دنیا میں بڑھتی ہوئی عدم مسا وات
کرونا سے پہلے والی دنیا کو بھی ”مثالی“ دنیا ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا، مگر اب کرونا کے بعد دنیا کے مسائل میں مزید اضافہ ہورہاہے۔ان مسائل میں عدم مساوات، بے روزگاری اور غربت شامل ہیں۔دنیا میں اب تک”کرونا“ کے باعث20لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں تو دوسری طرف خود عالمی سرمایہ داری نظام کے اداروں کی جانب سے ایسے اعداد و شمار سامنے آرہے ہیں، جن سے واضح ہو رہاہے کہ کرونا کے بعد کس طرح وسائل کی تقسیم مزید غیر منصفانہ ہو تی جا رہی ہے۔جیسے”عالمی بینک“ کے اعداد و شمار پر اعتبارکیا جائے تو 2015ء سے 2017ء تک کے دوسالوں میں دنیا بھر میں غربت کی لکیرسے نیچے رہنے والے (09۔1ڈالرز سے کم کمانے والے) کی تعداد 741ملین سے کم ہو کر 689ملین ہو گئی تھی۔
اب عالمی بینک نے جو رپورٹ شائع کی ہے، اس کے مطابق 150ملین مزید افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں،جبکہ بر طانیہ میں ”خیراتی“ اداروں پر مشتمل تنظیم ”آکسفیم“کی تازہ رپورٹ بھی چونکا دینے والی ہے”آکسفیم“ کے مطابق 1870ء کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ دنیا کے ہر خطے اور ہر علاقے میں رہنے والے افراد کی فی کس آمدنی میں کمی آئی ہے۔ اس سے عدم مساوات میں مزید اضافہ ہو گا۔2008ء سے 2018ء تک کے دس سال میں ارب پتی افراد کی تعداد دو گنی ہو گئی۔۔”آکسفیم“ کے اندازے کے مطابق دنیا کی 56 فیصد آبادی یومیہ 2سے10ڈالرز پر گزارا کرتی ہے۔دنیا کے تین ارب افراد کو صحت کی سہولیات تک رسائی نہیں ہے۔ کرونا کے عرصے میں دنیا کے دس امیر ترین افراد کی دولت میں 540ارب ڈالرز کا اضافہ ہوا۔ دنیا کے 2300امیر ترین افراد کے پاس لگ بھگ 95۔11ٹریلین ڈالرز کی دولت ہے۔ جبکہ جی 20کے ممالک کی حکومتوں نے”کرونا“ اور اسکے اثرات کو کنٹرول کرنے کیلئے اتنی رقم ہی صرف کی تھی۔
”آکسفیم“نے2020میں دنیاکے79ممالک کے 295معاشی ماہرین سے جو سروے کر وایا ہے ان کی اکثریت نے اس با ت سے اتفاق کیا ہے کہ”کرونا“ کے اثرات کے باعث آنے والے کئی سالوں تک دنیا کوبڑے پیمانے پر غربت اور معا شی بدحالی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ان میں سے دو تہائی معاشی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ انکی حکومتوں کے پاس ان معاشی چیلیجز سے نمٹنے کی کوئی حکمت عملی ہی نہیں ہے۔ اور اکثر معاشی ماہرین اس با ت سے اتفاق کرتے ہیں کہ معا شی بدحالی دنیا کے سماجوں میں نسلی،لسانی اور مذ ہبی اختلافات کومزید فروغ دے گی۔”آکسفیم“کی اس رپورٹ میں یہ دلچسپ انکشا ف بھی کیا گیا ہے کہ دنیا کے ایک ہزار ارب پتی افراد ایسے ہیں کہ جنہوں نے گزشتہ نو ماہ میں اپنی دولت میں کرونا کے دور سے پہلے جتنا اضافہ کیاہے۔مگر دوسری طرف غریب افراد کو اپنے معاشی حالات میں بہتری لانے کیلئے کم از کم دس سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔مغربی ممالک کے کئی ارب پتی سرمایہ دار تو ایسے بھی ہیں جن کو کرونا کے دوران بھی اربوں کا منا فع ہو ا ہے۔
