پنجاب حکومت کے لئے،ایک کمیٹی کی سفارشات

پنجاب حکومت کے لئے،ایک کمیٹی کی سفارشات
پنجاب حکومت کے لئے،ایک کمیٹی کی سفارشات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یادشِ بخیر میاں شہباز شریف اور مَیں ایک عرصہ ایک ساتھ رہے ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ان کا پہلا دور حکومت1997ء سے1999ء تک تھا۔ ان برسوں کے دوران مَیں بھی پنجاب کے گورنر کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔اگست 1999ء میں، مَیں نے استعفا دے دیا تھا اور یوں فوج کی طرف سے 1999ء کے آخر میں اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام کے تحت حکومت سے نکال باہر کئے جانے کی شرمندگی سے بچ گیا،جس اقدام کا زبردست خیر مقدم گمراہ اور مسلم لیگ(ن) کی منتخب حکومت کے مخالفین نے کیا تھا۔
(2) وزارتِ اعلیٰ کے سابقہ دور کے اختتام سے چند ماہ پہلے میاں شہباز شریف نے قانونی اصلاحات کے لئے ایک کمیٹی کی صدارت کے لئے مجھ سے کہا،جس نے صوبہ پنجاب میں حکومتی کارکردگی مزید بہتر بنانے کے لئے تجاویز پیش کرنا تھیں ہم مشترکہ طور پر سات ٹرمز آف ریفرنس پر متفق ہو گئے، کمیٹی کے سیکرٹری صوبہ پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری تھے، جبکہ دیگر ارکان میں سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج، سیکرٹری لاء، پنجاب کے محتسب اعلیٰ، سپریم کورٹ کے ایک ایڈووکیٹ، سیکرٹری پراسیکیوشن، سیکرٹری لوکل گورنمنٹ اور چیف منسٹرز سیکرٹریٹ کے دو سینئر افسران شامل تھے۔ کمیٹی نے کام شروع کیا تو مَیں نے بورڈ آف ریونیو کے سینئر ممبر، فنانس سیکرٹری اور کمشنر لاہور ڈویژن کو بھی کمیٹی میں شامل کر لیا۔
(3) کمیٹی نے مارچ2018ء میں وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کو اپنی سفارشات پیش کر دیں۔ وزیراعلیٰ نے متعلقہ وزراء کے ایک اجلاس میں ان سفارشات کی توثیق چند معمولی تبدیلیوں کے ساتھ کر دی۔

میاں شہباز شریف کا خیال تھا کہ اپنی وزارتِ اعلیٰ کی مدت ختم ہونے سے پہلے وہ ان سفارشات پر عملدرآمد شروع کرا دیں گے،لیکن اپنی حکومت اور پنجاب اسمبلی کی ناگزیر تحلیل کے ضمن میں روز بروز بڑھتی ہوئی مصروفیات نے انہیں ان سفارشات پر عملدرآمد کرانے کی مہلت نہ دی۔

کمیٹی رپورٹس اب پنجاب سول سیکرٹریٹ کی الماریوں میں پڑی گردو غبار کی نذر ہو رہی ہیں۔یہ ایک افسوس ناک صورتِ حال ہے۔ اگرچہ ان سفارشات کا تعلق میاں شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت سے ہے،لیکن اس امید کے ساتھ کہ موجودہ صوبائی حکومت ملک اور عوام کے وسیع تر مفاد میں کسی بھی تعصب سے بالاتر ہو کر ان سفارشات کو زیر غور لے آئے،مَیں نے ان سفارشات کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
(4) کمیٹی کے اہداف میں سے ایک فوری انصاف کی فراہمی کے لئے اقدامات تجویز کرنا تھا۔ کمیٹی نے نوٹ کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے لئے ججوں کی منظور شدہ تعداد 60ہے۔ یہ تعداد صدرِ مملکت نے آئین کے آرٹیکل 192 کے تحت اگست2008ء میں مقرر کی تھی۔ دارالحکومت اسلام آباد اور تین صوبوں میں مقررہ ججوں کی تعداد 78 رکھی گئی، ان میں سے40 سندھ،20 خیبرپختونخوا، 11 بلوچستان اور 7اسلام آباد کے لئے تھے۔ پنجاب کی آبادی بقیہ تین صوبوں اور اسلام آباد سے مجموعی طور پر زیادہ ہے۔ چنانچہ کمیٹی نے سفارش کی کہ پنجاب میں ہائی کورٹ کے ججوں کی تعداد 75سے80 کے درمیان ہونی چاہئے۔ آبادی سے قطع نظر کچھ اور عوامل بھی ہیں،جو لاہور ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافہ کا تقاضا کرتے ہیں، جن میں زیر التوا ایک لاکھ چالیس ہزار مقدمات شامل ہیں۔

زیر التوا مقدمات کی تعداد میں گزشتہ چند برسوں میں قابلِ ذکر کمی نہیں آ سکی اور کمی نہ آنے کی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے لئے منظور شدہ ججوں کی آسامیوں میں سے 12آسامیاں خالی رہیں۔ کمیٹی نے تجویز کیا کہ صوبائی حکومت آئین کے آرٹیکل175-Aکے تحت خالی آسامیوں پہ ججوں کی تقرری کے لئے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو درخواست کرے۔ علاوہ ازیں لاہور ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافہ کر کے انہیں 60 سے 70 (یا80) کرنے کے لئے استدعا کرے اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو فنڈز کی فراہمی کے انتظامات کرے۔
(5) کمیٹی کے علم میں لایا گیا کہ پنجاب کی سول اور ڈسٹرکٹ کورٹس میں12لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں۔

صوبہ پنجاب میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ججوں، سینئر سول ججوں کی منظور شدہ مجموعی تعداد 2364 میں سے عملاً 1770 جج کام کر رہے ہیں۔ یوں 594 آسامیاں خالی ہیں۔ صوبائی حکومت کو چاہئے کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے درخواست کرے کہ وہ خالی آسامیوں پر ججوں کی تقرری کے لئے جلد از جلد اقدامات کرے۔یہ اقدامات بذاتِ خود کافی نہیں لگے۔

صوبائی حکومت کو اعلان کرنا ہو گا کہ وسائل کی کمی کے باوجود وہ مزید216 ججوں(36 اضلاع میں فی ضلع چھ جج) کے لئے فنڈز دینے کو تیار ہے تاکہ اضافی عدالتیں تعمیر ہو سکیں۔
(6) کمیٹی کے کچھ ارکان اعلیٰ عدلیہ اور ماتحت عدلیہ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کی سفارش پر تحفظات رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے خالی آسامیاں پُر کر لی جائیں۔
(7) پنجاب حکومت پہلے سے لاہور ہائی کورٹ کو ایک مسودہ قانون حتمی رائے کے لئے بھیج چکی ہے تاکہ’’تنازعات کے حل کا ایک متبادل نظام(ADR) قائم کیا جا سکے۔ مجوزہ قانون سہولت مہیا کرتا ہے کہ کسی دیوانی مقدمہ کی سب سے پہلی سماعت(یا پھر عدالتی کارروائی کے بعد کے کسی مرحلہ) پر فریقین کی مرضی سے عدالت زیر سماعت مقدمہ کو متبادل حل کی طرف بھیج سکتی ہے۔ یہ تصفیہ کسی غیر جانبدار فرد کی طرف سے اس کی مرضی سے، ثالثی سے، مفاہمت سے یا زرتلافی کے تعین سے ہو گا۔

ایسے غیر جانبدار افراد کا پینل ہر ضلع کے لئے ہائی کورٹ کی مشاورت سے مقررہو گا، جس میں کم از کم سات سال کافعال تجربہ رکھنے والے وکلاء،ماتحت عدالتوں کے ریٹائرڈ یا حاضر سروس جج، ریٹائرڈ سول سرونٹس،علماء مفتی، ٹیکنو کریٹس اور سوسائٹی کے دیگر حلقوں سے تعلق رکھنے والے اچھی شہرت اور کردار کے حامل افراد شامل ہوں گے۔
اس مسودہ قانون کے تحت ہر ضلع میں ایک ADR سینٹر قائم کیا جائے گا۔ ان مراکز میں تعینات غیر جانبدار افراد کو آنے والے مقدمہ کا فیصلہ یا تنازعہ کا تصفیہ30دن کے اندرکرنا ہو گا۔ ثالثی کی صورت میں یہ مدت60 دن ہو گی۔ اگر مصالحتی مرکز میں30یا60 دنوں کے دوران کوئی تصفیہ نہیں ہوتا تو مقدمہ واپس سول عدالت میں چلا جائے گا۔

تصفیہ ہونے کی صورت میں اسے عدالتی فیصلہ کا مرتبہ حاصل ہوگا اور تمام تر عملدرآمد اسی کے مطابق ہو گا۔ ان فیصلوں/ ڈگریوں کے خلاف اپیل کی نظرثانی نہیں ہو سکے گی،کیونکہ فریقین نے اپنی مرضی سے یہ انتخاب کیا ہو گا۔
کمیٹی نے بھرپور سوچ بچار کے بعد سفارش مرتب کی کہ جونہی مجوزہ مسودہ قانون ہائی کورٹ کی رائے کے ساتھ واپس موصول ہو، اس کو فوراً قانون بنانے اور نافذ کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ کمیٹی کے علم میں لایا گیا کہ ایسا ہی ایک قانون پہلے سے وفاقی حکومت، دارالحکومت اسلام آباد کے علاقہ میں نافذ کئے ہوئے ہے۔ کمیٹی کی رائے میں صوبے میں اس مجوزہ قانون کے نفاذ سے سول عدالتوں پہ موجود بوجھ میں زبردست کمی آئے گی۔
(8) صوبہ پنجاب میں ایک صوبائی محتسب اعلیٰ لاہور میں مصروف عمل ہے۔ اگرچہ صوبائی محتسب نے اضلاع میں اپنے علاقائی دفاتر ضلع کے ریٹائرڈ افسران، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ججوں یا اسی درجہ کے افسران کی سربراہی میں قائم کر رکھے ہیں، لیکن ان علاقائی دفاتر کے پاس آنے والی شکایات پر کارروائی کے بعد حتمی احکامات جاری کرنے کے اختیارات نہیں ہیں۔

