کیا بھا رت کو خطے کا تھا نیدار مقرر کر دیا گیا ہے؟

کیا بھا رت کو خطے کا تھا نیدار مقرر کر دیا گیا ہے؟
کیا بھا رت کو خطے کا تھا نیدار مقرر کر دیا گیا ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہو نے اور دوسرے نمبر پر انسانی وسائل رکھنے کے زعم میں بھا رت کا ایشیا یا کم از کم جنوبی ایشیا کا تھانیدار بننے کا شوق بہت پرا نا ہے ۔وہ چاہتا ہے کہ وہ اس خطے کو اپنی مرضی اور اپنے مفادات کے مطابق چلائے اور خطے کا کوئی دوسرا ملک اس کے آ گے دم نہ مارے۔اس تھانیداری یا چودھراہٹ کے حصول کے لئے پہلے اس نے سوویت یو نین کے سامنے جبین نیاز جھکائی اور اس معاملے میں اس کی آشیر باد اور سرپرستی حاصل کرنا چاہی۔ اس سے بیشمار اسلحہ بارود خریدا ،دفاعی اور فوجی معاہدے کئے ،یہاں تک کہ اسرائیل سے بھی معاملات الفت استوار کئے۔ سوویت یونین نے بھی بھارت کو امریکہ سے دور رکھنے اور چین کے خلاف اپنا اتحادی بنانے کے نقطہ نظر سے اس کی خوب پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کی، لیکن سوویت یو نین کے حصے بخرے ہو نے کے بعد اور امریکہ کے اکلوتی سپر پاور کے طور پر منظرعام پر رہ جانے کے بعد بھارت نے روس کو پشت دکھا کر اپنے آ پ کو امریکہ کی گود میں گرا نے کا فیصلہ کر لیا اور ہر ہر طریقے سے اس کا دل لبھا نے کی کو ششیں شروع کر دیں ۔افغانستان میں امریکہ کی گیا رہ سا لہ لڑا ئی کے دوران بھارت نے امریکہ اور نیٹو فورسز کی ہر طرح اخلا قی اور ما دی مدد کی اور اس کی آڑ میں اپنے اصل حریف پاکستان کو بھی نقصان پہنچا تا رہا،اور امر یکہ کو کہ جس کی جنگ کو پا کستان نے اپنی جنگ بنا رکھا تھا مسلسل پا کستان کے خلاف اکسا تا رہا۔باو جود اس کے کہ پاکستان امریکہ کی جنگ کو اپنے ملک میں لے آ یا ،پچاس ہزارسے زائد سویلین اور فوجی جا نو ں کی قر با نی دی ،ملک کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا یا ،لیکن امریکہ پا کستان سے پھر بھی خوش نہ ہوا، یا دوسرے لفظو ں میں پا کستان اپنی نا قص خارجہ اور دا خلہ حکمت عملی اور نا قص طرز حکمرانی کی وجہ سے اپنا گھر پھو نک کر بھی امریکہ سے داد نہ پا سکا۔ بھارت امریکہ کے قریب ہو تا چلا گیا اوربالآ خر اسے یہ یقین دلا نے میں کا میاب ہو گیا کہ وہ اس خطے میں اس کے ہر قسم کے مفا دات کی پا کستان سے کہیں بہتر حفا ظت کر سکتا ہے بشرطیکہ اسے فو جی ، دفا عی ، معا شی اور معا شر تی طور پر مضبوط کیا جا ئے اور اسے اس خطے کا تھا نیدار بنا دیا جا ئے ۔بھار ت کی اس خوا ہش اور درخواست کو کئی سال زیر غور رکھنے کے بعد با لآ خر امریکہ نے بھا رت کو جنو بی ایشیاء کی تھا نیداری کا پر وا نہ دے دیا ہے۔ اور یہ پر وا نہ امریکہ کے صدر نے غیر معمو لی آ وٗ بھگت کے دوران خود بھا رت جا کر اُسے اپنے ہا تھوں سے عطا کیا ہے۔ پر وا نہ تھا نیداری عطا کر نے کے سا تھ سا تھ اس کی تھا نیداری کو مضبوط کر نے کے لئے امریکہ نے بھا رت کو پا نچ ہتھیا ر بھی عطا کئے ہیں۔

