کوئی کارواں سے ٹوٹا....!
ماہنامہ ”الحمرائ“ ادبی جریدہ ہے۔شاہد علی خاں اِسے بڑے سلیقے قرینے سے ترتیب دیتے ہیں۔ جنوری کا شمارہ سالنامہ ہے۔ چار سو صفحات پر مشتمل یہ اشاعت ادب کے قاری کو عجیب لطف و انبساط سے سرشار کرتی ہے۔ اِس کے مندرجات میں یادنگاری کا گوشہ بہت قابل توجہ ہے۔ ماہ رواں میں جناب اقبال فیروز نے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے متعلق ایک ایسا واقعہ رقم کیا ہے جو اپنے تاثیر و تاثر کے اعتبار سے خاص معنویت کا حامل ہے اور ہمارے قومی مزاج کا ایک فکر انگیز زاویہ سامنے لاتا ہے۔اقبال فیروز صاحب نے اُن دنوں کو آواز دی ہے جب تحریک ختم نبوت(1974ئ) آخری مرحلے میں تھی اور قومی اسمبلی مسئلہ ختم نبوت کو باقاعدہ آئینی تحفظ دینے والی تھی۔ بادشاہی مسجد لاہور میں تمام دینی اور سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو رہی تھیں۔ مولانا مودودیؒ سے تقاضا ہورہا تھا کہ وہ بھی اِس پروگرام میں شریک ہوں۔اقبال فیروز بھی ایسے ہی ایک وفد کے ساتھ مولانا کے رُوبرو بیٹھے واضح کر رہے تھے کہ اُس وقت ایسے پروگرام میں مولانا کی شرکت تحریک کے لئے تقویت کا باعث بنے گی۔ مولانا معذوری ظاہر کر رہے تھے کہ میرے گھٹنے مسجد کی سیڑھیاں چڑھنے میں مزاحم ہوں گے۔ قاری محمد اکبر نے کہا: جہاں تک گھٹنوں کے درد کی بناءپر مسجد کی سیڑھیاں چڑھنے میں کسی دقت کا مسئلہ ہے تو اِس کا حل یہ ہے کہ مسجد کے اندر، منبر تک ایک عقبی راستہ موجود ہے جہاں کار باآسانی جاسکتی ہے اور سیڑھیاں چڑھنے کی زحمت ہی اُٹھانی نہیں پڑتی۔اب باقی سرگزشت جناب اقبال فیروز کے الفاظ میں سنیئے!”مولانا پہلے دو تین جملے تو برداشت کر گئے، پھر تیوری چڑھا کر کہنے لگے....”مولوی! تمہیں کیا معلوم یہ جلسوں کی سیاست کیسی بیہودہ چیز ہے۔ مَیں نے دنیا دیکھی ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ عام آدمی جو نارمل حالات میں انتہائی مو¿دب اور شائستہ نظر آتا ہے، جب جلسہ عام میں ہوتا ہے تو اُس کی ذہنیت ہی بدل جاتی ہے۔ عوامی جلسوں میں جو ہڑبونگ اور ہا ہاکار مچتی ہے، مجھے اُس سے شدید وحشت ہوتی ہے“.... اب قاری صاحب نے معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھا تو مَیں اپنی ساری خود اعتمادی اپنے لہجے میں مرتکز کر کے عرض پرداز ہوا کہ:” یہ مسئلہ تاریخِ اسلام کے حساس ترین مسائل میں سے ہے اور یہ جلسہ نہ صرف تحریک بلکہ تاریخ کے اہم ترین مرحلے پر منعقد ہو رہا ہے۔ اِس جلسہ سے صرفِ نظر یا گریز مسلمان قوم کبھی معاف نہیں کرے گی، پھر اِس وقت رُوئے زمین پر آپ سے بڑھ کر کون سا وجود ہے، جس پر شعائرِ اسلام کے دفاع کی ذمہ داری آتی ہو“.... مولانا نے میری یہ گزارش سنی تو میرا تعارف چاہا۔ قاری صاحب نے عرض کیا، اِن کا نام اقبال فیروز ہے۔پہلے صحافت سے منسلک رہے۔ چٹان اور کوہستان میں کام کیا۔ پھر اورینٹل کالج میں پروفیسر ہوگئے۔ اب پروفیسری چھوڑ کر اپنا ہوٹل بنا لیا ہے“.... یہ فقرہ سننا تھا کہ مولانا کا چہرہ اُتر گیا۔ حیرت زدہ لہجے میں یہ کہتے ہوئے.... ”ہیں! پروفیسری چھوڑ کر ہوٹل کا کاروبار کر لیا؟“.... مولانا نے میری طرف سے منہ پھر لیا۔ مولانا کا منہ پھیرنا تھا کہ مجھے یوں لگا جیسے تقدیر مجھ سے منہ پھیر رہی ہو۔ اللہ کا کرم خاص یہ ہوا کہ میرے ہونٹوں سے فی الفور، بے ساختہ یہ الفاظ نکل گئے....” مولانا! میرے والد صاحب بہت ضعیف ہوگئے تھے۔اُن کے حکم پر پروفیسری چھوڑنا پڑی“.... مولانا کے معصوم چہرے کی بشاشت لوٹ آئی۔ اب مَیں نے بھی موقع غنیمت جان کر بات آگے بڑھا دی کہ عوامی جلسے میں ہنگاموں اور ہڑبونگ کے متعلق آپ کا ارشاد بجا ہے مگر عوامی جذبات، پوری دیانت سے آپ تک پہنچانا بھی تو ہمارا فرض بنتا ہے۔ مولانا خندہ پیشانی سے وعدہ کرتے ہوئے کہ اگر صحت نے اجازت دی تو وہ جلسہ میں شرکت کی پوری کوشش کریں گے، ہمیں الوداع کیا۔مولانا نے اپنا وعدہ نبھایا اور اُفتاں و خیزاں جلسے میں چلے گئے، مگر جو تماشا وہاں رچایا گیا وہ مولانا کے اندازے اور اندیشے کے عین مطابق تھا کہ شاہی مسجد میں مولانا کی تقریر کے دوران مفتی محمود صاحب کروفر اور جاہ و جلال کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے”جے یو آئی“ کے بپھرے ہوئے کارکنوں نے نعرئہ تکبیر اور مفتی اعظم زندہ باد کے نعروں سے آسمان سر پر اُٹھا لیا اور مولانا جو دھیمے لہجے میں تقریر کرنے اور جچے تُلے لفظوں میں بات کرنے کے عادی تھے، اِس نعرہ زنی سے پریشان ہوگئے۔ دوسری طرف اسلامی جمعیت طلباءکے پُرجوش اور گرم خون نوجوانوں نے پیر مودودیؒ ، سید مودودی کے نعرے لگا لگا کر طوفان بپا کر دیا۔ مولانا اِس صورت حال سے آزردہ خاطر ہو کر، تقریر درمیان ہی میں چھوڑ کر جلسہ گاہ سے باہر نکل گئے اور میدان خطابت، مفتی محمود کے لئے کھلا چھوڑ گئے۔ چند لمحے مزید یہ طوفانِ بدتمیزی جاری رہتا تو عین ممکن تھا کہ نوبت پہلے ہاتھا پائی، دھینگا مشتی اور پھر مار کٹائی تک پہنچ جاتی۔ جلسہ کے بقیہ لمحات بدمزگی سے سہی مگر خدا خدا کر کے عافیت سے گزر گئے اور یہ جلسہ اپنی کامیابی کے گہرے نقوش ثبت کر کے ذہنوں میں اپنی ایک یاد چھوڑ گیا۔“اقبال فیروز صاحب نے جس موقعہ کا ذکر کیا ہے، اتفاق سے میں بھی وہاں موجود تھا۔ مَیں سامعین کے درمیان سٹیج سے دس بیس فٹ دُور بیٹھا تھا۔ مولانا مودودیؒ کی آمد کی اطلاع گولے چھوٹنے کی آواز کے ساتھ ملی۔ نعروں کا کچھ شور بھی سنائی دیا۔ مولانا سٹیج پر سامعین کے رُوبرو بیٹھے اور لب کشا ہوئے تو اچانک ایک طرف سے شور بلند ہوا۔ مولانا رُک گئے۔ دوچار لمحوں کے بعد دوبارہ بات شروع کی تو شور پھر مزاحم ہوگیا۔ مولانا دوبارہ رُک گئے۔ چند منٹ بعد شور تھم گیا تو مولانا تیسری بار بولنے پر آمادہ ہوئے۔ ابھی چند الفاظ ہی کہہ پائے کہ شور اتنے زور سے برپا ہوا کہ مولانا کی قوتِ برداشت جواب دے گئی۔ وہ خاموشی سے اُٹھے اور سٹیج کے عقب میں چلے گئے۔ اب معلوم ہوا کہ مولانا مفتی محمود کو عین مجمع کے درمیان سے لایا جا رہا ہے۔ اِس کے بعد جلسہ بُرے بھلے انداز میں جاری تو رہا، لیکن مجمع دوبارہ جم نہ سکا۔بعد میں معلوم ہوا کہ مجلس عمل کے فیصلے کے مطابق سٹیج خاکسار تحریک کے کارکنوں کے سپرد تھا۔ یہ لوگ ڈسپلن کے بہت پابند ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے کسی جماعت کے کارکنوں کو نزدیک نہ آنے دیا، لیکن جب جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے نوجوانوں نے باہر نعرہ بازی کا طوفان اُٹھایا تو ڈسپلن ٹوٹنے لگا۔ خاکساروں نے مذکورہ دونوں جماعتوں کے پُرجوش کارکنوں کو سٹیج کے نزدیک آنے سے روکے رکھا، بلکہ بعض کو لگام ڈالنے کے لئے سختی بھی کی۔ اُس وقت میرے ہمراہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک رکن تھے ۔ وہ بار بار ٹکڑیوں میں بٹے لوگوں میں گھس جاتے اور ہنگامے پر تبصرہ کرنے والوں کے سامنے بولنا شروع کر دیتے کہ ہنگامے کی ساری ذمے داری مولانا مفتی محمود کے پیروکاروں پر عائد ہوتی ہے۔وہ مفتی صاحب کو مجمع کے درمیان سے کیوں لائے؟ مَیں نے بار بار اپنے اُس دوست سے کہا، جلسہ اُکھڑ گیا ہے۔ اب کوئی کام کی بات تو ہونے سے رہی، چلو واپس چلتے ہیں۔ وہ دوست میرا ہاتھ یہ کہہ کر جھٹک دیتا کہ چپ رہو، مجھے ذرا پروپیگنڈہ کر لینے دو۔یوں مجھے زندگی میں پہلی بار اندازہ ہوا کہ جماعتوں کے وابستگان جماعت پرستی کے معاملے میں کتنے شدید ہوتے ہیں۔ اپنی جماعت خواہ غلطی پر ہو، اُسے ہر لحاظ سے صحیح ثابت کرنا ہے اور دوسری جماعت خواہ حق پر ہو، اُسے پھر بھی باطل ہی قرار دینا ہے۔ آج جماعت پرستی کا زہر پوری قوم کے رگ و ریشے میں سما چکا ہے۔ بڑے بڑے توحید پرستوں کے سینوں میں بھی یہ بت بڑی شان سے بیٹھا اپنی پوجا کروا رہا ہے، لیکن زبانوں پر توحید ہی کے دعوے رہتے ہیں!اپنی تحریر کے آخر میں اقبال فیروز صاحب نے علامہ اقبالؓ کا ایک شعر بہت برمحل رقم کیا ہے: کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سےکہ میر کارواں میں نہیں خُوئے دلنوازییوں لگتا ہے یہی شعر اُن کی یادنگاری کا محرک بنا ہے!
