درد کا رشتہ

درد کا رشتہ
درد کا رشتہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پندرہ سولہ برس کا نوجوان مجھے اپنے تعلیمی ادارے کے بارے میں بتا رہا تھا۔اُس کا لہجہ ایسا پُراعتما تھا کہ صرف حکمران طبقات کے بچوں ہی میں نظر آتا ہے۔مَیں نے اُس سے پوچھا کہ آپ اور کیا کرتے ہیں؟اُس نے بتایا وہ گلگت،بلتستان میں مزدوری کرتا ہے او ر وہ یہاں کمپیوٹر میں B.C.S کرنے آیا ہے۔ وہ مجھے اپنے ہوسٹل کے ڈرائنگ روم ”طعام خانہ“ کا احوال بتاتے ہوئے بہت فخریہ انداز میں کہہ رہا تھا کہ ہم دو سو سے زائد طلبہ مختلف گروپوں کی صورت میں بیٹھتے ہیں، ہمارے پانچ ساتھی کھانا دیتے ہیں اور گروپ کے کھانے کے بعد وہ خود کھانا کھاتے ہیں۔پھر ہم سب اپنے برتن دھوتے ہیں اور ترتیب سے رکھ دیتے ہیں۔ باورچی خانہ انتہائی صاف ستھرا تھا، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کسی پنج ستارہ ہوٹل کی انتظامیہ بھی شاید ایسا باورچی خارجہ نہ سنبھال سکتی ہو۔ ملک کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے محنت کشوں کے بیٹوں سے کھلتی ہوئی یہ تعلیمی کہکشاں اخوت یونیورسٹی کے  قصور کالج کے طالب علموں کی تھی۔اخوت کے سربراہ اور بانی ڈاکٹر امجد ثاقب نے پورے ملک سے ان محنت کشوں کے بچوں کو تعلیم کے اعلیٰ معیار سے آشنا ہی  نہیں کیا،بلکہ انہوں نے کالج ہوسٹل میں رہنے والے بچوں کو مراعات یافتہ طبقے کے تعلیمی اداروں کے ہوسٹلوں کے معیار کے مطابق اُن کی غذا کا اہتمام بھی کر دیا ہے۔


اتوار کا روز تھا،لاہور کے کالم نگاروں اور صحافیوں کا ایک قافلہ فیروزپور روڈ پر واقع قصبہ مصطفےٰ آباد (للیانی) کے پہلو سے گزرتا ہوا شہر کے کنارے واقع اخوت یونیورسٹی میں ایک خوشی آمیز حیرانی سے طالب علموں سے  مل رہا تھا، جو ہر مہمان کو خوش آمدید کہہ کر اپنے ادارے سے مکمل طور پر متعارف کروا رہے تھے۔یہ نوجوان جانتے تھے کہ اس تعلیمی ادارے کے آئندہ پروگرام کیا ہیں اور اخوت ملک بھر میں غریب اور محنت کش خاندانوں کے بچوں کے لئے کون سے منصوبے تیار کر رہی ہے؟ قصور کے قریب اس عالیشان عمارت کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اگر دِل میں جذبہ اور کردار میں استقامت ہو تو انسان انسانیت کے لئے کیا کچھ کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس عظیم الشان تحریک کی بنیاد کے حوالے سے ایک کہانی سنائی کہ جب وہ ڈپٹی کمشنر تھے تو ایک روز ایک خاتون اُن کے دفتر میں آئی، اُس نے بتایا کہ اس کا خاوند انتقال کر چکا اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ بے آسرا ہے،اگر اسے 10ہزار روپیہ قرض مل جائے تو وہ سلائی کی دو مشینیں خرید کرکام شروع کر سکتی ہے اور دس ہزار روپیہ چھ ماہ کے بعد واپس بھی کر دے گی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس خاتون پر اعتماد کیا اور اُسے10ہزار روپیہ دے دیا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب بتاتے ہیں کہ چھ ماہ بعد وہ خاتون دوبارہ دفتر آئی اور مجھے دس  ہزار روپے واپس کرتے ہوئے کہا کہ مَیں نے ان روپوں سے دو سلائی مشینیں خریدیں اور اب میرے بچے سکول جاتے ہیں اور مَیں گھر کی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو چکی ہوں، لیکن میری آپ سے یہ درخواست ہے کہ یہ پیسے جیب میں مت ڈالئے، بلکہ کسی میری ہی طرح کی محبور عورت کو  قرض دے دیجئے۔


ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا کہ یہ کہانی اخوت کی بنیاد بنی اور آج اربوں روپے ان غریب لوگوں کے کام آ رہے ہیں جو حوصلہ ہار چکے تھے، لیکن ہم نے کہا کہ کسی کی آس ٹوٹنے نہ پائے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب ایک بہترین خطیب بھی ہیں، جب وہ اخوت کی داستان بیان کر رہے تھے اور یہ بتا رہے تھے کہ کس طرح پاکستان کے چاروں صوبوں اور قبائلی علاقوں سمیت وہ محروم طبقات کے بچوں کو تعلیم کے لئے تلاش کرتے ہیں اور انہیں ایک قابل ِ فخر شہری اور تعلیم یافتہ انسان بنا کر معاشرے میں سرخرو کرنا چاہتے ہیں، تو محفل میں کئی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کے ساتھ اُن کے ہمدم دیرینہ اور دست و بازو ڈاکٹر ہاشمی پوری تندہی سے اس عظیم انسانی تجربے کو پایہئ تکمیل تک پہنچانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ روزنامہ ”پاکستان“ کے مدیر اعلیٰ مجیب الرحمن شامی نے اپنی گفتگو میں اس منصوبے کو پاکستان کے بنیادی مقاصد میں شمار کرتے ہوئے کہا: ”اخوت کا قیام ملک کے ہر بچے کو تعلیم سے روشناس کرنا تھا۔ افسوس کہ آج ملک کے چار کروڑ بچے قلم و دوات سے محروم ہیں اور ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے لوگ ایک ایسے کام میں جُتے ہوئے ہیں جو پاکستان کی امیدیں بر لائے گا۔ کاش ہم سب اخوت کے سپاہی بن جائیں اور درد کے رشتے میں پروئے جائیں“۔

مزید :

رائے -کالم -