اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 123
ہم واپس سرائے میں آگئے۔ شام کو میں نے کپڑے ذرا درست کرکے پہنے، گھوڑے پر سوار ہوا اور شاہی محل کی طرف روانہ ہوگیا۔ آج سے پندرہ سو سال پہلے دہلی کا شاہی محل اس جگہ نہیں تھا جہاں آج کل لال قلعے کے اندر موجود ہے۔ یہ محل اس دور میں بھی قلعے کے اندر ہی تھا مگر قلعہ جنوب میں واقع تھا اور قلعے کا محرابی دروازہ اتنا بلند تھا کہ اسے پگڑی پر ہاتھ رکھ کر دیکھنا پڑتا تھا۔ شہزادے کی انگوٹھی دکھا کر میں قلعے میں بلا روک ٹوک داخل ہوگیا۔
قلعے میں شاہی محل کے راستے میں دونوں جانب خاص دکانیں تھیں۔ جہاں سے خادمائیں شاہی محل کی شہزادیوں کے لئے ضروری اشیاء خریدتی تھیں۔ میں سرووسمن والے باغ سے گزرتا شاہی محل کے دروازے کی پہلی سنگ مرمرکی ڈیوڑھی میں پہنچا تو محافظ نے مجھے روک لیا۔ میں نے انگوٹھی دکھائی وہ بڑے ادب سے مجھے ڈیوڑھی کے سنگ سرخ کے دالان میں لے گیا۔ جہاں دربان خاص مسند لگائے بیٹھا تھا۔ جب اس نے شہزادے کی انگوٹھی دیکھی تو اٹھ کھڑا ہوا اور میری طرف دیکھ کر بولا’’عزیزم! جانتے ہو تم آج رات کس کے مہمان ہو؟‘‘
میں نے کہا ’’میں اپنے شاہی میزبان کا نام نہیں جانتا۔‘‘
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 122 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دربان خاص نے کہا ’’تو پھر سنو تم شہنشاہ ہند سلطان غیاث الدین بلبن کے محبوب فرزند سلطان خان رشید کے مہمان ہو۔‘‘
دو خاص محافظ مجھے شہزادہ خان رشید کے محل تک چھوڑنے گئے۔ شہزادہ خان رشید میرے خیر مقدم کو خود باہر آیا اور مجھ سے بغلگیر ہوا اور مجھے اپنے حجلہ خاص میں لے گیا۔ آبنوسی چوکیوں پر انواع و اقسام کے کھانے پھل اور خشک میوہ جات اور قسم قسم کے مشروبات چنے ہوئے تھے۔ کئی مہمان بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے۔ شہزادے نے مجھے ان سب سے باری باری ملوایا۔ غلام اورکنیزیں خدمت کو چوکس کھڑی تھیں۔ کھانا شروع ہوگیا۔ شہزادے نے مجھے اپنے پہلو میں بٹھایا تھا۔ رات گئے تک محفل جاری رہی۔ جب سب مہمان چلے گئے تو میں نے بھی شہزادے خان رشید سے اجازت چاہی۔ اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور بولا
’’عبداللہ! تم میرے محسن ہی نہیں اب میرے دوست بھی ہو اور میں نہیں چاہتا کہ میرا دوست اور محسن شہر میں ایک عام سرائے میں پڑا رہے میں چاہوں گا کہ تم میرے حلقہ احباب میں شامل ہوجاؤ۔ میرا شاہی مہمان خانہ تمہارا منتظر ہے۔‘‘
اب مجھے بھی دربار بلبن کے اندرونی حالات کے مطالعے کا شوق ہوا۔ چنانچہ میں سرائے سے اٹھ کر شہزادہ خان رشید کے محل میں اٹھ آیا۔ خان رشید کے حلقہ احباب میں اس زمانے کے بڑے نامی گرامی علما و فضلا اور شاعر شامل تھے۔ ان میں حضرت امیر خسرو اور خواجہ حسن جیسے روزگار بھی تھے۔ خان رشید ان سب سے بڑی عزت و تکریم سے پیش آتا تھا۔ یہ شہزادہ اس قدر مہذب اور سلیقہ مند تھا کہ اگر تمام شب کسی مجلس سخن میں بیٹھتا تب بھی اپنا زانو اونچا نہ کرتا تھا۔ خان رشید کی محفل میں ہمیشہ علمی چرچے رہتے تھے اور وہاں خاقانی، انوری، نظامی، سعدی اور امیر خسروؒ کا کلام پڑھا جاتا تھا۔ خود خان رشید بھی فارسی میں شعر کہتا تھا اور بڑے بڑے اساتذہ اور سخن فہم اس کی سخن فہمی کے قائل تھے۔ میری موجودگی میں ایک بار حضرت امیر خسروؒ نے فرمایا تھا ’’میں نے سخن فہمی، نکتہ رسی، پختگی ذوق اور صحیح اور تمام نئے پرانے شعرا کے اشعار یاد رکھنے میں خان رشید جیسا فاضل شخص اور کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
خان رشید نے ایک قلمی بیاض تیار کی تھی۔ جس میں تمام نامی گرامی شعراء کے منتخب اشعار درج تھے۔ ان اشعر کی تعدادبیس ہزار تھی۔ امیر خسروؒ اور خواجہ حسن دونوں ہی خان رشید کے انتخاب اشعار کی خوبی کے قائل تھے۔ جس زمانے میں خان رشید کا قیام ملتان میں تھا اس زمانے میں شیخ عثمان ترمذیؒ جو اس دور کے بہت بڑے عالم اور عارف کامل تھے۔ اتفاق سے ملتان تشریف لائے۔ خان رشید نے شیخ صاحبؒ کی بہت تعظیم کی اور خاطرتواضع کی۔ ان کی خدمت میں نذر اور ہدیہ پیش کیا اوربڑی عاجزی سے ان سے ملتان میں قیام کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ اگر آپ یہاں قیام کرنا پسند فرمائیں تو حکومت کے خرچ سے ایک خانقاہ تعمیر کرائی جائے گی لیکن انہوں نے بعض مجبوریوں کی بنا پر ملتان میں مستقل رہائش سے عاجزی کا اظہار کیا اور واپس چلے گئے۔ جن دنوں شیخ صاحب ملتان میں تھے اور حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کے صاحبزادے اور جانشین حضرت شیخ صدر الدین عارفؒ کے ساتھ خان رشید کی محفل میں تشریف رکھتے تھے۔ اس محفل میں عربی اشعار پڑھے جاتے تھے۔ ایک بار کوئی ایک شعر سن کر ان بزرگوں پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی اور ان کے ساتھ ساری محفل کھڑی ہوگئی۔ خان رشید نے بھی اہل محفل کا ساتھ دیا اور دس بستہ کھڑا ہوگیا۔ جب تک ان بزرگوں کو سکون نہ ہوا۔ خان رشید کی حالت بھی اضطرار کی رہی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری رہے۔ خان رشید کو شیخ سعدیؒ سے بھی بے حد عقیدت تھی۔ اگر کبھی کوئی شخص خان رشید کی مجلس میں شیخ سعدیؒ کا کوئی نصیحت آموز شعر پڑھتا تھا تو وہ دنیا کے خیال کو دل سے نکال کر بڑی توجہ سے شعر سنتا اور شعر کے مضمون سے متاثر ہوکر زار و قطار روتا۔ خان رشید کی بالغ نظری اور قدر شناسی کا سب سے واضح ثبوت یہ ہے کہ اس نے امارت ملتان کے زمانے میں دو مرتبہ اپنے قاصد بیش قیمت اور اعلیٰ تحائف کے ساتھ شیراز روانہ کئے اور حضرت شیخ مصلح الدین سعدؒ سے درخواست کی کہ آپ یہاں تشریف لاکر ہمیں نوازیں۔ آپ کے لئے ملتان میں ایک خانقاہ تعمیر کروائی جائے گی اور اس کے مصارف کے لئے چند گاؤں وقف کردئیے جائیں گے۔ چونکہ حضرت شیخ سعدیؒ ضعیف العمری کی وجہ سے بہت کمزور ہوچکے تھے۔ اس لئے انہوں نے دونوں مرتبہ ملتان میں آنے میں عذر کیا لیکن ہر بار اپنے ہاتھ سے اپنے اشعار اور غزلیات لکھ کر خان رشید کی خدمت میں بطور تحفہ روانہ کیں اور امیر خسروؒ کی سفارش فرمائی۔ ملتان کی امارت کے زمانے میں خان رشید کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر سال بہت گراں بہا اور نادر تحائف لیکر اپنے باپ غیاث الدین بلبن کی خدمت میں حاضر ہوتا اور چند روز دہلی میں قیام کرکے واپس چلا جاتا۔(جاری ہے)