پہلا ٹیسٹ، فواد، نعمان اور یاسر کے نام
پہلے روز ہی چودہ وکٹیں گرنے پر جیسے توقع کی جارہی تھی کہ ٹیسٹ میچ نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔ وہی ہوا اور چوتھے روز میچ کے اختتام تک مجموعی طور پر تینتیس وکٹیں گریں اور میچ فیصلہ کن ثابت ہوا۔ کل حاصل کی جانے والی وکٹوں میں سے اسپنرز کے حصے میں مجموعی طور پر اٹھارہ وکٹیں آئیں جس نے اس بات کو مزید تقویت دی ہے کہ ایشیائی وکٹیں ہمیشہ اسپنرز کے لیے سازگار رہی ہیں۔
بلاشبہ پاکستانی ٹیم نے پہلے میچ میں ہر شعبے میں اپنا آپ منوایا ہے۔ پہلے روز جنوبی افریقہ کو کم رنز پر آؤٹ کرکے جیت کی بنیاد رکھی۔ دوسرے روز فواد عالم کی داغی جانے والی سینچری کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ ایک مشکل وکٹ پر پورے ٹیسٹ کے دوران اسکور کی جانے والی واحد سینچری تھی جس کے بعد سے پاکستان کی پوزیشن مزید مضبوط ہوگئی۔ دیگر کھلاڑیوں اظہر علی، فہیم اشرف اور رضوان کی جانب سے قائم کی جانے والی پارٹنرشپس نے بھی پاکستان کی پہلی اننگز میں ایک بڑا اسکور بورڈ پر سجانے میں مدد کی۔
ڈیبیو کرنے والے نعمان علی نے پہلی اننگز میں جیسی نپی تلی باؤلنگ کی تھی اس سے توقع تھی کہ وہ دوسری اننگز میں بھی اپنا کمال دکھائیں گے۔ نعمان علی توقعات پر پورا اترے اور ڈیبیو پر ایک اننگز میں پانچ وکٹیں لینے والے ساتویں عمر رسیدہ کھلاڑی بنے اور 72 سالہ ریکارڈ توڑ ڈالا۔ بلاشبہ یاسر شاہ نے بھی ان کا بھرپور ساتھ نبھایا اور دونوں باؤلرز میچ میں سات سات وکٹیں لینے کے ساتھ ٹاپ وکٹ ٹیکرز رہے۔ اس پرفارمینس کے بعد یاسر شاہ کی فٹنس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات بھی مکمل دم توڑ گئے۔ یاسر شاہ نے محض 44 ٹیسٹ میچوں میں 234 وکٹیں حاصل کرکے ڈینس للی کا 40سالہ پرانا ریکارڈ توڑا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی میں فاسٹ باؤلرز کی جوڑیوں کی طرح اسپنرز کی جوڑیوں کو بھی متواتر مواقع دیے جائیں جس سے یقینی طور پر کسی بھی ٹیسٹ میچ میں مخالف ٹیم پر دباؤ ڈالنا اور اہم مواقع پر وکٹیں حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔ دونوں اسپنرز پر باؤلنگ کا بوجھ بھی کم ہوگا اور پاکستانی باؤلنگ اہم ٹیسٹ میچز میں بریک تھرو دلوا کر قومی ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کرے گی۔
اگر بات کی جائے جنوبی افریقہ کی بیٹنگ کی تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ٹیسٹ میچ کے لحاظ سے کراچی نیشنل اسٹیڈیم کی پچ ایک مشکل پچ تھی مگر دوسری اننگز میں اوپنرز کی بہتر بنیاد رکھنے کے بعد توقع تھی کہ جنوبی افریقی بلے باز ایک بہتر مجموعہ ترتیب دے کر چوتھے روز لنچ تک بیٹنگ کریں گے۔ مگر محض ستر رنز کے درمیان ان کی نووکٹیں گرنا جنوبی افریقی بیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ خاص کر ان کے کپتان ڈی کاک اور سینئر پلئیر ڈی پلیسی سے جیسی ذمہ دارانہ اننگز کی توقع کی جارہی تھیں وہ دونوں اننگز میں ان پر پورے نہیں اترے۔ ڈی ویلئرز اور ہاشم آملہ کی ٹیسٹ ٹیم سے رخصتی کے بعد ڈی کاک اور ڈی پلیسی کو ہی اب یہ بار اٹھانا ہوگا اور خاص کر ایشیائی پچوں پر ان کی کامیابی کا سارا دارومدار دباؤ برداشت کرتے ہوئے اپنا نیچرل گیم کھیلنا ہے تب ہی کامیابی ان کا مقدر ٹھہرے گی۔
پاکستان کی دوسری اننگز میں یکے بعد دیگرے وکٹیں گرنے سے ڈریسنگ روم میں بے چینی کی فضا پیدا تو ہوئی مگر پاکستان ایک یقینی جیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ پاکستان نے بابر اعظم کی کپتانی میں اپنا پہلا ٹیسٹ میچ جبکہ جنوبی افریقہ کے خلاف پانچواں ٹیسٹ میچ جیت لیا۔ امید ہے کہ نئے کپتان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم جیت کا سفر یوں ہی جاری و ساری رکھےگی اور چار فروری سے شروع ہونے والے دوسرے راولپنڈی ٹیسٹ میں بھی یہی ٹیم کھلا کر کامیابیوں کا تسلسل برقرار رکھے گی۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.