عشقِ محمدﷺ

عشقِ محمدﷺ
عشقِ محمدﷺ
کیپشن: ijaz

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


حضرت عمر فاروق ؓ ایک بار ساتھیوں سے مخاطب تھے۔ کہنے لگے مَیں چند اونٹ چرایا کرتا تھا اور اکثر اوقات یہ اونٹ مجھ سے سنبھالے نہیں جاتے تھے۔ میرے والد صاحب اِس لئے پریشان رہتے اور کہا کرتے کہ تم سے یہ اونٹ بھی نہیں سنبھالے جاتے، تو تم آئندہ زندگی میں کیا کرو گے؟ آج مَیں ایک بہت بڑی سلطنت کا حاکم ہوں۔ کیا تم بتا سکتے ہو کہ یہ تبدیلی کیسے آئی؟ پھر ساتھیوں کو بتایا کہ یہ صرف غلامی رسول کا نتیجہ ہے۔ عشق نبی کی وجہ سے مَیں اِس قابل ہو گیا کہ آج اس سلطنت کا نظام سنبھال رکھا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ نکتہ آسانی سے سمجھ میں آ جائے گا کہ وہ لوگ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، جن کی عمریں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں گزر گئیں۔ پڑھ پڑھ کر بال سفید ہو گئے۔ علم کی تلاش میں سرگرداں زمانے کی خاک چھان ماری۔ زندگی تحقیق و جستجو میں گزار دی۔ آنکھوں کی روشنی مدہم پڑ گئی، لیکن اندر کے اندھیرے میں اُجالا نہ ہو سکا، زندگی کا راز کھل نہ سکا، ٹھوس نتیجہ نہ پا سکے اور دنیا میں آنے کے مقصد سے آشنائی نہ ہوئی۔ پیمانہ بھرنے کے باوجود تشنگی برقرار رہی۔دن بوجھل اور شب بے قرار رہی، جبکہ حضرت محمد کے عشق میں غوطہ لگانے والا زندگی کی منزل پا گیا۔اصل نکتے پر پہنچ گیا۔ اندر کی آنکھ کھل گئی تو حقیقتیں آ شکار ہو گئیں۔ دنیا کی محتاجی سے بچ گیا۔ زمانے سے بے نیاز ہو گیا۔ اس موقع پر اقبال نے کہا:
بو علی اندر غبارِ ناقہ گم
دستِ رومی پردہ¿ مخمل گرفت
یعنی بو علی سینا علم کی تلاش میں ریگستانوں کی خاک چھانتے ہوئے اونٹی کے گردو غبار میں گم ہو گیا، جبکہ مولانا رومی ؒ عشق رسول میں غرق ہوئے تو اُن کا ہاتھ مخملی پردے تک پہنچ گیا اور انہوں نے پردہ ہٹا کر وہ راز پا لئے جو صرف علم کی تلاش میں سرگراں ہونے والے کو حاصل نہیں ہو پائے۔
 اگر دل میں نبی کی محبت نہیں تو عبادت و ریاضت کسی کام کی نہیں۔ آپ سے محبت دین کی شرط اول ہے۔ اس کے بغیر زندگی میں سلیقہ نہیں آخرت میں نجات نہیں۔ آپ کی محبت نے انسان کو انسان بنایا۔ وحشی کو آداب سکھائے، دیرینہ دشمنیاں ختم کر کے نسلوںکو سکون پہنچایا۔ خواتین کو زندہ درگور ہونے سے بچایا۔ مظلوم کو معاشرے میں امن اور سکون دیا۔ آپ کی محبت نے ایک سیاہ فام حبشی کو رشک ِ قمر کر دیا۔ اگر یہ بلال حبشی ؓ اذان نہ دے ، تو سورج اجالا کرنے سے انکار کر دے۔ آپ سے محبت کرنے والے علی ؓ کی اگر نماز قضا ہو جائے تو سورج واپس پلٹ کر نماز ادا کرنے کا موقع دے۔ یہ نبی پاک سے محبت کا ہی نتیجہ ہے کہ حسین ؓ کا سر نیزے پر بھی قرآن کی تلاوت جاری رکھتا ہے۔ آپ کی محبت نے غلام کو آقا بنا دیا، محکوم کو حاکم بنا دیا۔
ہندوﺅں کی سرزمین میں نبی پاک کے عاشقوں نے ہی توحید و رسالت کی شع روشن کی۔ گھر گھر اصلاح کا دیا جلایا۔ اِسی روشنی سے کفرو شرک کے اندھیرے چھٹے۔ ظلمت کی تاریک رات ختم ہوئی اور عشق رسول نے دِلوں کی کایا پلٹ دی۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب سے محبت رکھنے والوں کا ذکر بھی اپنی مخلوق سے کرواتا ہے۔ اپنے محبوب کی غلامی میں آنے والے کو زمانے کا حکم بنا دیتا ہے۔ اپنے محبوب کا ذکر کرنے والوں کا ذکر مخلوق سے کرواتا ہے۔ غلامی ¿ رسول میں مرنے والے کو زندہ جاوید رکھتا ہے۔ جو آپ کی محبت میں گم ہو گیا، وہ سدا زندگی پا گیا۔ ”گور پیا کوئی ہور“ کا فلسفہ صرف عاشق رسول کو ہی سمجھ آ سکتا ہے۔ اس محبت کے فلسفے کو اگر گہرائی میں سمجھا تو علامہ اقبال ؒ نے سمجھا اور یہاں آ کر بات ختم کر دی
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا توح و قلم تیرے ہیں
یعنی اے انسان تجھے ہر وقت اپنے مقدر سے گِلا رہتا ہے، تو اپنی تقدیر میں بہتری چاہتا ہے، اپنے مقدر کو اگر بدلنا چاہتا ہے، اگر دنیا و آخرت میں کامیابی چاہتا ہے، اپنے جملہ معاملات درست کرنا چاہتا ہے، سکون اور آسانیاں چاہتا ہے، زندگی کو اگر اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق بنانا چاہتا ہے تو محمد سے وفا کر، محبت کر، غلامی کر تو اپنے ہاتھ سے قلم پکڑ لے۔ تقدیر کی لوح پر لکھی ہوئی اپنی قسمت میں خود من پسند تبدیلی کر لے۔ اپنی مرضی سے اپنی تقدیر لکھ لے، اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے، اس سے آگے اور کون سی منزل ہو سکتی ہے۔
کیوں نہ پھر اس ہستی پر صبح و شام درود و سلام بھیجا جائے۔ کیوں نہ پھر ہر دم اُس کا ذکر کیا جائے، کیوں نہ اُس کا حکم مانا جائے، کیوں نہ پھر اُس کی رحمتوں سے خالی جھولی بھر لی جائے، کیوں نہ پھر اُس کی برکتوں کو لوٹا جائے۔ کیوں نہ اُس کے ذکر سے راحت و سرور حاصل کیا جائے۔ کیوں نہ اُس کی آمد پر خوشیاں منائی جائیں۔ میلاد کے مہینے میں میلاد کی برکتوں کو کیسے چھوڑا جائے.... کیوں خوش بختی کے عوض بدبختی کا سودا کیا جائے۔  ٭

مزید :

کالم -