آدابِ معاہدہ

آدابِ معاہدہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

”رسول اللہ ؐ نے فرمایا خبردار! جس شخص نے ظلم کیا اس پر جس سے معاہدہ ہو چکا یا اس کے حق کو نقصان پہنچایا یا اس کو تکلیف دی اس کی طاقت سے زیادہ یا اس کی رضامندی کے بغیر اس سے کوئی چیز لے لی تو میں اس سے قیامت کے دن جھگڑوں گا۔“(ابوداؤد شریف)
لفظ عقو د عقد کی جمع ہے۔ عقد کا معنی ہے باندھنا۔ لہٰذا جو معاہدہ دو شخصوں یا دو جماعتوں میں بندھ جائے اسے عقد کہا جاتا ہے۔ علامہ جصاصؒ فرماتے ہیں کہ کسی معاملہ کو عقد کہا جائے یا عہد و معاہدہ اس کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ دو فریقوں نے آئندہ زمانے میں کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کی پابندی اپنے لیے لازم کر لی ہو اور دونوں متفق ہو کر اس کے پابند ہو گئے ہوں۔ آج کل ہمارے عرف میں اس کا نام معاہدہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اے ایمان والو! تم اپنے معاہدوں کو پورا کیا کرو۔“ اس ارشاد باری میں ہر طرح کے معاہدے شامل ہیں اس سے مراد وہ معاہدہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے ایمان و اطاعت کے سلسلے میں کیا ہے۔ وہ معاہدات بھی شامل ہیں جو دو فرد کریں جیسے شادی بیاہ کے معاہدے اور خرید و فروخت کے معاہدے اور وہ معاہدے بھی داخل ہیں جو دو قومیں کرتی ہیں لہٰذا بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی بھی لازم ہو گی۔
زمانہ اسلام سے پہلے بھی لوگ معاہدے کرتے تھے لیکن عموماً معاہدات کی پابندی محکومی کی علامت اور معاہدات کو توڑنا جرأت اور برتری کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ لیکن رسول اکرم ؐ نے جو معاہدات فرمائے وہ معاہدات کی تاریخ میں مثالی معاہدے تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ان معاہدات میں بنیادی معاہدہ وہ ہے جو صلح نامہ ”حدیبیہ“ کے نام سے مشہور ہے۔ حدیبیہ ایک کنویں کا نام ہے اس کے ساتھ ایک گاؤں آباد تھا اس وجہ سے اس کا نام حدیبیہ ہوا۔ یہ علاقہ مکہ معظمہ سے تقریباً ۹ میل کے فاصلہ پر ہے اکثر حصہ حرم میں ہے باقی حرم سے باہر ہے رسول اللہ ؐ عمرہ کے ارادہ سے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ یکم ذی قعدہ ۶ھ کو روانہ ہوئے تقریباً پندرہ سو انصار و مہاجرین صحابہ آپ کے ہمراہ تھے۔ جب آپ حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو قریش مکہ سمجھے کہ یہ جنگ کرنے آئے ہیں۔ آپ نے حضرت عثمان ؓ کو قاصد بنا کر بھیجا تاکہ وہ قریش کو آگاہ کر دیں کہ مسلمان جنگ کے ارادہ سے نہیں آئے‘ کفار نے حضرت عثمان ؓ کو روک لیا‘ مسلمانوں کو یہ افواہ پہنچی کہ حضرت عثمان ؓ کو شہید کر دیا گیا ہے۔آپ ؐ نے مسلمانوں سے قصاص عثمان کے لیے موت تک لڑنے کی بیعت کی جو کہ بیعت رضوان کہلاتی ہے۔ قریش کو جب بیعت کی خبر ہوئی تو حضرت عثمان ؓ کو رہا کر دیا اور سہیل بن عمرو کو صلح کا پیغام دے کر بھیجا۔ طویل گفتگو کے بعد ایک معاہدہ تیار ہوا جو کہ”صلح نامہ حدیبیہ“ کہلاتا ہے حضرت علی ؓ کو رسول اکرم ؐ نے معاہدہ لکھنے کا حکم دیا اور سب سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوائی۔ عرب میں قدیم دستور یہ تھا کہ وہ باسمک اللہم لکھا کرتے تھے اسی وجہ سے سہیل نے کہا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو نہیں جانتا قدیم دستور کے مطابق باسمک اللہم لکھو چنانچہ یہی لکھا گیا۔ پھر جب آپ نے محمد رسول اللہ ؐ کا لفظ لکھوایا تو پھر سہیل نے کہا ہم تو آپ کو رسول اللہ نہیں مانتے آپ ؐ نے فرمایا خدا کی قسم میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم میری تکذیب کرو۔ پھر حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ یہ مٹا دو حضرت علی ؓ نے عرض کیا کہ میں تو ہرگز نہیں مٹاؤں گا پھر آپ نے خود مٹا کر محمد بن عبداللہ لکھوایا۔ معاہدہ لکھنے کے آداب میں اسوہئ حسنہ سے یہ مثالیں ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہیں۔
پھر معاہدہ کی شرائط میں سے ہر شرط خوب توجہ کے مقابل ہے۔
