کپتان کے دور میں کرپشن کیسے بڑھ گئی؟

کپتان کے دور میں کرپشن کیسے بڑھ گئی؟
کپتان کے دور میں کرپشن کیسے بڑھ گئی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اب یہ ہے تو حیران کن امر کہ پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی ہے اور عالمی سطح پر کرپشن کے حوالے سے پاکستان کا درجہ مزید اوپر چلا گیا ہے۔ حیران کن اِس لئے کہ موجودہ حکومت تو کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ کر کے اقتدار میں آئی تھی اور عمران خان کا آج بھی عزم یہی ہے کہ وہ کرپشن کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ پھر یہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کیوں یہ انکشاف کر رہی ہے کہ پاکستان کرپشن کے حوالے سے اوپر چلا گیا ہے۔ کرپشن کے خلاف اتنا زیادہ شور شرابہ، نیب کی اتنی پکڑ دھکڑ، محکمہ اینٹی کرپشن کی اس قدر بھرپور کارروائیاں کیا صرف ایک دکھاوا ہیں؟کپتان کے لئے تو یہ رپورٹ ایک دھچکا ہو گی، خیز انہیں اس کی زیادہ پروا نہیں ہونی چاہئے، اُن کے پاس شہباز گل جیسے ترجمان موجود ہیں جو سامنے کی حقیقتیں بھی جھٹلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔انہوں نے یہ انوکھا بیان جاری کر دیا ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں اعداد و شمار تین سال پرانے ہیں، حالانکہ رپورٹ میں صاف لکھا ہے کہ اسے 2020ء تک کے اعداد و شمار کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے، جھوٹ بولنا اور ہر سچ کو جھوٹ قرار دینا بڑی پرانی تکنیک ہے تاہم بعض اوقات ایسی باتیں بھی کرپشن کے زمرے میں آتی ہیں جب تک آپ میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہو گی کہ حقائق کو تسلیم کر سکیں اُس وقت تک اصلاح کی طرف کوئی قدم آپ کیسے اٹھا سکتے ہیں۔


سادہ سا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن کیوں نہ بڑھتی؟ آخر ایسے کیا اقدامات کئے گئے ہیں جن کی وجہ سے یہ لگے کہ اب کرپشن کرنا آسان نہیں۔اِس وقت وطن ِ عزیز سرکاری افسران کی جنت بنا ہوا ہے۔انہیں کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ احتساب کا سارا دارو مدار سیاست دانوں پر ہے۔نیب کے چیئرمین تاجروں اور بیورو کریٹس کو یہ یقین دلاتے پھر رہے ہیں کہ اُن کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے۔آپ آزادانہ اپنا کام کریں،جب اتنی کھلی چھٹی دے دی جائے گی تو کرپشن کو کیا کوئی غیبی طاقت آ کر روکے گی۔گزشتہ اڑھائی برس کے دوران حکومت نے ایسے کون سے قوانین بنائے ہیں،جن سے کرپشن کم ہو جاتی، کوئی ایک نیا قانون بھی تو نہیں بنایا گیا۔ وہی ٹھیکیداری نظام، وہی سرکاری کاموں کی بندر بانٹ، وہی بیورو کریسی کے صوابدیدی اختیارات، وہی ارکانِ اسمبلی کے لئے کروڑوں روپے کی گرانٹس اور اُن پر کسی موثر نگرانی کا فقدان،وہی سرکاری دفاتر میں بدعنوانی کا راج اور وہی رشوت کا بازار، کیا کرپشن کپتان کی صرف تقریروں کے باعث نیچے آ جاتی، کیا ہم صرف اس وجہ سے کہیں کہ کرپشن کم ہو گئی ہے، کیونکہ کپتان ایماندار ہے۔ کیا ایک حکمران کے ایماندار ہونے سے سسٹم میں اصلاح کئے بغیر بہتری لائی جا سکتی ہے۔

