دوسری لہر اور حکمت عملی
کرونا کی پہلی لہر چین سے آئی اور پوری دنیا میں تیزی سے پھیل گئی تاہم اس وبا سے بچاؤ کے لئے ویکسین تیار کر لی گئی اور انسانوں کو لگنا شروع ہوگئی جس سے اب بچاؤ ممکن ہے اس کا موازنہ پاکستان کی سیاست سے کیا جائے تو کچھ یوں ہے کہ اپوزیشن کی پہلی لہر 27اکتوبر 2019ء میں اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کے دھرنے سے آئی لیکن اس کی ویکسین حکومت نے تیار کی اور مولانافضل الرحمن صاحب کی اسلام آباد سے واپسی ہوگئی اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو قید سے رہائی مل گئی اور وہ علاج کے لئے پاکستان سے برطانیہ روانہ ہوگئے۔ اب پھر ہم آتے ہیں کورونا وائرس کی دوسری لہر کی طرف جو نئی قسم کی شکل میں برطانیہ سے شروع ہوئی ہے یہ بہت خطرناک ہے نئی وبا کا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے یہ وبا دنیا کے لیے خطرناک پیغام سے کم نہیں ۔ عالمی ادارہ صحت نے پوری دنیا کوخبردار کر دیا ہے۔اگر ہم اپنی سیاست کی بات کریں تو ہماری سیاست میں بھی دوسری لہر آگئی ہے۔ اپوزیشن کی یہ دوسری لہر حکومت کے لئے بہت ہی خطرناک ہوسکتی ہے۔یہ بھی برطانیہ سے آئی ہے جس لہر کو حکومت بہت روایتی طریقے سے دیکھ رہی ہے حکومت کواس مرتبہ بڑی حکمت عملی سے کام لینا ہوگا لیکن بدقسمتی سے محترم وزیر اعظم کا طرز عمل بالکل اس طرح ہے جس طرح وہ کنٹینر پر بیٹھ کر بات کیا کرتے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت اپوزیشن کی دوسری لہر کا مقابلہ کرپائے گی؟ کیا حالات و واقعات پہلے کی طرح ہیں؟ کیا ادارے ساتھ دیں گے؟ جو بہت مشکل نظر آتا ہے۔ خیر حکومت جانے یا اپوزیشن۔
اب ہم بات کرتے ہیں برطانیہ سے پھیلنے والی نئی وبا کی۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ کوڈ۔19سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ کورونا وائرس کی اس نئی قسم کے بارے تحقیق پر کام شروع ہوگیا ہے ایسے دعوے سامنے آئے ہیں کہ یہ نئی قسم سابقہ اقسام کے مقابلے میں 60فیصد زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ اطالوی وزیر صحت رابرٹو اسپیرنزا نے کہا ہے کہ اگر چین سے وائرس بغیر کسی نوٹس کے پوری دنیا میں پہنچ سکتا ہے تو ہم اس نئی قسم کے بارے میں فکر مند کیوں نہ ہوں۔ یہ وائرس پہلے بھی روم، وینس اور دیگر علاقوں میں موجود ہو سکتا ہے۔ اٹلی کی میلان یونیورسٹی کے وبائی امراض کے شعبہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس زیادہ خطرناک نہیں لیکن پھیلاؤ کی حیران کن صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمیں دعویٰ سے قبل مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
کورونا وائرس کی یہ نئی قسم دسمبر کے وسط میں برطانیہ میں دریافت ہوئی تھی اور 19دسمبر کو عالمی ادارۂ صحت (WHO) کو آگاہ کیا گیا تھا۔ وائرس کی یہ نئی قسم پہلے وائرس کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔ برطانوی حکومت کے چیف سائنٹیفک آفیسر پیڑک ویلانس نے نئی قسم کے پھیلاؤ کی رفتار اوراعداد وشمار تو نہیں بتائے مگر یہ کہا یہ تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس نئی قسم میں 23مختلف جنیاتی تبدیلیاں ہوتی ہیں جن میں بیشتر کا تعلق وائرس کے اس حصوں سے ہے جو وائرس کو انسانی خلیات میں جکڑنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ نئی قسم سب سے پہلے ستمبر 2020میں سامنے آئی تھی اور نومبر 2020کے وسط میں لندن میں 28فیصد نئے کیسز اس کا نتیجہ تھے جبکہ 9دسمبر تک یہ شرح 60فیصد تک پہنچ گئی۔ عالمی ادارہ صحت نے یورپی ممالک کو برطانیہ میں نئی قسم کے پھیلاو کے حوالے سے اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی لہر کچھ وجوہات سے لگتا ہے کہ یہ انسانی مدافعتی رد عمل کو بدل سکتی ہے انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اس حوالے سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے عالمی ادارہ صحت دنیا کو نئے کورونا وائرس کے خطرات سے بچنے پر زور دے رہا ہے یہ بات پاکستان کے لئے ریڈ الرٹ ہے ہمیں بہت بڑی حکمت عملی اور احتیاط کی ضرورت ہے لیکن پاکستانی عوام کی بے احتیاطی سے بہت زیادہ کیسز رپورٹ ہورہے ہیں جو خطرے کی گھنٹی ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ وائرس نے خود کو نئے روپ میں ڈھال لیا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اس وقت زیادہ تر مریض ہسپتال جانے کے بجائے گھروں میں رہنے اور خود کو آئیسولیٹ کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور دوسری لہر کے دوران صرف شدید علامات والے مریضوں کو ہسپتال لایا جا رہا ہے۔
اب تک ملک میں کورونا وائرس کے مجموعی کیسز کی تعداد 4 لاکھ 66ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے پاکستان میں اس وقت کورونا وائرس کی مثبت شرح 6.07فیصد ہے ملک میں کورونا کے مثبت کیسوں کا سب سے زیادہ تناسب کراچی میں 12.45رہا ہے۔ اس کے بعد پشاور میں 10.96، ایبٹ آباد میں 7.81فیصد،لاہور میں 7.29فیصد، راولپنڈی میں 6.40فیصد، گوجرانوالہ میں 5.62، فیصل آباد میں 2.70فیصد، ملتان میں 3.24فیصد، اور اسلام آباد میں 5.10فیصد ہے۔ صوبوں میں مثبت کیسوں کا تناسب کچھ یوں ہے بلوچستان میں 5.64فیصد، پنجاب میں 4.49فیصد، سندھ میں 7.8فیصد، خیبر پختونخواہ میں 8.40فیصد اور آزاد جموں و کشمیر میں یہ تناسب 6.17فیصد، گلگت بلتستان میں 1.54فیصد ہے۔ ملک بھر میں 2ہزار 380کورونا کے مریضوں کی حالت تشویشناک ہے اور ایسے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
کورونا کی دوسری لہر کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ لوگ انفرادی سطح پر اور عوامی سطح پر کتنی موثرحکمت عملی اپناتے ہوئے حکومتی ایس او پیز پر عمل کرتے ہیں۔ کورونا وائرس تقریباً دو سال رہے گا اس کا حل صرف ویکسین ہے۔ اس وقت تک ہمیں بے حد احتیاط کی ضرورت ہے۔