ایک شرط یہ تھی کہ دس سال تک لڑائی نہیں ہو گی۔ دوسری شرط یہ تھی کہ قریش کا جو شخص بغیر سرپرست کی اجازت کے مدینہ جائے گا وہ واپس کیا جائے گا اگرچہ وہ مسلمان ہو اور جو شخص مسلمانوں میں سے مکہ آئے گا اسے واپس نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ اس سال محمد ؐ اور ان کے ساتھی بغیر حج و عمرہ کیے مدینہ واپس جائیں اور آئندہ سال صرف تین دن مکہ میں رہ کر عمرہ کر کے واپس ہو جائیں۔ تلوار کے علاوہ کوئی ہتھیار نہ ہو اور تلواریں بھی نیام میں ہوں اور یہ بھی شرط تھی کہ قبائل عرب کو یہ آزادی ہو گی کہ وہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں معاہدہ کر لیں۔
یہ شرائط ہر مسلمان کی کمزوری پر دلالت کرتی ہیں بلکہ بعض مسلمانوں کے ذہنوں میں کچھ بوجھ بھی محسوس ہوا لیکن اس معاہدہ کے بعد پیش آنے والے مفید نتائج نے ثابت کر دیا کہ یہ معاہدہ تاریخ اسلام کا ایک ایسا اہم واقعہ تھا جو مسلمانوں کی آئندہ کامیابیوں کا پیش خیمہ بنا۔
چنانچہ جب رسول اکرم ؐ صلح حدیبیہ سے واپس ہوئے تو راستے میں سورہئ فتح نازل ہوئی جس میں اس صلح کو فتح مبین کہا گیا۔
اس معاہدہ سے بطور اسوہئ حسنہ یہ بات معلوم ہوئی کہ مسلمانوں کے سربراہ اگر کافروں سے صلح کا معاہدہ کرنے میں اسلام اور مسلمانوں کا نفع سمجھیں تو صلح کر لینا جائز ہے اور اگر صلح کا معاہدہ کرنے میں اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ نہ ہو تو پھر صلح جائز نہیں کیونکہ یہ فریضہ جہاد کے خلاف ہے۔ اس معاہدہ سے ایک اصول یہ بھی معلوم ہوا کہ کافروں سے معاہدہ کے وقت بلامعاوضہ اور معاوضہ دے کر اور معاوضہ لے کر تینوں طرح معاہدہ جائز ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ؐ نے ہجرت کے بعد یہود مدینہ سے معاوضہ لیے اور دیئے بغیر معاہدہ فرمایا اسی طرح معاہدہ حدیبیہ میں بھی معاوضہ کا تذکرہ نہیں ہے۔ لیکن رسول اکرم ؐ نے نصارائے نجران سے جو معاہدہ فرمایا اس میں مال لینے کی شرط ٹھہرائی اس معاہدہ میں یہ تھا کہ اہل نجران ہر سال دو ہزار یمنی چادروں کے جوڑے دیں گے ایک ہزار صفر میں اور ایک ہزار رجب میں اور غزوہئ احزاب میں رسول اللہ ؐ نے عیینہ بن حصن فزاری کو مدینہ کی نصف کھجوریں دے کر صلح کا ارادہ فرمایا معلوم ہوا کہ معاہدہ میں معاوضہ کی تینوں صورتیں جائز ہیں۔
معاہدات کے بارے میں اسوہئ حسنہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ معاہدات کو لکھوا لینا چاہیے۔ جیسا کہ احادیث اور تاریخ کی کتب میں مختلف معاہدات کے لکھنے کا حکم موجود ہے جیسے معاہدہ صلح نامہ ”حدیبیہ“ اہل نجران سے کیا گیا معاہدہ‘ ثقیف سے کیا گیا معاہدہ، بنو ثقیف کے مسلمانوں سے کیا گیا معاہدہ، دومۃ الجندل کے باشندوں کے نام رسول اللہ ؐ کا معاہدہ، ہجر کے باشندوں کے لیے معاہدہ، اہل مدینہ اور یہود کے درمیان کیا گیا مشہور معاہدہ۔
معاہدات کے بارے میں یہ ادب بھی اسوہئ حسنہ سے معلوم ہوا کہ عہد نامہ کی دو نقلیں ہونی چاہئیں تاکہ ہر فریق کے پاس ایک ایک کاپی محفوظ رہے۔ جیسا کہ صلح نامہ حدیبیہ کی ایک کاپی رسول اللہ ؐ کے پاس رہی اور دوسری کاپی سہیل بن عمرو کے پاس رہی۔
معاہدات کے لیے ایک بات یہ بھی رسول اللہ ؐ نے سکھائی کہ جب معاہدہ ہو جائے تو دونوں فریقوں کے ذمہ دار افراد ان دستاویزات پر دستخط کریں۔ جیسا کہ حدیبیہ میں جب عہد نامہ لکھا گیا تو مسلمانوں کی طرف سے حضرت ابوبکر بن ابی قحافہ، حضرت عمر بن الخطاب‘ حضرت عثمان بن عفان، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح، رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے دستخط کیے اور معاہدہ لکھنے والے حضرت علی ؓ نے بھی دستخط فرمائے اور مشرکین کی طرف سے بھی کئی افراد نے دستخط کیے ان میں سے ایک حویطب بن عبدالعزیٰ اور مکرز بن حفص کے دستخط ہوئے۔
رسول اکرم ؐ نے جن لوگوں سے معاہدہ فرمایا ان کے معاشی اور تجارتی حقوق کا بھی خیال رکھا۔ چنانچہ بنو ثقیف کے معاہدے کی یہ شق بھی تھی اور اس میں اس کی واضح مثال موجود ہے اور پھر معاہدات کی پابندی اور پاسداری کرنے کے بعد رسول اکرم ؐ اور آپ کے صحابہ نے ان معاہدات کی پابندی اور پاسداری کا ایک اعلیٰ معیار امت کے سامنے رکھ دیا۔ اس لیے کہ وہ ذات امین اور صادق ہے جس کے معاہدات بھی دین اسلام کی دعوت کا ذریعہ ہیں۔
٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -