کچھ ”کنڈکٹ آف وار“ کے بارے میں (1)

کچھ ”کنڈکٹ آف وار“ کے بارے میں (1)
کچھ ”کنڈکٹ آف وار“ کے بارے میں (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نام کتابConduct of War:
(جنگ کیسے لڑی جاتی ہے)
مصنف: میجر جنرل جے ایف سی فلر
(Maj Gen JFC Fuller)
پبلشرز: آئر میتھون لمیٹڈ،لندن
سالِ اشاعت ِ اول: 1961ء
صفحات: 352
قیمت: 188روپے
ری پرنٹ: علی مجید پرنٹرز، لاہور
1998)ء(


…………………………
بہت سال پہلے جب یہ کتاب میں نے پہلی بار پڑھی تھی تو زبان و بیان کی گرانباری کے باوجود میرے لئے اس کے بہت سے حصے انتہائی دلچسپ، معلوماتی اور حیرت انگیز تھے۔…… اس کی بہت سی وجوہات تھیں۔
اول یہ کہ ایک برطانوی مصنف (اور جرنیل) نے اپنی ہی قوم کی ان عیارانہ سیاسی حکمت عملیوں اور شاطرانہ سازشوں کا پردہ چاک کر دیا تھا جو وہ صد ہا برس سے ساری دنیا میں پھیلی ہوئی اپنی نو آبادیوں کو زیر تسلط رکھنے کے لئے بروئے کار لاتی رہی تھی۔(اور لا رہی تھی)
دوم یہ کہ اس نے جنگ اور سیاست کے تعلق کو کلاسیوٹز کے بعد بڑے مدلل انداز میں بہت سی مثالیں دے کر واضح کیا۔
سوم یہ کہ سٹرٹیجی اور ٹیکٹکس بلکہ چھوٹی ٹیکٹکس (Minor Tactics) تک کا جو شعور قاری کو اس کتاب کے مطالعے سے حاصل ہوتا ہے وہ کسی اور کتاب سے حاصل نہیں ہوتا۔
چہارم یہ کہ انقلاب فرانس، انقلاب روس اور صنعتی انقلاب کے فلسفے پر انگریزی زبان میں اگرچہ درجنوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن مصنف نے اس کتاب میں ان سب کا جو نچوڑ اور خلاصہ پیش کیا ہے وہ صرف اسی کا کام تھا۔


پنجم یہ کہ پونے دو سو برس تک (1789ء تا 1961ء) جنگ و جدال اہل یورپ کا اوڑھنا بچھونا بنی رہی۔ آتش و آہن کے طوفانوں سے گزرنے کے بعد ہی مغرب کا مسِ خام کندن بن سکا۔ کنڈکٹ آف وار میں ان ہی طوفانوں کے تذکرے اور تبصرے ہیں۔ اور ہم جیسی اقوام کے لئے جہاں داری اور جہاں گیری کے جو اسباق اس تصنیف سے حاصل ہوتے ہیں، وہ کسی اور کتاب سے شائد ہی حاصل ہو سکیں۔
ششم یہ کہ دونوں عالمی جنگوں میں امریکی شمولیت کے باعث ان جنگوں کا جو پانسہ پلٹتا رہا، اس سے عصر حاضر کی اس واحد سپرپاور کے فیصلہ کن کردار کا اندازہ ہوتا ہے اور مستقبل میں پاک۔ امریکہ سیاسی اور عسکری تعلقات کے حوالے سے جو اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں، اس کتاب کے مطالعے کے بعد ان کے حسن و قبح کے بارے میں بھی ایک گونہ آگہی حاصل ہوسکتی ہے۔
ہفتم یہ کہ جمہوری نظام کی ابتداء کو لامحدود جنگ کے ساتھ ہم آہنگ کرکے اس نظام کی خوبیوں اور خامیوں کو جس طرح اجاگر کیا گیا ہے،وہ ایک چشم کشا حصہ ئ تحریر ہے۔
اور ہشتم یہ کہ کتاب کے آخری باب میں سوویت یونین کے ٹوٹنے، مشرقی اور مغربی جرمنی کے ادغام اور چین کے ایٹمی قوت بن جانے کے بارے میں جو پیش گوئیاں کی گئی تھیں وہ اس وقت تو ناقابل تصور تھیں لیکن مصنف کی وفات 1966)ء(کے صرف 25سال بعد 1991)ء(حرف بحرف پوری ہو گئیں ……