ان کو اپنی سفارشات حتمی احکامات کے لئے صوبائی محتسب اعلیٰ کے پاس بھیجنا پڑتی ہیں۔کمیٹی نے تجویز کیا کہ متاثرہ افراد کی شکایات کا ازالہ مقامی سطح پر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ضلعی محتسب کو اگر وہی نہیں تو اس جیسے اختیارات دیئے جائیں جو صوبائی محتسب کو حاصل ہیں۔ضلعی محتسب کے دفتر کو صوبائی محتسب کے دفتر کے ساتھ اس طرح مربوط اور مکمل کیا جا سکتا ہے کہ ضلعی محتسب کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت صوبائی محتسب متعلقہ ڈویژن ہیڈ کوارٹرز میں کرے۔
وزیراعلیٰ کو اِس ضمن میں بھیجی جانے والی کمیٹی کی رپورٹ کے ساتھ قانون میں ترمیم اور قانون سازی کے لئے ایک مسودہ بھی ارسال کیا گیا۔اس مسودہ قانون میں ان محکمہ جات کی فہرست دے دی گئی، جن کے خلاف شکایات ضلع محتسب کی سطح پر زیر سماعت آئیں گی۔ضلعی محتسب کی سطح پر عملہ کو اس طرح وسعت اور بہتری دی جائے کہ عام آدمی کی رسائی آسانی سے انصاف تک ہو سکے۔ ایسا انتظام عام آدمی کو اس کی دہلیز پر فوری اور سستا انصاف مہیا کر سکتا ہے۔
(9) کمیٹی کے ارکان کی یہ متفقہ اور پختہ رائے تھی کہ تمام سرکاری عمال کو اس طرح صاف شفاف، منصفانہ اور موزوں انداز میں کام کرنا چاہئے کہ اگر کوئی فرد ان کے کسی فیصلہ/حکم سے منفی طور پر متاثر ہو تو اسے اپنے دفاع کا ایک مناسب موقعہ ضروری ملے اور یہ کہ منفی طور پر متاثر ہونے والے فرد کے خلاف فیصلہ/حکم لکھتے ہوئے تفصیلی وجوہات قلمبند کرنا ضروری ہیں اور یہ کہ متاثرہ شخص کو فیصلہ کی ایک نقل فوری طور پر مہیا کی جائے۔ اس مقصد کے لئے کمیٹی نے پنجاب جنرل کلازز ایکٹ میں 19۔A اور 24۔A دفعات شامل کرنے کی تجویز مرتب کی۔
قانون میں ترمیم کے لئے ایک مسودہ وزیراعلیٰ کو ارسال کیا گیا۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ مجوزہ ترامیم ایگزیکٹو آرڈرز کی شفافیت، قدر و قیمت اور قبولیت میں وسیع تر بہتری لائیں گی۔

ان ترامیم کی دفعات پر عملدرآمد ان انتظامی احکامات کے خلاف شکایات کی تعداد میں زبردست کمی لائے گا، جو سول کورٹس اور ہائی کورٹس تک جا پہنچتی ہیں۔ ایسی ہی ایک دفعہ، فیڈرل جنرل کلازز ایکٹ میں اس کے سیکشن 24۔A کی صورت میں موجود ہے۔
(10) کمیٹی کے ارکان کی پختہ رائے تھی کہ صوبہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں امن وامان کی صورتِ حال اور وہاں حکومت کی موثر رٹ بحال کرنے کی ضرورت کا تقاضا ہے کہ لمبرداری اور چوکیدارہ کے نظام کو پھر سے نافذ کیا جائے۔ انہی وجوہات کے پیش نظر شہری علاقوں میں میونسپل وارڈنز مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔
(11) صوبہ پنجاب کے 9 ڈویژنز میں چوکیداروں کی منظور شدہ آسامیاں تقریباً 18000 ہیں۔ ان میں سے 8500آسامیاں خالی ہیں۔ اسی طرح لمبرداروں کی منظور شدہ آسامیاں 38500 ہیں، جن میں سے تقریباً 5500 خالی ہیں۔ مقامی حکومت کے نظام کے نفاذ کے بعد لمبردار کے منصب کی اہمیت نوآبادیاتی اضلاع کے علاوہ ختم ہوچکی ہے۔