اب تو لوگ یہ عام کہتے پائے جاتے ہیں، پہلے جو کام سو روپے میں ہو جاتا تھا اب اُس کے لئے ہزار روپے رشوت دینی پڑتی ہے۔مجھے نہیں یاد کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کبھی کسی افسر کے خلاف کرپشن کے الزام میں ایکشن لیا ہو، ہاں البتہ اُن کے دور میں سرکاری افسر صبح و شام تبدیل ضرور ہوتے رہتے ہیں۔اس کے پس پردہ کیا کہانی ہے،اس کا جائزہ بھی لیا جانا چاہئے۔کپتان نے الیکشن مہم کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ90 دن میں کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔وہ اسی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی مثال دے کر پچھلے حکمرانوں پر تنقید کیا کرتے تھے، مگر وہ کرپشن کو جڑ سے تو کیا اکھاڑتے، اُس کی جڑیں پھیلنے کا نظارہ بنی گالہ میں بیٹھ کر ضرور کرتے رہے،پہلے بھی کئی بار یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کرپشن کیا صرف چند خاندانوں یا لوگوں تک محدود ہے یا ایک زہر بن کر پورے معاشرے کے وجود میں سرایت کر چکی ہے۔ عمران خان آئے روز یہ کہتے ہیں کسی کرپٹ کو این آر او نہیں دوں گا،حالانکہ کرپشن ہے، جو نچلی سطح پر پائی جاتی ہے اور جس کا انہیں آئے دن سامنا رہتا ہے، عوام ایک کرپٹ نظام کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

تھانوں، پٹوار خانوں، دفاتر اور بڑے افسروں کی راہداریوں تک جو ایک جابرانہ اور ظالمانہ نظام رائج ہے، اُس سے صرف وہی انصاف حاصل کر سکتا ہے، جس کے پاس دینے کو وافر پیشہ ہو۔وگرنہ اُس کی کہیں شنوائی نہیں ہو گی اور وہ ایڑیاں رگڑتا رہے گا۔ کیا حکومت نے اپنے اڑھائی سال کے عرصے میں ایسا کوئی میکانزم بنایا ہے کہ لوگوں کے کام میرٹ پر ہونے لگیں۔کیا احتساب کا کوئی نظام بیورو کریسی کی سطح پر متعارف کرایا گیا۔ لے دے کے وزیراعظم پورٹل بنایا گیا، جو ایک بڑے لطیفے سے کم نہیں،کیونکہ وہاں جو درخواست دی جاتی ہے وہ اُسی افسر کے دفتر بھجوا دی جاتی ہے، جس کے خلاف داد رسی کی اپیل کی گئی ہوتی ہے۔ پھر آج تک کوئی ایسے اعداد و شمار بھی جاری نہیں کئے گئے کہ کتنے افسروں کو شکایات اور ناجائز تنگ کرنے کے باعث عہدوں سے ہٹایا گیا یا اُن کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی۔


مسلم لیگ(ن)  نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ آنے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ وہ ایسا کر سکتی ہے،کیونکہ اسی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر تحریک انصاف بہت شور مچاتی رہی۔ تاہم پیپلزپارٹی کی طرف سے تنقید سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہ رپورٹ ملکی سطح پر اعداد و شمار جمع کرنے کے بعد جاری کی گئی ہے، گویا اس میں سندھ کے اعداد و شمار بھی شامل ہیں، جہاں پیپلزپارٹی کی دس سال سے حکومت ہے۔اگر کرپشن بڑھی ہے تو سندھ حکومت بھی اُس کی ذمہ داری ہے۔ رپورٹ میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ سندھ میں کرپشن کم ہوئی ہے یا ختم ہو گئی ہے،بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ سندھ میں زیادہ کرپشن کی وجہ  سے مجموعی طور پر پاکستان کا گراف اوپر گیا ہو۔ کپتان ہمیشہ جرأت کا  مظاہرہ کرتے ہوئے حقائق کو تسلیم کر لیتے ہیں،انہیں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کو بھی تسلیم کر کے ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں کہ اگلے اڑھائی برسوں میں انہیں پھر ایسی کسی رپورٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ آسان نہیں، مگر ساکھ بچانے کے لئے یہ قدم ضروری ہے۔

مزید :

رائے -کالم -