یہ اور اس قسم کے بہت سے گہرپارے اس کتاب کے اوراق میں جابجا بکھرے پڑے ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ یہ سب معلومات اور موضوعات پاکستان کے ہر ذی شعور شہری کے لئے عام ہو سکیں۔ لیکن اس عمل میں ایک بڑی رکاوٹ حائل ہے۔ اس کی زبان مشکل ہے اور اس کا اسلوب فلسفیانہ اور بہت حد تک عالمانہ ہے۔
کسی بھی زبان میں کلاسیکی ادب کا موضوع کچھ بھی ہو، اس کا اپنا ایک معیار اور کشش ہوتی ہے۔ عسکری زندگی کی راہیں لاکھ کٹھن اور بے کیف سہی لیکن انہی پتھروں میں کیف و نشاط کی بے شمار کہکشائیں بھی بکھری پڑی ہیں۔ کوئی بھی صاحبِ فن جب ان کہکشاؤں کو صفحہ قرطاس پر بکھیرنے کی کوشش کرتا ہے تو گویا لازوال عسکری ادب کی تخلیق کرتا ہے۔……


ہر کلاسیکی شاہپارے پر مصنف کے اسلوبِ نگارش کی ایک گہری چھاپ ہوتی ہے۔ حالات و واقعات اور تبصرہ و تجزیہ کے باب میں کسی بھی زبان کے کلاسیکی عسکری مصنف کی نگاہ بڑی عمیق بھی ہوتی ہے اور دور رس بھی۔وہ جس نکتے کو بھی بیان کرتا ہے وہ لاکھ خشک، بے کیف اور بوجھل ہو، وہ اس میں پیشہ ورانہ فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیتا ہے۔ جنرل فلر نے بھی ”کنڈکٹ آف وار“ میں یہی کچھ کیا ہے۔ میں نے اس کا ترجمہ کیا اور مقدور بھر کوشش کی کہ ترجمہ کرتے ہوئے مصنف کی ادائے بیان اور اس کے اسلوبِ تحریر کی تاثیر کا پاس رکھوں۔ہو سکتا ہے بعض جگہ یہ اسلوب قاری کے لئے کچھ اجنبی یا بوجھل محسوس ہو لیکن یہی اجنبیت، یہی مشکل پسندی اور یہی ادائے نگارش عسکری کلاسیک کا حصہ بھی شمار ہوتی ہے۔ بعض جگہ نہیں، بلکہ اکثر جگہ یہ ہوتا ہے کہ مشکل افکار کے اظہار کے لئے آسان الفاظ ساتھ نہیں دیتے۔
میں نے 1997ء میں اس کا ترجمہ کر دیا تھا۔ لیکن یہ ترجمہ پاکستان آرمی کی ملٹری سٹیشن لائبریریوں میں تو دیکھا جا سکتا ہے لیکن کسی سویلین پبلشر نے اس کو اس لئے چھاپنا گوارا نہ کیا کہ یہ موضوع صرف جنگ وجدال کے طالب علموں کے لئے تو ایک حد تک قابلِ قبول تھا،لیکن غیر وردی پوش قارئین کے بارے میں سوچ لیا گیا تھا کہ وہ اس کا خیر مقدم نہیں کریں گے۔اسی لئے اس کو چھاپنا گھاٹے کا سودا سمجھ لیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے ذاتی طور پر اس کی طباعت کا بوجھ خود اٹھانا پڑا۔ لیکن جب فوج کو معلوم ہوا کہ اس کتاب کا اُردو ترجمہ بھی ہو گیا ہے تو اس کی بہت پذیرائی کی گئی۔اس کی 5000 جلدیں اب تک فروخت ہو چکی ہیں۔لیکن کچھ سال پہلے جب سے یہ کتاب فوجی افسروں کے امتحانی نصاب سے خارج کی گئی ہے اس کا اگلا (چھٹا) ایڈیشن شائع نہیں ہو سکا۔


اردو ترجمے کی زبان نامانوس اور ایک حد تک ادق بھی ہو گی لیکن قارئین سے گزارش ہے کہ وہ جہاں کہیں اس قسم کی صورت حال سے دوچار ہوں، وہاں ذرا مصنف کا اصل انگریزی متن بھی دیکھ لیں کہ وہ کس انداز اور کسی معیار کا ہے۔……تب شاید انہیں مترجم کی معذوری کا احساس ہو!
جیسا کہ میں نے عرض کیا اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ پاک فوج کے تقریباً تمام پیشہ ورانہ امتحانات میں ایک طویل مدت تک بطور نصاب مقرر رہی یا اس کے مطالعے کی سفارش کی گئی۔ ایسا کرنے میں اربابِ اختیار کا جو مقصد کار فرما تھا وہ یہی تھا کہ سول اور ملٹری بیورو کریسی کی تمام سطحوں پر جنگ اور سیاسیات کے باہم تال میل پر ایک بھرپور اور جامع قسم کی شناسائی دی جائے۔ علاوہ ازیں یہ کتاب پاکستان کے ہر پڑھے لکھے شہری کے لئے بھی ایک معلوماتی اور سنجیدہ مطالعاتی مواد فراہم کرتی ہو۔ مصنف نے اس تصنیف میں جن گراں قدر اور بیش قیمت موضوعات پر روشنی ڈالی ہے ان کا مطالعہ زبان و اسلوب کی مشکلات کے باوجود ہم سب کے لئے بہت ضروری ہے۔