ان اضلاع میں جنوری 2006ء میں کالونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈز ایکٹ 1912کے تحت جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق تقریباً 500 لمبرداروں کی تحویل میں سرکاری زمینیں تھیں۔ دوسرے اضلاع میں ایسی مراعات نہیں۔
(12) لمبرداروں (دیہی سربراہوں) کا تقرر پنجاب ریونیو ایکٹ 1967اور پنجاب لینڈ ریونیوز رولز 1968کے تحت ہوتا ہے جبکہ ان کی مختلف ذمہ داریوں میں مالیہ اکٹھا کرنے کے علاوہ دیگر صوبائی محصولات جمع کرنا، سڑکوں اور سرکاری املاک پر تجاوزات کے بارے میں تحصیلداروں کو رپورٹ کرنا، ڈپٹی کمشنروں کو ٹرانسپورٹ کے امور، فصلوں کی کیفیت، مختلف سرویز وغیرہ کے بارے میں معلومات مہیا کرنے کے علاوہ نہروں میں رخنہ اندازی اور پانی چوری کی رپورٹ دینے کے ساتھ ساتھ متعدی امراض کے بارے میں ضلعی حکام کو مطلع کرنا شامل ہوتا ہے۔ پنجاب لا ایکٹ 1872 کے تحت ان کو اپنے علاقوں میں چوکیداری کی نگرانی اور کنٹرول کے علاوہ مقامی پولیس سے رابطہ رکھنا ہوتا ہے۔
(13) لمبرداری کے نظام کو فعال بنانے کے لئے کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ لمبرداروں کو اسلحہ کے لائسنسوں کی سالانہ تجدیدی فیس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تمام سرکاری محکمے اپنے پروگراموں کے لئے لمبرداروں کی معاونت حاصل کریں۔ ان کو پرائس کنٹرول کمیٹیوں، امن کمیٹیوں اور فوڈ کمیٹیوں میں شامل کیا جائے۔

مقامی ایس ایچ اوز دیہات میں پہرے داری اور امن وامان کی نگرانی کے امور میں لمبرداروں کو شامل کریں۔ ریونیو اور اریگیشن حکام کے لئے ضروری قرار دیا جائے کہ وہ اراضی اور آبپاشی سے متعلقہ کاغذات کی تصدیق کے لئے لمبرداروں کو ترجیح دیں۔ لمبرداروں کو آبیانہ وصول کرنے کے لئے ان علاقوں میں ذمہ داری دی جائے جو پنجاب اریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی کی عملداری میں ہیں۔ کمیٹی نے مزید تجویز کیا کہ لمبرداروں کے لئے نوآبادیاتی اضلاع میں سرکاری زمینوں کی ملکیت کے بارے میں جنوری 2006ء میں جاری ہونے والا نوٹیفکیشن منسوخ کیا جائے اور قرار دیا جائے کہ ایسی زمینیں موجودہ لمبرداروں کے عہدہ چھوڑنے پر حکومت کو واپس کردی جائیں گی۔

مستقبل میں لمبرداروں کو فرائض منصبی ادا کرنے پر کفالت کے لئے تمام زمینداروں پر مالیہ کے 5 فیصد کے برابر دیہی محصول عائد کیا جائے۔ اس کی اجازت پنجاب لینڈ ریونیو ایکٹ کی دفعہ 37 دیتی ہے۔
(14) دیہی چوکیداروں کے حوالے سے کمیٹی نے تجویز کیا کہ ان کا تقرر متعلقہ علاقہ کے اسسٹنٹ کمشنر کریں او ریہ تقرری لمبردار کی طرف سے نامزدگی اور مقامی ایس ایچ او کی طرف سے اچھے کردار کے سرٹیفکیٹ کی فراہمی کے بعد ہو۔ ہر علاقہ میں 200 مکانوں یا دکانوں کے لئے ایک چوکیدار ہو۔چوکیدار کے لئے مڈل پاس ہونا ضروری ہو اور جسمانی اعتبار سے اس کی موزونیت کا معیار وہی ہو جو کانسٹیبل کے لئے مقرر ہے۔ بڑے دیہات میں ہر پانچ چوکیداروں پر ایک ہیڈچوکیدار ہو۔