(1)بھارت کے سا تھ سول نیو کلےئر معا ہدے کی راہ میں اپنی ہی کھڑی کی ہو ئی رکا وٹ ’’جو ہری مواد کے استعمال کی نگرا نی‘‘ کے اپنے مطا لبے سے دست بر دار ہو گیا ہے۔گویا بھارت پر ایٹمی مواد کو صرف غیر فو جی مقا صد کے لئے استعما ل کر نے کی شرط عا ئد کر نے کے بعد یہ دیکھنے کی کو شش نہیں کی جا ئے گی کہ آ یا وہ حا صل شدہ ایٹمی مواد فو جی مقا صد کے لئے استعما ل کر رہا ہے یا غیر فوجی۔
(2)اقوا م متحدہ کی سلا متی کو نسل میں بھارت کی مستقل رکنیت کی حما یت کی جا ئے گی ۔
(3)دفا ع ،تجارت ، ما حولیات و دیگر شعبوں میں بھارت سے بھر پور تعاون کیا اور لیا جا ئے گا۔
(4)امریکہ اور بھارت مشترکہ طور پر ڈرون طیارے بنا ئیں گے۔
(5)بھا رت کو ان سب چیزوں( اپنی تھا نیداری مضبوط کر نے )سے عہدہ براٗ ہو نے کے لئے چار ارب ڈا لر کی امداد دی جا ئے گی۔
پر وا نہ تھا نیداری کے حصول کے بعد بھا رت اور اس کے وزیر اعظم کی خوشی دیدنی ہے۔با چھیں کھلی ہو ئی ہیں ،مُنہ سے تھوک نکل رہا ہے، ہنسی ہے کہ رک نہیں رہی اور سر مستی میں وزیراعظم نریندر مو دی عجیب و غریب حر کا ت اور فقرے ادا کر رہے ہیں ۔اس عطا ئے تھا نیداری کے بدلے امریکہ کو کیا حا صل ہو گا یا وہ بھارت سے کیا چاہے گا ،وہ کچھ اس طرح ہے۔
(1)بھارت روس کی گود سے مکمل طور پرنکل کر امریکہ کی گود میں آ بیٹھے ۔
(2)تا ئیوان سے بھارت تک چین کے گرد ہلال کی شکل کا ایک حفا ظتی اور رکاوٹی بند بنا نے کی کو شش ۔
(3)بھارت کو جنگی سا زو سا مان کی فروخت اور یوں اپنی گر تی معیشت کو سہا را دینے کی کو شش۔
(4)اپنی تجا رتی مصنوعات (برانڈز) کو سستے داموں بنا نے کے لئے بھارت میں کار خا نے لگا نا اور بھارت سمیت دنیا بھر کی تجارتی منڈیو ں میں سستی چینی مصنوعات کا مقا بلہ۔
(5)پا کستان ،چین اور افغانستان کو خصوصاً اور خطے کے دیگر چھو ٹے مما لک کو عموماً ہر دم خوف میں مبتلا رکھنا کہ وہ بھارت اور امریکہ کے رُعب ، دھو نس اور اثر سے آزاد ہونے کی کو شش نہ کریں۔
اب بھارت اور امریکہ اپنے اپنے مقا صد میں کس حد تک کا میاب ہو تے ہیں یہ تو آ نے وا لا وقت ہی بتا ئے گا کہ اس خطے کی سیا ست ،سا لمیت اور سلا متی صرف ان دو ملکوں کے ہا تھ میں ہی نہیں ہے، اور بھی بہت سی طاقتیں یہاں اور آ س پاس مو جود ہیں جو ان دو نو ں کو اس طرح کُھل نہیں کھیلنے دیں گی، جس طر ح یہ چا ہتے ہیں اور اس کا بہت سارا دارو مدار چین ،پاکستان،روس، افغانستان اور ایران کی جوا بی حکمت عملی پر منحصر ہے ۔چین نے تو واشگاف الفاظ میں انتباہ کر بھی دیا ہے کہ ’’بھا رت ہما رے خلاف بچھا ئے جا نے وا لے امریکی جا ل میں نہ پھنسے‘‘اور اس کے سا تھ ہی چین نے بھا رتی یوم جمہور یہ کی پریڈ کے بعد اپنے ہا ں ایک بہت بڑی فوجی پریڈ کے انعقا د کاا علا ن کر دیا ہے جس میں روس اور پاکستان کی قیادتوں کو شر کت کی دعوت دی ہے۔تا ہم سر دست لگتا کچھ ایسا ہی ہے کہ تھا نیداری کے زُعم، خوشی اور غرور میں بھارت پاکستان کو زِک پہنچا نے اور زِچ کر نے کی پو ری پوری کو شش کرے گا۔ وہ
(1) پاکستان پر رُعب اور دھونس جما نے کی کچھ نہ کچھ سفار تی و غیر سفارتی بھونڈی حر کتیں ضرور کریگا جیسے اس نے پچھلے دنوں پی آ ئی اے کے د ہلی میں متعین عملے کے ویزے منسوخ کر کے اُنہیں ملک چھو ڑنے کا کہا ہے۔
(2)سر حدی چھیڑ خا نیوں میں ا ضا فہ کر یگا جو کسی بھی وقت خطر نا ک صورت اختیار کر سکتی ہیں۔
(3)اگر امریکہ کی آ شیر باد سے سلامتی کو نسل میں مستقل نشت حا صل کر نے میں کا میاب ہو جا تا ہے تو پھر مسئلہ کشمیر کبھی حل نہ ہو نے دیگا ۔ہراچھی تجویز اور حل کو ویٹو کر دے گا ۔
(4)خطے میں واقع مخا لف مما لک کے اندر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بے چینی ، بد امنی اور عدم استحکام پیدا کر نے کی کو ششیں تیز تر کر دیگا۔
پاکستان کے مشیر خا رجہ سر تا ج عزیز نے ابھی سے اس رویے کی بُوسونگھتے ہو ئے کہہ دیا ہے کہ ’’ بھارت کے جا رحا نہ رویہ سے بے یقینی کی نئی فضا پیدا ہو گئی ہے‘‘ جبکہ اصل جا ر حا نہ انداز تو آ نے وا لے وقت میں نظر آ ئے گا ۔ تاہم یہا ں اس بات کا ما تم کر نا بنتا ہے کہ اس سا ری صورت حا ل کا ذمہ دار پا کستان خود ہے۔ پا کستان نے اپنے دا خلی انتشار،نا قص طرز حکمرا نی اور نا قص اور مبہم خار جہ اور دا خلہ پا لیسیوں کی وجہ سے امریکہ جو بیشک اپنے مفاد میں ہی سہی ہما ری مدد کے لئے ہر دم تیار رہتا تھا کو مایوس کیا، جس کے نتیجے میں اس کو بھارت کی طرف جھکنا پڑا۔ گور نر پنجاب نے توکھلے الفاظ میں کہا ہے کہ ’’ امریکی صدر کا بھارت جا نا ہماری سفارتی نا اہلی کا نتیجہ ہے‘‘۔ تاہم اس سا ری صورت کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ بیشک امریکہ نے فی الوقت بھارت کو غیر معمو لی تو جہ اور بڑ ھاوا دیا ہے اور اس میں اس کے اپنے مفا دات ہیں، لیکن امریکہ پا کستان کو بھی ہا تھ سے گنوا نا نہ چا ہے گا ۔ صدر اوبا ما متعدد بار پاکستان کے با رے میں مثبت خیالات کا اظہار کر چکے ہیں اور بھارت میں بیٹھ کر کہہ چکے ہیں کہ وہ پاکستان کو علا قے کا ایک اہم ملک ہو نے کے ناطے مستحکم اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں ۔ پاکستان اپنی جغرافیائی لوکیشن کے اعتبار سے دنیا کے لئے بھارت سے کہیں زیا دہ اہمیت کا حا مل ہے۔ اس خطے کے معاملات میں دلچسپی یا مفاد رکھنے وا لا کو ئی ملک یا تنظیم پاکستان کی اس اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتی، خصوصاً ،جبکہ پاکستان ایک جو ہری طا قت بھی ہے،لیکن اس سب کے با وجود امریکہ کا یکا یک بھارت کی طرف اس قدر جھکا ؤ، اس قدرالتفات اور اس قدرانعامات و اکرام پا کستان کی خا رجہ پا لیسی کی شر مناک نا کا می ہے۔ امریکہ سے دوستی کے بد لے میں ما ریں ہم کھا تے رہے،خود اپنا ملک جلا بیٹھے، ہزاروں شہیدوں کے لا شے ہم نے اُٹھا ئے، تا ریخ میں معصوم بچوں کے قتل عام کا سب سے درد نا ک سا نحہ ہم نے جھیلا ،لیکن امریکہ کی دادو تحسین بھارت سمیٹ کر لے گیا اور او با ما کے منہ سے یہ بھی کہلوا لیا کہ افغانستان کی جنگ میں بھارت ا مریکہ کا سب سے زیا دہ مددگا ر پار ٹنر تھا ۔پا کستان کی سیا سی قیا دت کی اس سے بڑی نا اہلی اور نا کا می کیا ہو سکتی ہے؟
خطے میں ابھرتی نئی صورت حال میں پاکستان کو اپنی دا خلہ اور خارجہ حکمت عملی اور تر جیحات پر نظر ثا نی کر نا ہو گی۔ اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچان کر ان کی نئی صف بندی کر نا ہو گی اور ان سے تعلقات کے انداز و اطوار از سر نومتعین کر نا ہوں گے وگر نہ معاملات اسی طرح ہا تھو ں سے نکلتے چلے جا ئیں گے۔

مزید :

کالم -