اس لاجواب کتاب پر مزید تبصرہ کرنے سے پہلے، میں اس کے مصنف پر درج ذیل سطور میں ایک سیر حاصل معلوماتی مواد کی ضرورت کو ناگزیر سمجھتا ہوں۔
اس کا پورا نام جان فریڈرک چارلس فلر تھا۔ یکم ستمبر 1878ء کو چائی چسٹر (Chichester) (انگلینڈ) کے مقام پر پیدا ہوا۔ ماں فرانسیسی نژاد تھی۔ نانا جرمنی میں رہتے تھے جہاں فلر کی والدہ پل بڑھ کر جوان ہوئی اور تعلیم حاصل کی۔ فلر کا باپ پادری تھا۔ ابتدائی تربیت مذہبی ماحول میں ہوئی۔ والدہ اپنے دور کی ذہین، حسین اور تعلیم یافتہ خواتین میں شمار ہوتی تھی اور اپنے بیٹے فلر پر اس کا بہت اثر تھا۔ فلر کے دو بھائی اور ایک بہن تھی جو ضعیف العقل تھی اس لئے ساٹھ سال کی عمر تک فرانس کی ایک خانقاہ (Convent) میں مقیم رہنے پر مجبور ہوئی۔


1889ء میں گیارہ سال کی عمر میں فلر کو انگلینڈ کے ایک پبلک سکول میں بطور بورڈر داخل کروا دیا گیا۔ اس کے نانا کا اصرار تھا کہ فلر کو آرمی میں جانا چاہیے۔ سکول میں زمانہ طالب علمی کے دوران فلر کو کتابیں پڑھنے کے علاوہ ڈرائنگ اور پینٹنگ کا بہت شوق تھا۔1895ء میں اسے پبلک سکول سے اٹھا کر لندن کے ایک ایسے سکول میں داخل کروا دیا گیا جو ملٹری اکیڈیمی سیندھرسٹ کے لئے نوجوانوں کو یتار کرتا تھا۔ جب فلر نے بھرتی کے لئے ٹیسٹ دیا تو اگرچہ تحریری پرچوں میں پاس ہو گیا لیکن طبی اعتبار سے موزوں (Fit) نہ تھا۔ اس کا قد،چھاتی اور وزن کم تھے۔ تاہم اس زمانے کے رواج کے مطابق اسے سیندھرسٹ میں اس شرط پر داخلہ مل گیا کہ اگر وہ اکیڈیمی میں قیام کے دوران مطلوبہ جسمانی اہلیت حاصل نہ کر سکا، تواسے کمیشن نہیں دیا جائے گا۔ لیکن اکیڈیمی میں جا کر جلد ہی اس کا وزن اور قد بڑھنے لگا اور اسے 3اگست 1898ء کو فوج میں کمیشن مل گیا۔


اسے آکسفورڈ لائیٹ انفنٹری کی 43رجمنٹ کی فرسٹ بٹالین میں کمیشن دیا گیا۔ 1898-99ء کے دوران اس کی یونٹ انگلینڈ میں رہی۔ بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ معمول کے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے باوجود وہ کارلائ

ل، بکسلے اور ینگ جیسے ادیبوں کے ناول اور تصانیف پڑھتا رہا۔ ایک اور کتاب ”یونان کے اولین فلاسفرز“ اس کی مرغوب ترین کتابوں میں سے ایک تھی۔ اس زمانے میں جنوبی افریقہ میں مقامی باشندوں نے انگریز حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا تھا۔ ان باشندوں کو بوئر کہا جاتا تھا اور اسی نسبت سے جنوبی افریقہ کی یہ جنگ بوئر وار (Boer War) کے نام سے تاریخ میں مشہور ہے۔ فلر کی بٹالین کو جنوبی افریقہ جانے کا حکم ملا۔1900ء کے اوائل میں یونٹ وہاں پہنچی۔ انگریز حکمرانوں کے لئے حالات بہتر نہ تھے، انہیں وہاں شکست پر شکست ہو رہی تھی۔ علاقہ وسیع و عریض تھا اور باغی توڑے دار (نالی کے منہ کی طرف سے لوڈ کی جانے والی) بندوقوں سے مسلح اور گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑتے تھے۔ گوریلا جنگ و جدل کو اپنا کر بوئرز نے برطانوی فوج کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ فلر کو 70سپاہیوں کا ایک دستہ دے کر حکم ملا کہ چار ہزار مربع میل کے علاقے میں باغیوں کا پتہ چلائے، ان کی نقل و حرکت کی خبریں فراہم کرے اور اگر مڈبھیڑ ہو جائے تو وہی کرے جو ایسے میں ہر فوجی افسر کو کرنا چاہیے۔ یہاں فلر کو ابتدائی پیشہ ورانہ ٹیکٹس کو بروئے عمل لانے کا موقع ملا۔1902ء میں جب بوئر وار ختم ہوئی تو فلر کی یونٹ واپس انگلستان آ گئی۔