دیہی چوکیداروں کے لئے فی مکان یا دکان 50 روپے ماہانہ معاوضہ مقرر کیا جائے۔ چوکیدار، پہرے داری کے فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے علاقہ میں پیدائش اور اموات کا ریکارڈ مرتب کرے۔ بالخصوص لاوارث بچوں کی دیکھ بھال اس کی ذمہ داری ہو۔ چوکیدار کا رہنما اصول یہ ہو کہ وہ دیہی برادری کا خادم ہے۔
(15) کمیٹی کے نوٹس میں لایا گیا کہ محکمہ داخلہ 1872ء کے ایکٹ پر کاربند ہے اور بورڈ آف ریونیو، لینڈریونیو ایکٹ کا پابند ہے جبکہ ان دونوں کے درمیان بہت کم ارتباط ہے۔ ایک ڈیپارٹمنٹ کو دونوں قوانین پر عملدرآمد کرنا چاہئے۔ کمیٹی نے دیہی چوکیداروں کے متعلق تجاویز کو عملی صورت دینے کے لئے قواعد و ضوابط کا مسودہ مرتب کرکے وزیراعلیٰ کو بھجوایا۔
(16) انہی خطوط پر جیسا کہ دیہی چوکیداروں کے بارے میں سامنے آیا۔ کمیٹی نے دیکھا کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میونسپل وارڈنز کی تقرری کی اجازت دیتا ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔

کمیٹی نے میونسپل وارڈنز کی تقرری، ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کے بارے میں مسودہ مرتب کرکے وزیراعلیٰ کو ارسال کیا چونکہ ان وارڈنز کو مشاہرہ مقامی شہری کونسلوں نے ادا کرنا ہے چنانچہ اس امر کے لئے صوبائی حکومت اور مقامی شہری کونسلوں کے درمیان مالی تعلقات ردوبدل کا تقاضا کریں گے۔
(17) آبادی کے محض 20فیصد کو نظام انصاف تک رسائی ہے۔ اس بہت بڑی محرومی کے پیش نظر پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کی دفعات 96 اور 99 پنچائتوں اور مصالحتی انجمنوں کے قیام کی اجازت دیتی ہیں۔ یہ دفعات بڑی حد تک انہی دفعات کا اعادہ ہیں جو پرویز مشرف کے دور میں نافذ ہونے والے 2001ء کے مقامی حکومت کے قانون میں موجود تھیں۔

دونوں قوانین میں یہ دفعات نافذ العمل نہیں ہیں، حالانکہ 2006ء میں مصالحت انجمن (آئین اور فرائض) قواعد نوٹیفکیشن کے ذریعے انہیں فعال کرنے کی کوشش کی گئی۔ کمیٹی نے پنچائتوں اور مصالحت انجمنوں کے قیام، ارکان کی تقرری اور فرائض کے متعلق نئے قواعد و ضوابط میں ایک ایسے قابلِ عمل سمجھوتے پر پہنچنے کے لئے زور دیا ہے ،جو گاؤں یا محلہ کی سطح پر غیر رسمی (لچکدار) طریقہ کار کے ذریعے ممکن ہوسکے۔ کمیٹی نے یہ بھی تجویز کی کہ 2013ء کے قانون میں ترمیم کرکے انجمن کے ارکان کی تعداد 9 سے کم کرکے 5کردی جائے۔
(18) کمیٹی کی آخری رپورٹ ضلع لاہور کو دو یا چار اضلاع میں تقسیم کرنے کی تجویز پر مشتمل تھی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق لاہور ضلع کی آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ نفوس سے تجاوز کر چکی ہے۔

صوبے کے دیگر35اضلاع کی اوسط آبادی میں تقسیم کرنا زیادہ قابلِ عمل محسوس ہوتا ہے اور یقینی طور پر اخراجات بھی کم رہیں گے۔ یہ دو بعد میں کسی مرحلے پر چار میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ محکمہ پولیس پہلے سے ضلع لاہور کو چار حصوں میں تقسیم کر چکا ہے اور ہر حصہ کی سربراہی ڈی آئی جی کے پاس ہے۔

کمشنر لاہور ڈویژن کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی نے لاہور کو دو یا چار اضلاع میں تقسیم کرنے کا تفصیلی پلان تیار کیا تھا، جس کو عام انتخابات2018ء کے بعد زیر عمل لانے کی منظوری اصولی طور پر ایک اجلاس میں دی جا چکی ہے، جس کی صدارت وزیراعلیٰ شہباز شریف نے کی۔

مزید :

رائے -کالم -