قیا مت سے قیا مت تک!
لاعلمی تو جہالت ہے، اللہ اس سے بچائے، مگر خبر کے اس دور میں بے خبری کسی نعمت سے کم نہیں! خصوصاً ایک ایسے دور میں جب صحافت اپنے ڈاکٹروں شاہد مسعود اور عامر لیاقت کے سپرد ہو چکی ہو یہ مولانا ظفر علی خان کا شعبہ تھا، مگر اب نہیں رہا، مولانا حسرت موہانی جنہوں نے چکی کی مشقت کے ساتھ مشقِ سخن بھی جاری رکھی، شورش کاشمیری جیسے لوگ جنہوں نے اپنی تحریر اور تقریر سے اپنے سامعین اور پڑھنے والوں کے جذبات میں ہمیشہ انقلابی شورش پیدا کی اور اس جدوجہد میں ہمیشہ بڑے ناموں کے ’’ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے‘‘ مگر سلام ہے اُن پر جو جنوں کی حکایتِ خو نچکاں لکھنے سے باز نہ آئے‘‘ اس میں مجیب الرحمن شامی جیسے بلند پایہ صحافت کے سرخیل شامل ہیں، جنہیں عہدِ آمریت تو چھوڑیئے بھٹو صاحب کے سیاسی عہد میں پرچہ نکالنے کا ڈیکلریشن نہ ملا، مگر صحافت کے اصولوں، اخلاقیات اور معیار کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا، ایک عہد تھا جب چٹان، زندگی، اسلامی جمہوریہ، جیسے ہفت روزہ رسالوں نے خبر اور تجزیے کی دوڑ میں اپنی صحافت کا معیار بھی قائم رکھا اور اخلاقیات کا دامن بھی نہ چھوڑا۔
مگر اب معاملہ اخبارات اور ہفت روزہ صحافت سے آگے کا موڑ مڑ گیا ہے اور سکہ رائج الوقت صحافت ٹی وی کے پردہ سکرین پر ہو رہی ہے تو یہ جدت اپنے ساتھ چیلنجز بھی لائی۔
یہ چیلنج ہے پوسٹ ٹرتھ اور construction of Reality کا، اس زمانے میں جھوٹی خبروں کا کاروبار ہی اصل اور معتبر ٹھہر رہا ہے، جہاں معاشرہ ابھی ماڈرن دور میں داخل نہیں ہوسکا، اس کا بے لگام میڈیا اپنے فور سٹار اینکرز کے ذریعے پوسٹ ماڈرن دور کی دوڑ میں شامل ہوچکا ہے۔
ہائپر یا ہائبرڈ ریئلٹی درحقیقت کاروبار ہی سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بناکر سماج کے سامنے پیش کرنا ہے، جس سے انسانی آزادی وحقوق، نقطہ نظر میں اختلاف کا حق، ثقافتی اور سیاسی شناخت جیسے موضوعات کا قتلِ عام جاری ہے۔
دنیا اس وقت ٹی وی، اخبار اور سوشل میڈیا کے ان منہ زور رویوں پر Fake News. کے عنوان سے بحث شروع کرچکی ہے، مگر پاکستان جیسے غریب اور پست معا شروں میں پہلے مکمل خرابی کا دور آئے گا اور جب دنیا کسی اور مقام پر پہنچ چکی ہوگی، تب ہمیں صورت حال کی خرا بی کا احساس ہوگا۔
پوسٹ ماڈرن ازم میں میڈیا کو اصل چیلنج سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بناکر پیش کرنے والوں سے ہے ، کیونکہ اس وقت ذرائع ابلاغ میں سچائی یا حقیقت کا تصور نہ تو جامد ہے اور نہ ہی طے شدہ اور اس پر افسوس یہ کہ ہمارے میڈیا مالکان ریاست کے اس چوتھے ستون کو ڈاکٹر شاہد مسعود اور عامر لیاقت جیسے اینکروں کے حوالے کرچکے ہیں، کیونکہ دولت کے انبار رکھنے والے میڈیا کے حلقے اپنی مالی بالا دستی (Hegemoney) قائم رکھنے کے لئے ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں ہماری مہذب اور اخلاقی روایات کا جنازہ سنسنی خیز خبروں اور تجزیوں کے کاروبا ر سے نکال رہے ہیں، حالانکہ ان کے پاس دوسرا راستہ بھی مو جو د ہے کہ معیاری خبروں، تجزیوں اور تبصروں کے Content.
کو بہتر بنا کر مثبت بحث (Discourse) شروع کریں اور اپنی ویورشپ کے ساتھ اپنے سماج کو بھی بہتر بنائیں، مگر ہمارا میڈیا ریاضت کے اس میدان میں مقابلے کی بجائے بریکنگ نیوز اورریٹنگ کے چکر میں سماج کے پہلے سے بوسیدہ اور پھٹے پرانے کپڑے اتارنے میں مصروف عمل ہے۔
سچائی اور ابجیکٹوٹی کس کی ترجیح ہے؟ ٹی وی کے سرخ ٹکرز، سرخ رنگ کی بریکنگ نیوز کی گرا فکس، بریکنگ نیوز کی دوڑ میں حقائق سے ماورا افسانوی خبروں کا کا روبار خوب چل رہا ہے۔
کرنٹ افیئرز ٹی وی چینلز میں اخبار کے کالم کی جگہ اب کرنٹ افیئرز کے پروگرامز لے چکے ہیں اور نیوز چینلز کا ایڈیٹو ریل اس کے پرو گرامز ہیں، مگر ان پرو گرامز میں جا نبدارانہ نقطہ نظر اور حقیقت سے بہت دور سچ کی تخلیق اور تشکیل کی کئی و جوہات ہیں۔
میں آپ کو کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں، پانامہ کیس اور حکومت واپوزیشن کی لڑائی میں میڈیا کے اندر نقطہ نظر سے آگے کی تقسیم کیوں شروع ہوئی؟ ڈان لیکس کا تنازعہ کیوں کھڑا ہوا اور سول ملٹری کا یہ معرکہ میڈیا کے میدان میں کیوں لڑا گیا؟
شکریہ راحیل شریف کی کمپین میڈیا کے ایک بڑے حلقے نے کیوں اور کس کے اشارے پر چلائی؟ نواز شریف اور ان کی اہلیہ کی بیماری پر میڈیا میں کیسی کیسی بحث چھڑی تھی؟
شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب میں این آر او کا کیا ہوا؟ کیسی کیسی افواہوں کا بازار گرم تھااور ماضی میں خود شاہد مسعود اور چار سیاسی اداکار روزانہ آصف زرداری کی حکومت گراتے تھے کیا ہوا اس پرو پیگنڈہ کا؟ ایان علی کے مو ضوع پر تحقیقی صحافت کے نا م پر کیا کیا پھول نہیں ٹا نکے گئے؟
ذرائع کی خبر نے پا کستانی جر نلزم کو کہیں کا نہ چھوڑا،صحافت کے منہ زور گھو ڑے اور بد مست ہا تھیوں کے ساتھ ایسا ہو نا تھا اور ایسا ہی ہوا ہے۔ڈا کٹر شا ہد مسعو کے انداز صحافت پر تنقید ایک حد تک جا ئز ہے مگر جس قوم کا منتخب لیڈر اور وزیر اعظم پارلیمنٹ میں اپنی صفا ئی تقریر اور دلا ئل سے عدا لت میں مکر جا ئے، جس قوم کا اپو زیشن لیڈر محض الزام لگا نے کاہنر جانتا ہو ، جہاں سول ملٹری اختیارات کی جنگ کے لیے میڈیا پا نی پت کا میدان بنا ہووہاں ایسی مزید حماقتیں ہوتی رہیں گی۔
جی ہاں! اب ڈا کٹر شا ہد مسعود کو نہیں بلکہ صحافت کواپنی اخلاقی سا کھ بچا نے کا آ خری مو قعہ در پیش ہے مگر اس کا فیصلہ چیف جسٹس کی عدا لت سے پہلے پاکستا نی صحا فت کے متعلقہ فورم براڈ کا سٹرز ایسو سی ایشن اور ایڈیٹرز کو کر نا چا ہئے، کیو نکہ پاکستان میں صحافت کے اربا بِ اختیار شا ید بھول چکے ہیں کہ میڈیا سما جی احتساب کا ادارہ تب بنے گا جب وہ اپنی آ زادی ذمہ دا رانہ رپورٹنگ، نیوز اور ٹاک شوز کے ذ ریعے ادا کرے گا، و گر نہ جیسے روشنی اندھیرے میں بد لنے لگتی ہے عین اسی طرح آ زا دی کو پا بندی میں بدلتے ہو ئے دیر نہیں لگنی ۔