1903ء میں رجمنٹ کو انڈیا جانے کا حکم ملا۔ فلر کے لئے معاشی لحاظ سے یہ سفر نفع بخش تھا۔ اس زمانے میں انڈیا میں سروس کرنے والے آفیسرز کو تنخواہ کے علاوہ اضافی الاؤنس بھی دیا جاتا تھا۔ اواخر 1903ء میں رجمنٹ انبالہ پہنچی اور 1904ء کے اوائل میں شملہ چلی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب روس اور جاپان کی مشہور جنگ ہو رہی تھی۔ فلر کو ایک کورس کے لئے راولپنڈی بھیجا گیا۔ اس کی غیر حاضری میں اس کی رجمنٹ شملہ سے لکھنوء جا چکی تھی۔ کورس کے بعد فلر نے لکھنوء میں یونٹ میں رپورٹ کی۔ معمول کے فرائض کچھ زیادہ نہ تھے اس لئے اسے ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کا مطالعہ کرنے کا خوب موقع ملا۔ لیکن یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ اسے یہاں کسی مسلمان اہلِ دل سے گفتگو کا موقع نہ ملا۔ البتہ ہندو جوگیوں، مہاشوں اور پنڈتوں سے اس کی بہت سی ملاقاتیں رہیں۔ ہو سکتا ہے انگریزوں میں جو اسلام مخالف رجحان شروع سے موجود ہے، اسی کے زیرِ اثر فلر نے عمداً کسی مسلمان مذہبی رہنما سے ملنا گوارا نہ کیا ہو۔ بہرحال اس نے جوگیوں اور پنڈتوں سے یوگا کی تعلیم حاصل کی اور اس پر ساری عمر عمل کیا۔ وہ فخر سے کہا کرتا تھا کہ پچاس سال تک نہ اس کو کبھی کسی ڈاکٹر سے واسطہ پڑا اور نہ کبھی ہسپتال جانا پڑا۔


فوج کے معمولات کے علاوہ تحریر و تصنیف، سیاسیات اور صحافت میں اس نے جو بھرپور حصہ لیا اس میں اس کی اچھی صحت کا بہت دخل تھا۔ اچھی صحت سے مراد یہ نہ تھی کہ وہ کوئی لحیم و شحیم اور ہٹا کٹا شخص تھا۔ بلکہ وہ ایک چھوٹے قد اور نسبتاً کم وزن کا انسان تھا اور اسی وجہ سے ساری فوج میں اسے بونی فلر (Boney Fuller) یعنی ”مریل فلر“ کے نام سے جانا جاتا تھا۔


جوگیوں اور پنڈتوں سے یوگا کے علاوہ اسے جادو ٹونے،منتر اور پراسراریت کی بھی سن گن ملی۔ ان باتوں کا اگرچہ فوجی زندگی سے کچھ تعلق نہ تھا لیکن فلر ساری عمر جادو ٹونے پر یقین کرتا رہا۔ اس کا استدلال تھا کہ جادوئی علم کی بجائے اشیاء کے اندر جو دوسرے معانی پوشیدہ ہوتے ہیں، ان کے وجود سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ اس نے یہاں ایک اتالیق بھی رکھا اور اس ”منشی“ کے ذریعے یہاں کی مقامی زبان اردو بھی سیکھی۔ روس۔ جاپان جنگ میں روس کو شکست ہو گئی تھی اور فلر اس پر بہت خوش تھا۔ اب وہ کپتان بن چکا تھا۔ لیکن اس کے سینئر فلر کے خیالات سے کچھ ناراض تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی برطانوی آفیسر آج کسی ایشیائی قوم (جاپان) کی کسی یورپی قوم (روس) پر فتح کو باعث ِ مسرت سمجھتا ہے تو کل وہ ہندوستانی فوج کی فتح پر بھی، برطانیہ کے خلاف، یہی ردعمل ظاہر کرے گا…… اور یہ ایک خطرناک بات ہو گی۔ فلر کے یہی خیالات تھے جنہوں نے بعد میں سوشلسٹ تصورات کے ساتھ اس کی عمر بھر کی دوستی کی ابتداء کی۔بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ فلر کو انہی حقیقت پسندانہ خیالات کی سزا ملی۔…… اس کا کچھ ذکر آگے آئے گا۔(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -