مشاورت تو کریں ……جمیل قیصر رخصت ہوئے
سینئر صحافی دوستوں کا خیال،بلکہ حتمی رائے ہے کہ مخلوط جمہوری حکومتیں وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی طرح ہی اپنا وقت گزارا کرتی ہیں،کبھی لڑھکتی اور رگڑے کھا رہی ہوتی ہیں، کبھی کامیاب اور کبھی کبھی تو بالکل ناکام، ناکام سی دکھائی دیتی ہیں اور عوام کے سر چڑھنے سے بچنے کے لئے، کسی بے جان ایشو کو اچانک رنگ و روغن کر کے ملک میں رائے ہموار کرنے والے سب سے بڑے ذرائع الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کر کے اپنا وقت نکالتی ہیں۔کارکردگی صفر کی صفر رہتی ہے اور نقصان زیادہ ہوتا ہے،جس کے باعث ملک و قوم ترقی و خوشحالی میں دُنیا کی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی دوڑ میں کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں،چلتے وقت کو روکنا کسی حکمران کے بس کا روگ نہیں، وقت کے ساتھ ساتھ چلنا بہت ضروری ہے۔اِدھر اُدھر کی باتوں میں اُلجھنے، اپوزیشن جماعتوں کے خلاف دن رات الزامات عائد کرنے اور لایعنی پروپیگنڈا سے حکومت کا امیج کبھی بلند نہیں ہوتا…… عظیم سائنس دان البرٹ آئن سٹائن نے ایک عالمگیر اور ہر دور سے تعلق رکھنے والی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا: ”بہت ہی عمومی،بلکہ پست ذہنیت کے حامل افراد کے ہاتھوں اعلیٰ ذہن و دِل کی حامل شخصیات کو ہمیشہ انتہائی جارحانہ مخالفت کا سامنا رہا ہے“۔ دُنیا میں جتنے بھی بڑے مناقشے ہوئے ہیں، وہ اسی حقیقت کا نتیجہ ہیں،جو آئین سٹائن نے بیان کی ہے۔ بات گھر کی ہو، ادارے کی یا پھر حکومتی مشینری اور نئے سیٹ اَپ کی، ہر جگہ البرٹ آئن سٹائن کے الفاظ سے ہر دو متحارب گروپ،دھڑے اور پارٹیاں فائدہ اُٹھا کر اپنا اپنا امیج بلند کر سکتی ہیں۔ہر کوئی اپنی اپنی پوزیشن کو اپنے قول و افعال سے پہچان سکتا ہے کہ ہم حکومت والے کہاں کھڑے ہیں؟اور ملک کی ترقی و خوشحالی میں کردار ادا کرنے والی اپوزیشن پارٹیاں کس پوزیشن میں ہیں؟
آئن سٹائن کے کہے الفاظ پر آج کے حکمران بھی عمل اور اپنی ذہنی سطح کو بلند کر کے ہر میدان میں پیش رفت کر سکتے ہیں، ملک کے ہر شعبہ زندگی میں تبدیلی اور بلندی لا سکتے ہیں،لیکن اس مشن کے حصول اور کامیابی کے لئے سوچ بلند اور کلیدی کردار ادا کرنے کے لئے خود کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ بوٹ کو ٹاک شو میں اپنے سامنے رکھنے اور باتیں بنانے سے حکمران پارٹی کے امیج کو نقصان پہنچا ہے۔ اقتدار اور وزارتیں آنے، جانے والی چیزیں ہیں۔ اقتدار مل جائے تو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں، سابق حکومتوں کو کوسنے سے گریز کرتے ہوئے اپنی کارکردگی دکھائیں تاکہ لوگ آپ کے جانے کے بعد آپ کے کاموں کی وجہ سے یاد رکھیں۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشرے ذہنی سطح ہی بلند رکھنے سے تشکیل پاتے ہیں۔دُنیا کے کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں، ضرورت صرف اپنے آپ میں تبدیلی لانے اور اپنی ذہنی سطح بلند کرنے کے لئے اس بھاری پتھر کو چوم کر زمین پر رکھ دینے کی بجائے اسے اٹھائے رکھنے کی ہے۔ شروع میں پست ذہن پر بوجھ محسوس ہو گا،ثابت قدم اور پُرعزم رہیں تو ان شاء اللہ بیڑہ پار اور کامیابی آپ کے قدم چومے گی،مگر اس کام میں باتیں کم اور کام زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ سولہ سترہ ماہ کے بعد حکومت کے تمام اتحادی حکومت کے خلاف شکایتیں اور شکوے کر رہے ہیں۔ اگر تمام اتحادی جماعتوں کے ساتھ وعدوں اور معاہدوں کے مطابق سلوک ہوتا تو آج حکومت کو مذاکراتی ٹیم بنانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔
بی این پی (مینگل) کے ڈاکٹر جہاں زیب جمالدینی نے حکومتی کمیٹی کے جہانگیر ترین، بیرسٹر فروغ نسیم، وفاقی وزیراعظم سواتی اور شہزاد ارباب کو وزیراعظم سیکرٹریٹ میں اپنی جماعت کے تحفظات سے آگاہ کر دیا ہے اور اپنے چھ نکات ایک بار پھر حکومت کے سامنے رکھے ہیں،جن کو حکومت نے پورا کرنے کا وعدہ اور معاہدہ کر کے انہیں اپنا اتحادی بنایا تھا۔ اب حکومت مینگل گروپ کو 10روز میں 42 لاپتہ افراد کے بازیاب ہونے کی خوشخبری سنا رہی ہے اور آئندہ دو ہفتوں میں 500سے زائد لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کا وعدہ اور یقین دہانی کرا رہی ہے، اگر پچھلے15ماہ میں یہ کام خلوص نیت سے ہوتا تو اختر مینگل کا یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا…… اب گوادر میں بلوچ لیبر اور غیر مقامی افراد کے حوالے سے قانون سازی کا جلد جائزہ لینے اور گوادر پورٹ آرڈیننس2000ء کا دوبارہ جائزہ لینے کے وعدے کئے جا رہے ہیں۔حکومت نے تیسری ناراض اتحادی پارٹی گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (پی ڈی اے) کو بھی صوبہ سندھ کے معاملات اور کراچی کے حوالے سے شکایات و تحفظات دور کرنے اور ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کی یقین دہانیاں کرانا شروع کر دی ہیں۔جی ڈی اے کا وفد وفاقی وزیر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی قیادت میں وزیراعظم سیکرٹریٹ میں کمیٹی ممبران سے ملاقات بھی کر چکا ہے۔
اتحادی جماعتوں کا الزام یہ ہے کہ وفاق سے پنجاب کو چلایا جا رہا ہے۔یہ الزام براہِ راست وزیراعظم عمران خان پر ہے اور اس پر اب کسی قسم کی وضاحت کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ ان کے اپنے ساتھی شکایت کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے نواز شریف، شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے معاملات ٹھیک ہو رہے ہیں۔اس شکایت سے دکھائی دیتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے قریبی دوست اپوزیشن کو اسٹیبلشمنٹ سے معاملات ٹھیک کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتے۔ مسلم لیگ (ق) کے رہنما کامل علی آغا کے مطابق حکومت نے ان کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا، ڈیڑھ سال گزر جانے کے باوجود اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔طے ہوا تھا ہر کام مشاورت سے ہو گا،جو نہیں کی جا رہی۔ہمیں جو وزارت دی گئی ہے، وہ سرے سے ہی بے اختیار وزارت ہے۔ آج تک کسی پالیسی میں ہمارا مشورہ نہیں لیا گیا، پاور شیئرنگ میں کمی رہی۔ وفاق میں دو وزارتوں کا وعدہ اور معاہدہ تھا، ایک دی گئی۔
