نیوکلیئر پاکستان کی آخری آپشن؟
اگر آپ آج دنیا کے جوہری ممالک کی ایک فہرست بنائیں تو سب سے پہلے نمبر پر امریکہ آئے گا اور سب سے آخری نمبر پر پاکستان ہوگا....اسرائیل دنیا کا آٹھواں جوہری ملک ضرور ہے، مگر وہ ہنوز غیر علانیہ نیوکلیئر پاور ہے۔یہ بات دوسری ہے کہ جوہری بموں کو کسی بھی دشمن پر گرانے کے جو جو وسائل ہو سکتے ہیں، وہ نہ صرف اسرائیل کے پاس موجود ہیں، بلکہ بھارت اور پاکستان کے علاوہ دوسرے جوہری ملکوں کے مقابلے میں، تعداد اور رینج کے اعتبار سے بھی زیادہ موثر ہیں۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں جوہری بم کو تین پلیٹ فارموں سے فائر کیاجا سکتا ہے....(1)کسی میزائل کے ذریعے (2)کسی آبدوز کے ذریعے اور ....(3)کسی طیارے کے ذریعے....پاکستان کے پاس فی الحال ان میں سے دو وسائل یعنی طیارے اور میزائل موجود ہیں اور یہی حال بھارت کا ہے۔اس کے پاس ابھی تک کسی آبدوز سے کوئی جوہری بم فائر کرنے کا وسیلہ موجود نہیں۔وہ کوشش میں ہے اور شائد آئندہ چند برسوں میں جوہری آبدوز بنالے اور یہ تیسرا وسیلہ بھی اس کے ہاتھ آ جائے۔روس سے لیز پر حاصل کی گئی ایک جوہری آبدوز آج کل بھارت کے پاس ہے،جس پر اس کی اپنی خانہ ساز جوہری آبدوز کے عملے کو تربیت دی جارہی ہے۔لیکن اگر پاکستان کے پاس صرف ایک ذریعہ (ڈلیوری سسٹم) بھی ہوتا تو بھی جوہری بم کا ڈیٹرنس موجود ہوتا۔بھارت نے اپنے یوم جمہوریہ (26جنوری 2013ئ)پر جو ”اگنی پنجم“ کا تجربہ کیاہے، اس کی رینج نہ صرف چین کے کسی بھی حصے کو کور(Cover)کرتی ہے، بلکہ کئی یورپی ممالک تک بھی جا سکتی ہے۔لیکن ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ 1960ءکے عشرے میں جتنے جوہری ہتھیار اور میزائل وغیرہ (ڈلیوری سسٹم) روس کے پاس موجود تھے اس مقام تک پہنچنے کے لئے کون جانے بھارت کو اگلی صدی کا انتظار کرنا پڑے اور پاکستان کو شائد دو صدیاں لگ جائیں....لیکن اس تگ و دو کا انجام کیا ہوگا؟انجام تو وہی ہوگا جو 1960ءمیں سوویت یونین کے سیکرٹری جنرل خروشچیف اور امریکہ کے صدر کینیڈی کے سٹینڈ آف کا ہوا تھا....یعنی دونوں میں سے ایک نے پسپائی اختیار کرلی تھی....امریکی صدر نے قیامت کا خطرہ مول لے لیا تھا لیکن اپنے حلقہ ءاثر میں ایٹمی ہتھیاروں کو داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔یہ تو خروشچیف کا تدبر تھا جس کے طفیل قیامت کی گھڑی ٹل گئی تھی۔اب بھارت خواہ اگنی ششم بنالے یا اگنی ہفتم کا تجربہ کرلے تو اس سے کیاہوگا؟....سارا یورپ اور سارا براعظم افریقہ بھی اس کے جوہری حملے کی زد میں آ جائے توپھر بھی کیا ہوگا؟....اگر آج سے نصف صدی پہلے دنیا کی دونوں سپرپاورز کے پاس اس اہلیت کے ہونے کے باوجود کچھ نہیں ہوا تھاتو یہ بیچارہ بھارت اب اگنی ہفتم بناکر کیا کرے گا؟....چنانچہ بھارتی صدر پرناب مکھرجی کا اپنے یومِ جمہوریہ کے موقع پر پاکستان کو اگنی پنجم کے تجربے سے ڈرانا یا ملفوف دھمکی دینا کہ ”ہم پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں، لیکن پاکستان اس دوستی کو شیرِمادر (Taken for granted)نہ سمجھ لے“....ایک ایسی اوچھی حرکت ہے جو کسی بھی جوہری قوت کے سب سے بڑے ریاستی عہدیدار کی زبان سے نہیں نکلنی چاہیے....مگر ہمارے یا کسی اور کے ”چاہنے“ سے صدر جمہوریہ بھارت کیا اپنے گھمنڈ سے باز آ جائیں گے؟براعظم ایشیا میں تین ممالک ایسے ہیں جو اپنی اقتصادی اور عسکری قوت کے تناظر میں ایشیائی نہیں بلکہ امریکی یا یورپی ممالک معلوم ہوتے ہیں۔میری مراد جاپان ،چین اور اسرائیل سے ہے....