کہ غالب کے اشعار کے ایک سے زائد معانی ہونے کی وجہ سے ناصر کاظمی نے ان کو چور شاعر کہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ غالب کے اشعار کے معانی آسانی سے سمجھ میں نہیں آتے اور بعض دفعہ معانی سمجھ میں نہیں آئیں تو بھی وہ قارئینِ ادب کو سامانِ راحت مہیا کرتے رہتے ہیں اور یہی غالب کی عظمت ہے اور شاید اِسی وجہ سے غالب نے خود ہی کہہ دیا تھا:

ہیں اور بھی دُنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

مزید :

رائے -کالم -