ایک بہترین منتظم

 ایک بہترین منتظم
 ایک بہترین منتظم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 وطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں بے شمار بیوروکریٹس ایسے رہے ہیں جنہوں نے اپنی محنت، دیانت، وفاداری اور مستقل مزاجی کی بدولت ہمیشہ نیک نامی کمائی، اِس فہرست میں ایک بڑا نام وزیر اعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری محمد خان بھٹی کا ہے۔ بھٹی صاحب ان تمام اوصاف حمیدہ کے حامل ہیں، جو ایک اچھے بیورو کریٹ میں ہونے چاہئیں، 12اپریل 1968ءکو ضلع منڈی بہاﺅالدین میں پیدا ہونے والے محمد خان بھٹی نے اس کہاوت کو سچ کردکھایا کہ مسلسل محنت، لگن، ایمانداری اور اپنے کام سے وفا داری کی وجہ سے کوئی بھی انسان ترقی کی معراج پر پہنچ سکتا ہے۔ ملک کی ایک ممتاز جامعہ یونیورسٹی آف پنجاب سے فارغ التحصیل محمد خان بھٹی دراصل ایک کرشماتی شخصیت کے حامل انسان ہیں، 1997 ءمیں گریڈ 18 میں پنجاب اسمبلی میں سٹیٹ آفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے تو پارلیمانی روایات اورقانون سازی کے معاملات میں اُن کی گرفت اور خداداد صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے پہلے انہیں ڈپٹی سیکرٹری اور پھر ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ ان عہدوں پر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے بعد محمد خان بھٹی 2008 ءمیں سیکرٹری پنجاب اسمبلی کے عہدے پر فائز ہوئے، ساڑھے تین سال تک بطور سیکرٹری اسمبلی کے معاملات کو نہایت شاندار طریقے سے چلاتے رہے، انہوں نے اپنی تعیناتی کے دوران پارلیمانی وفود کے ہمراہ کئی ممالک کے دورے کئے۔


یہ غالباً2002ءکا ذکر ہے جب لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مرحوم خواجہ شریف صاحب کے ہمراہ ایک بار بھٹی صاحب سے ملاقات کا اتفاق ہوا۔ بھٹی صاحب کے جانے کے بعد خواجہ صاحب جو کہ ایک جج ہونے کے ساتھ ایک روحانی شخصیت بھی تھے، انہوں نے فرمایا کہ میں اپنی زندگی میں اب تک جتنے بھی سرکاری افسروں سے ملا ہوں، اُن سب میں سے بھٹی صاحب کو سب سے بہتر پایا، پھر فرمانے لگے کہ ایک وقت آئے گا جب یہ صوبے کے سب سے بڑے سرکاری عہدے پر فائز ہو جائیں گے،اِس واقعہ کے گواہ ہائی کورٹ کے دو نامور وکلاءہیں، جو اُس وقت خواجہ صاحب کے آفس میں موجود تھے۔ خواجہ شریف صاحب کے بارے میں بتاتے چلیں کہ انہیں حضرت داتا علی ہجویریؒ سے بے پناہ عقیدت تھی اور یہ اسی فیض کا نتیجہ ہے کہ اُن کی کہی گئی بے شمار باتیں بعد میں آنے والے دِنوں میں حرف بہ حرف پوری ہوئیں۔ بعدازاں جب چند ماہ کے بعد خواجہ صاحب سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو راقم نے اُن سے بھٹی صاحب کے بارے میں کی گئی پیشین گوئی کے بارے میں تفصیلی اظہار خیال کرنے کی درخواست کی تو انہوں نے کہا کہ دراصل اپنے کام پر گرفت،اپنے کام سے محبت، مخلوق کی خدمت، ایمانداری اور مستقل مزاجی کے ساتھ ساتھ جس انسان میں وفاداری کا جوہر بھی پایا جائے،اُسے ترقی کرنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ خواجہ صاحب کی اِس بات سے ہمیں حضرت علی کا وہ قول یاد آ گیا جس میں فرمایا گیا ہے کہ جس انسان میں وفاداری نہ ہو اُس سے دوستی کرنا اور اُسے کوئی عہدہ دینا دراصل خود کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوتا ہے،اس لئے ہمیشہ دوستی کرتے وقت اور اپنے عمال حکومت کو تعینات کرتے وقت یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ وہ شخص اپنے کام سے مخلص بھی ہے یا نہیں ؟


بھٹی صاحب کا طویل سرکاری کیرئیر اِس بات کا غماض ہے کہ بنیادی طور پر وہ ایک نظریاتی انسان ہیں جو عہدوں کے لالچ میں اپنے نظریات کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑ سکتے، انہیں اپنے نظریات سے محبت کی سزا جبری رخصتی کی صورت میں بھی بھگتنا پڑی، سیاسی مخالفین نے انہیں کئی حوالوں سے تنگ کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے بھی استعمال کیے لیکن مجال ہے کہ اس مردِ حُر کے پائے استقلال میں جو ہلکی سی لغزش بھی آئی ہو ۔ہر طرح کی مخالفت، مختلف ترغیبات اور دباﺅ کے باوجود انہوں نے اپنے مخالفین کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ ایک سچے آفیسر کی سب سے بڑی نشانی ہی یہ ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنے نظریات کا سودا نہ کرے اور اپنے دوستوں سے، اپنے کام سے وفاداری کا ہمیشہ پاس رکھے ۔صوبہ پنجاب کی حقیقی سیاسی قیادت چودھری برادران سے اُن کا پیار اور احترام کا رشتہ سبھی پر عیاں ہے، دراصل چودھری پرویز الٰہی صاحب ہمیشہ سے ایسے افسروں کو پسند کرتے آئے ہیں جو ہمہ وقت عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں جو وقت کے بڑے سے بڑے فرعونوں کے ساتھ بھی نظریات کی جنگ میں ٹکرا جانے کا حوصلہ رکھتے ہوں، جو مخالفین کے پروپیگنڈے کی پرواہ کئے بغیر عوام کی خدمت جاری رکھیں، یہی وجہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی نے وزیراعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالتے ہی محمد خان بھٹی کو پرنسپل سیکرٹری لگانے کے احکامات جاری کیے۔ ہمیں یقین ہے کہ بھٹی صاحب جیسے افسروں کی مدد سے چودھری پرویز الٰہی کی حکومت پنجاب کے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے اپنی روایتی لگن سے کام کرتی رہے گی ۔

مزید :

رائے -کالم -