ایشیاءکا کوئی چوتھا ملک مستقبلِ دیدہ میں اس سٹیٹس کو حاصل کرنے کا اہل نظر نہیں آتا....اگر آج مغربی ممالک بھارت کو چین کا حریف بنانے کی فکر میں ہیں تو ان کو معلوم ہے کہ ان کی اس ایکسرسائز کے پسِ پشت ان کے کیا مقاصد کارفرما ہیں۔ بھارتی رہنماﺅں کو اپنے دل سے یہ وہم نکال دینا چاہیے کہ وہ آنے والے کل میں چین کی ہمسری کا دعویٰ کرسکے گا۔مَیں نے سطور بالا میں یہ عرض کیا ہے کہ آج دنیا کے علانیہ اور غیر علانیہ جوہری ملکوں میں پاکستان سب سے زیادہ غریب، پسماندہ اور تہی دست ملک ہے۔آج پاکستان کو بے شمار اندرونی خطرات کا سامنا ہے۔آج پاکستان کا کوئی بھی بالغ اور عاقل شہری یہ پیش گوئی نہیں کرسکتا کہ مستقبل میں ہماری موجودہ زبوں حالی میں کوئی کمی آجائے گی یا ہم کسی روشن مستقبل کے دروازے تک پہنچ جائیں گے....علاقائی تناظر میں بھی ہم دو دشمنوں کے درمیان سینڈوچ بن چکے ہیں اور اس حقیقت کو ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ ہمارے کئی ایسے ہمسائے بھی ہیں جو بظاہر دوست اور بہ باطن دشمن ہیں یا ائندہ دشمن کا رول ادا کریں گے۔اسلامی دنیا کے 57ممالک میں پاکستان کا واحد اسلامی جوہری ملک ہونا کئی برادر اسلامی ممالک کو کھٹکتا ہے۔ ان کو حیرانی نہیں حسد لاحق ہے کہ پاکستان اتنے اندرونی اور بیرونی چیلنجوں میں گھر کر بھی جوہری بم اور ان کے ڈلیوری سسٹم کیسے بنا رہا ہے اور ان کے کامیاب تجربے کیسے کررہا ہے؟لیکن اس نکتے پر بھی غور فرمائیے کہ پاکستان کی یہ حالتِ زار، یہ بدحالی، یہ اندرونی اور بیرونی سازشیں جن کا ذکر ہم ہر روز میڈیا سے سنتے ہیں، یہ پسماندگی اور یہ کس مپرسی نہ صرف ہم پاکستانیوں کے لئے بلکہ ساری دنیا کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔....پنجابی زبان کا محاورہ ہے کہ :یارجّی پاڑ کر دی اے یا بُھکّی“....یعنی کوئی خاتون اگر ضرورت سے زیادہ مالدار ہو جائے تو وہ بھی تمام حدود پھلانگ جاتی ہے اور وہ بھوکی اور غریب کہ جو غربت کی لکیر سے نیچے آ جائے، اس سے بھی ہر قسم کی انہونی حرکت کے ارتکاب کی امید کی جا سکتی ہے....میں سمجھتا ہوں کہ آج پاکستان ایک ایسی ہی بھوکی اور ننگی عورت ہے جو ساری حدود پھلانگ جانے کے جراثیم اپنے اندر رکھتی ہے۔پاکستان کو اندرونی مشکلات و مصائب کا سامنا تو ہے ہی لیکن اگر بیرونی خطرات اور دھمکیاں بھی ملنا شروع ہو جائیں تو یہ قوم کیا کرے گی؟ اس کے پاس ایسی کون سی حدود ہیں جن کو پھلانگنے کا وہ سوچے گی؟مجھے اب اس یورپی جنرل کا نام یاد نہیں آرہا(شائد اس کا نام مارشل فوش تھا) جس نے گھمسان کی ایک لڑائی میں اپنے سپریم کمانڈر کو، فیلڈ ٹیلی فون پر مطلع کیا تھا۔” میرا ہر اول بُری طرح پِٹ رہا ہے.... دایاں فلینک دشمن کے زبردست حملے سے بکھر رہا ہے....بایاں فلینک دشمن کے نرغے میں آ چکا ہے....ٹروپس کے پاس گولہ بارود ختم ہوتا جارہا ہے اور دشمن کسی بھی وقت میری فوج کا کام تمام کرسکتا ہے.... اس لئے میں حملے میں جارہا ہوں“!آج پاکستان کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔عالمی طاقتیں، ہمسائے اور علاقائی قوتیں ہمیں گھیرے میں لے رہی ہیں اور اندرونی سلامتی کے بے شمار مسائل بھی درپیش ہیں....ایسے میں اگر بھارت کا صدر دھمکیاں دے یا مستقبل قریب میں کسی وقت لائن آف کنٹرول کی حالیہ کارروائی کے اعادے شروع کردے اور پاکستان یہ سمجھے کہ اس کی سلامتی کو خطرہ ہے تو ذرا سوچئے وہ کیا کرے گا؟....خدا نہ کرے کہ ایسا ہو مگر ایسا ہونے کے امکانات موجود ہیں کہ پاکستان وہی کچھ کرے گا جو مارشل فوش نے کیا تھا! ٭