تین بار پنجاب میں سیکرٹری تبدیل کئے گئے، مگر ہم سے مشورہ تک نہیں لیا گیا۔ جب ہم عوام کے مسائل حل ہی نہیں کر رہے تو کل الیکشن میں عوام کے پاس کس منہ سے جائیں گے؟عثمان بزدار،عمران خان کی چوائس ہیں،ہم سازش کرتے تو مسلم لیگ(ن) کی آفر قبول کر لیتے۔ مسلم لیگ (ق) نے جہانگیر ترین سے گلہ کیا ہے کہ پنجاب کے سارے ترقیاتی فنڈز ڈیرہ غازی خان اور میانوالی کے لئے وقف کر دیئے گئے ہیں،اس نوعیت کا اندھیر کسی دور میں بھی برپا نہیں ہوا۔جن علاقوں اور حلقوں سے ہمارے ارکانِ اسمبلی کامیاب ہوئے ہیں،وہاں کے لوگ بھی اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام مانگتے اور مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ایک وسیم اکرم ہے،جس کی آنکھوں پر وزیراعظم نے پٹی باندھ رکھی ہے،جو کولہو کے بیل کی طرح ہی گھوم رہا ہے۔چودھری برادران کو حکومت کی طرف سے فنڈز نہیں ملتے تو ان کی طرف سے حکومت کو بھی صاف اور چٹا جواب دینے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے ساتھیوں اور اتحادی جماعتوں کی جانب سے اُٹھنے والی آوازوں کے جواب میں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ”بزدار تبدیل نہیں ہوں گے“۔وزراء اور اتحادی جماعتوں کی جانب سے پنجاب میں گورننس، ترقیاتی سکیموں، اختیارات سے متعلق شکایات ایک سوال ہے،جس کا جواب آخر کار وزیراعظم عمران خان نے ہی دینا ہے۔ تحریک انصاف کے اکثر رہنماؤں کو احساس ہو گیا ہے کہ سیاست میں غیر یقینی جیسی صورتِ حال پیدا ہو رہی ہے۔وزیراعظم معیشت اور گورننس کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کر سکے اور بلاوجہ ضد کر رہے ہیں کہ ”وزیراعلیٰ پنجاب کو نہیں بدلیں گے“…… اب ان کو بدلے بغیر کوئی چارہ نہیں، خود بدلیں گے تو سیاسی وقار بچ جائے گا، ایوان نے اٹھا کر باہر پھینک دیا تو بڑی شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔ چند روز پہلے لاہور سے نئے سیٹ اَپ کے ساتھ شائع ہونے والے ایک اخبار کی خبر میرے سامنے ہے، جس میں نیوز رپورٹر نے ملک کے سیاسی افق کو دیکھتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی پنجاب میں بڑی تبدیلی کی ہَوا چلنے کا امکان ہے اور آخر کار بزدار سرکار کی جگہ چودھری برادران حکومت سنبھال لیں گے…… (خدا کرے ایسا ہو جائے)……اور عوام کو کچھ ڈلیور ہونے میں آسانیاں پیدا ہو جائیں۔
روزنامہ ”پاکستان“ لاہور میں ایک بہت ہی پیاری صحافتی شخصیت ایڈمنسٹریٹر جمیل قیصر کے اس جہانِ فانی سے کوچ کر جانے کی خبر نے رنجیدہ کر دیا۔ ان کے بغیر ملاقات کے اگلے جہان چلے جانے نے رُلا دیا ہے۔ مرحوم کے والد گرامی کی بھی شعبہ صحافت میں خدمات کا اعتراف ہے،لیکن انہوں نے اس شعبے میں اپنے آپ کو منوایا۔آج پنجاب بھر میں روزنامہ ”پاکستان“ کے نمائندگان کے علاوہ دوسرے اخبارات سے منسلک لکھاری بھی ان کے جانے کا دُکھ محسوس کر رہے ہیں۔یہ دُکھ بھولنے والا نہیں ہے،ان کے بڑے بھائی اور فیصل آباد کی بڑی صحافی شخصیت منیر عمران اور جمیل قیصر کے سوگوار صاحبزادے اویس جمیل، شعیب جمیل،زوہیب جمیل اور لاہور سے تعزیت کے لئے آئے یونس باٹھ اور دیگر احباب کے درمیان بیٹھ کر دیر تک تعزیت کے الفاظ ذہن میں تلاش کرتا رہا، اور بس نم آلود آنکھوں اور کانپتے ہاتھوں کا پیالہ بنا کر یہی کہتا رہا، یا اللہ! جمیل قیصر تیرے پاس آ گیا ہے، اُس نے تیرے گھر کا طواف اور دیواروں کے ساتھ ہاتھ لگا لگا کر اپنے اہل خانہ، بہن بھائیوں کے ساتھ ساتھ روزنامہ ”پاکستان“ اور مجھ جیسے دوستوں کے لئے تیرے گھر اور تیرے پیارے اور محبوب رسولؐ کی مرقد کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو کر دُعائیں مانگی ہیں۔ یا اللہ! ان کے اِس نیک عمل کے صدقے میں ان کی مغفرت فرما اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما دے ”آمین“۔