ماہنامہ ”الحمرائ“ ادبی جریدہ ہے۔شاہد علی خاں اِسے بڑے سلیقے قرینے سے ترتیب دیتے ہیں۔ جنوری کا شمارہ سالنامہ ہے۔ چار سو صفحات پر مشتمل یہ اشاعت ادب کے قاری کو عجیب لطف و انبساط سے سرشار کرتی ہے۔ اِس کے مندرجات میں یادنگاری کا گوشہ بہت قابل توجہ ہے۔ ماہ رواں میں جناب اقبال فیروز نے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے متعلق ایک ایسا واقعہ رقم کیا ہے جو اپنے تاثیر و تاثر کے اعتبار سے خاص معنویت کا حامل ہے اور ہمارے قومی مزاج کا ایک فکر انگیز زاویہ سامنے لاتا ہے۔اقبال فیروز صاحب نے اُن دنوں کو آواز دی ہے جب تحریک ختم نبوت(1974ئ) آخری مرحلے میں تھی اور قومی اسمبلی مسئلہ ختم نبوت کو باقاعدہ آئینی تحفظ دینے والی تھی۔ بادشاہی مسجد لاہور میں تمام دینی اور سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو رہی تھیں۔ مولانا مودودیؒ سے تقاضا ہورہا تھا کہ وہ بھی اِس پروگرام میں شریک ہوں۔اقبال فیروز بھی ایسے ہی ایک وفد کے ساتھ مولانا کے رُوبرو بیٹھے واضح کر رہے تھے کہ اُس وقت ایسے پروگرام میں مولانا کی شرکت تحریک کے لئے تقویت کا باعث بنے گی۔ مولانا معذوری ظاہر کر رہے تھے کہ میرے گھٹنے مسجد کی سیڑھیاں چڑھنے میں مزاحم ہوں گے۔ قاری محمد اکبر نے کہا: جہاں تک گھٹنوں کے درد کی بناءپر مسجد کی سیڑھیاں چڑھنے میں کسی دقت کا مسئلہ ہے تو اِس کا حل یہ ہے کہ مسجد کے اندر، منبر تک ایک عقبی راستہ موجود ہے جہاں کار باآسانی جاسکتی ہے اور سیڑھیاں چڑھنے کی زحمت ہی اُٹھانی نہیں پڑتی۔اب باقی سرگزشت جناب اقبال فیروز کے الفاظ میں سنیئے!”مولانا پہلے دو تین جملے تو برداشت کر گئے، پھر تیوری چڑھا کر کہنے لگے....”مولوی! تمہیں کیا معلوم یہ جلسوں کی سیاست کیسی بیہودہ چیز ہے۔ مَیں نے دنیا دیکھی ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ عام آدمی جو نارمل حالات میں انتہائی مو¿دب اور شائستہ نظر آتا ہے، جب جلسہ عام میں ہوتا ہے تو اُس کی ذہنیت ہی بدل جاتی ہے۔ عوامی جلسوں میں جو ہڑبونگ اور ہا ہاکار مچتی ہے، مجھے اُس سے شدید وحشت ہوتی ہے“.... اب قاری صاحب نے معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھا تو مَیں اپنی ساری خود اعتمادی اپنے لہجے میں مرتکز کر کے عرض پرداز ہوا کہ:” یہ مسئلہ تاریخِ اسلام کے حساس ترین مسائل میں سے ہے اور یہ جلسہ نہ صرف تحریک بلکہ تاریخ کے اہم ترین مرحلے پر منعقد ہو رہا ہے۔ اِس جلسہ سے صرفِ نظر یا گریز مسلمان قوم کبھی معاف نہیں کرے گی، پھر اِس وقت رُوئے زمین پر آپ سے بڑھ کر کون سا وجود ہے، جس پر شعائرِ اسلام کے دفاع کی ذمہ داری آتی ہو“.... مولانا نے میری یہ گزارش سنی تو میرا تعارف چاہا۔ قاری صاحب نے عرض کیا، اِن کا نام اقبال فیروز ہے۔پہلے صحافت سے منسلک رہے۔ چٹان اور کوہستان میں کام کیا۔ پھر اورینٹل کالج میں پروفیسر ہوگئے۔ اب پروفیسری چھوڑ کر اپنا ہوٹل بنا لیا ہے“.... یہ فقرہ سننا تھا کہ مولانا کا چہرہ اُتر گیا۔ حیرت زدہ لہجے میں یہ کہتے ہوئے.... ”ہیں! پروفیسری چھوڑ کر ہوٹل کا کاروبار کر لیا؟“.... مولانا نے میری طرف سے منہ پھر لیا۔ مولانا کا منہ پھیرنا تھا کہ مجھے یوں لگا جیسے تقدیر مجھ سے منہ پھیر رہی ہو۔ اللہ کا کرم خاص یہ ہوا کہ میرے ہونٹوں سے فی الفور، بے ساختہ یہ الفاظ نکل گئے....” مولانا! میرے والد صاحب بہت ضعیف ہوگئے تھے۔اُن کے حکم پر پروفیسری چھوڑنا پڑی“.... مولانا کے معصوم چہرے کی بشاشت لوٹ آئی۔ اب مَیں نے بھی موقع غنیمت جان کر بات آگے بڑھا دی کہ عوامی جلسے میں ہنگاموں اور ہڑبونگ کے متعلق آپ کا ارشاد بجا ہے مگر عوامی جذبات، پوری دیانت سے آپ تک پہنچانا بھی تو ہمارا فرض بنتا ہے۔ مولانا خندہ پیشانی سے وعدہ کرتے ہوئے کہ اگر صحت نے اجازت دی تو وہ جلسہ میں شرکت کی پوری کوشش کریں گے، ہمیں الوداع کیا۔مولانا نے اپنا وعدہ نبھایا اور اُفتاں و خیزاں جلسے میں چلے گئے، مگر جو تماشا وہاں رچایا گیا وہ مولانا کے اندازے اور اندیشے کے عین مطابق تھا کہ شاہی مسجد میں مولانا کی تقریر کے دوران مفتی محمود صاحب کروفر اور جاہ و جلال کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے”جے یو آئی“ کے بپھرے ہوئے کارکنوں نے نعرئہ تکبیر اور مفتی اعظم زندہ باد کے نعروں سے آسمان سر پر اُٹھا لیا اور مولانا جو دھیمے لہجے میں تقریر کرنے اور جچے تُلے لفظوں میں بات کرنے کے عادی تھے، اِس نعرہ زنی سے پریشان ہوگئے۔ دوسری طرف اسلامی جمعیت طلباءکے پُرجوش اور گرم خون نوجوانوں نے پیر مودودیؒ ، سید مودودی کے نعرے لگا لگا کر طوفان بپا کر دیا۔ مولانا اِس صورت حال سے آزردہ خاطر ہو کر، تقریر درمیان ہی میں چھوڑ کر جلسہ گاہ سے باہر نکل گئے اور میدان خطابت، مفتی محمود کے لئے کھلا چھوڑ گئے۔ چند لمحے مزید یہ طوفانِ بدتمیزی جاری رہتا تو عین ممکن تھا کہ نوبت پہلے ہاتھا پائی، دھینگا مشتی اور پھر مار کٹائی تک پہنچ جاتی۔ جلسہ کے بقیہ لمحات بدمزگی سے سہی مگر خدا خدا کر کے عافیت سے گزر گئے اور یہ جلسہ اپنی کامیابی کے گہرے نقوش ثبت کر کے ذہنوں میں اپنی ایک یاد چھوڑ گیا۔“اقبال فیروز صاحب نے جس موقعہ کا ذکر کیا ہے، اتفاق سے میں بھی وہاں موجود تھا۔ مَیں سامعین کے درمیان سٹیج سے دس بیس فٹ دُور بیٹھا تھا۔ مولانا مودودیؒ کی آمد کی اطلاع گولے چھوٹنے کی آواز کے ساتھ ملی۔ نعروں کا کچھ شور بھی سنائی دیا۔ مولانا سٹیج پر سامعین کے رُوبرو بیٹھے اور لب کشا ہوئے تو اچانک ایک طرف سے شور بلند ہوا۔ مولانا رُک گئے۔ دوچار لمحوں کے بعد دوبارہ بات شروع کی تو شور پھر مزاحم ہوگیا۔ مولانا دوبارہ رُک گئے۔ چند منٹ بعد شور تھم گیا تو مولانا تیسری بار بولنے پر آمادہ ہوئے۔ ابھی چند الفاظ ہی کہہ پائے کہ شور اتنے زور سے برپا ہوا کہ مولانا کی قوتِ برداشت جواب دے گئی۔ وہ خاموشی سے اُٹھے اور سٹیج کے عقب میں چلے گئے۔ اب معلوم ہوا کہ مولانا مفتی محمود کو عین مجمع کے درمیان سے لایا جا رہا ہے۔ اِس کے بعد جلسہ بُرے بھلے انداز میں جاری تو رہا، لیکن مجمع دوبارہ جم نہ سکا۔بعد میں معلوم ہوا کہ مجلس عمل کے فیصلے کے مطابق سٹیج خاکسار تحریک کے کارکنوں کے سپرد تھا۔ یہ لوگ ڈسپلن کے بہت پابند ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے کسی جماعت کے کارکنوں کو نزدیک نہ آنے دیا، لیکن جب جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے نوجوانوں نے باہر نعرہ بازی کا طوفان اُٹھایا تو ڈسپلن ٹوٹنے لگا۔ خاکساروں نے مذکورہ دونوں جماعتوں کے پُرجوش کارکنوں کو سٹیج کے نزدیک آنے سے روکے رکھا، بلکہ بعض کو لگام ڈالنے کے لئے سختی بھی کی۔ اُس وقت میرے ہمراہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک رکن تھے ۔ وہ بار بار ٹکڑیوں میں بٹے لوگوں میں گھس جاتے اور ہنگامے پر تبصرہ کرنے والوں کے سامنے بولنا شروع کر دیتے کہ ہنگامے کی ساری ذمے داری مولانا مفتی محمود کے پیروکاروں پر عائد ہوتی ہے۔وہ مفتی صاحب کو مجمع کے درمیان سے کیوں لائے؟ مَیں نے بار بار اپنے اُس دوست سے کہا، جلسہ اُکھڑ گیا ہے۔ اب کوئی کام کی بات تو ہونے سے رہی، چلو واپس چلتے ہیں۔ وہ دوست میرا ہاتھ یہ کہہ کر جھٹک دیتا کہ چپ رہو، مجھے ذرا پروپیگنڈہ کر لینے دو۔یوں مجھے زندگی میں پہلی بار اندازہ ہوا کہ جماعتوں کے وابستگان جماعت پرستی کے معاملے میں کتنے شدید ہوتے ہیں۔ اپنی جماعت خواہ غلطی پر ہو، اُسے ہر لحاظ سے صحیح ثابت کرنا ہے اور دوسری جماعت خواہ حق پر ہو، اُسے پھر بھی باطل ہی قرار دینا ہے۔ آج جماعت پرستی کا زہر پوری قوم کے رگ و ریشے میں سما چکا ہے۔ بڑے بڑے توحید پرستوں کے سینوں میں بھی یہ بت بڑی شان سے بیٹھا اپنی پوجا کروا رہا ہے، لیکن زبانوں پر توحید ہی کے دعوے رہتے ہیں!اپنی تحریر کے آخر میں اقبال فیروز صاحب نے علامہ اقبالؓ کا ایک شعر بہت برمحل رقم کیا ہے: کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سےکہ میر کارواں میں نہیں خُوئے دلنوازییوں لگتا ہے یہی شعر اُن کی یادنگاری کا محرک بنا ہے!