جیسے”آکسفیم“ نے ”ایما زون“کے مالک”جف بیزوس“کی دولت کا اندازہ لگانے کے بعد یہ دعویٰ کیا ہے کہ اگر”جف“ چاہے تو ”ایما زون“میں کام کرنے والے تمام 8لاکھ 76ہزار ملازمین کوایک لاکھ پانچ ہزار امریکی ڈالرز کا بونس بھی دے سکتا ہے۔اس کے با وجود”جف بیزوس“ کی دولت اتنی ہی رہے گی جتنی ”کرونا“ کے دور سے پہلے تھی۔ جبکہ دنیا کے دس امیر ترین ارب پتی افراد کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ دنیا میں بسنے والے ہر شخص کی کرونا ویکسین پر خرچ کرنے کے با جود بھی ارب پتی ہی رہیں گے۔”آکسفیم“ نے اپنی رپورٹ میں وسائل کی غیر منصفافہ تقسیم کے جو حل پیش کیے ہیں وہ نا قابل عمل ہیں۔ جیسے حکومتوں سے مطا لبہ کیا گیا ہے کہ وہ امیروں پر اور زیادہ ٹیکس لگا ئیں تاکہ عام شہر یوں کے روزگار، تعلیم اور صحت پر زیادہ خرچ کیا جا سکے۔
”آکسفیم“ جیسے اداروں کے ذریعے ہمیں دنیا میں بڑھتی ہوئی عدم مسا وات کے بارے میں اعداد وشمار تو مل جاتے ہیں مگر اس ادارے کی جانب سے مسائل کے حل کیلئے جو بھی تجا ویز دی جاتی ہیں ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ادارہ مسائل پیدا کرنے والے نظام سے ہی یہ امید لگا تا ہے کہ یہی نظام مسائل کو حل بھی کر دے گا۔ ایسا قطعی طور پر ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ دنیا کے غریب یا ترقی پذیر اور کرپٹ سمجھے جانے والے ممالک کی مثال کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس وقت کے عالمی سرمایہ داری نظام کے سرخیل”امریکہ“ کی مثال کوہی سامنے رکھیں تو معلوم ہو گا کہ امریکہ کا پورا سیاسی نظام ہی اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ جس کا بنیادی مقصد ہی سرمایہ داروں کے مفادات کی نگرانی کرنا ہے۔
امریکی صدر اور کانگرس، امریکہ کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کی مدد سے اقتدار میں آکر کیسے ایسی پالیسیاں بنا سکتے ہیں کہ جن سے ان سرمایہ داروں کے مفادات کو نقصان پہنچے۔امریکہ کی اس مثال کے بعد یورپی ممالک کی مثال کو دیکھ لیں یورپ کے بڑے ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور بر طانیہ وغیرہ میں بڑی سیاسی جما عتیں سرمایہ داری نظام کے تحت ہی کام کرتی ہیں۔ اب یورپ کے ان بڑے ممالک میں بھی ویلفیر کا نظام پہلے کے مقابلے میں کمزور ہوتا دکھائی دے رہاہے۔ یورپی ممالک کے اندر دائیں بازو اور نسل پر ستی کی سیاست کرنے والی سیاسی جما عتوں کو ملنے والی مقبولیت اس با ت کا ایک ثبوت ہے۔یہاں پر امریکہ اور یو رپ کی مثالیں دینے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ اگر ایسے سماج جہاں سے ”جمہوریت“ ”ویلفیئر اسٹیٹ“ ”عوام کے حقوق“ جیسے تصورات نے جنم لیا ہے اگر وہاں کے سیاسی نظام بھی اشرافیہ کے حقوق کی ہی آبیا ری کیلئے بنائے گئے ہیں تو پھر با قی دنیا کے ممالک میں کس طرح سے سیاسی نظام چلتے ہوں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔سرمایہ داری نظام کی بنیاد ہی ”حرص“ اور”لالچ“ پر ہے ایسے میں اس نظام سے یہ توقع کرنا کہ وہ اورزیادہ دولت بنانے کی حرص اور لالچ کو کم کر دے گا سرا سر خام خیالی ہے۔