پہلی بار اس شہر کو چھوڑتے وقت جتنا رویا تھا، اب کی بار نہیں رویا گیا۔ دل پتھر ہوگیا تھا

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:3
اس کے بعد تو گویا شہر میں سیمنٹ، فولاد اور شیشے کی عمارتوں کا ایک طوفان امڈ آیا جس نے اس علاقے کے قدرتی حسن کو گہنا کر رکھ دیا۔ پہلے کسی بھی سڑک کو دیکھتے تھے تو میلوں تک لہراتی بل کھاتی اس کی اٹھکیلیاں نظر آتی تھیں ۔ اب وہاں قدم قدم پر بے ترتیبی سے نصب کیے گئے بے ہنگم اور دیو ہیکل اشتہاری بورڈوں نے حدِ نظر کو بے حد محدود کردیا ہے،کچھ بھی تو نظر نہیں آتا۔
چند ماہ قبل ،جب کوئی15 برس بعد مجھے ایک بار پھر کراچی جانے کا اتفاق ہوا تو شہر کی ابتر حالت دیکھ کر مجھے ایک شدید جھٹکا لگا۔ ہر طرف گندگی اور کچرے کے پہاڑ کھڑے تھے جن میں سے بدبو کے بھبھکے اٹھ رہے تھے اور گندا پانی رس رس کر سڑک پر بہہ رہا تھا،جہاں بے شمار گڑھے پڑے ہوئے تھے ۔ لگتا تھا قرون اولیٰ کی کسی بستی میں آن پہنچے ہیں۔ ایک سڑک تومیری جانی پہچانی تھی، پر اب یہاں کا ماحول بڑا سوگوار سا تھا۔چند لمحوں کے لیے ٹھہر کر میں ماضی کی سیڑھیاں اتر کر اپنے بچپن کی گزاری ہوئی زندگی میں آگیا تو مجھے علی الصبح یہاں، ہاں اسی سڑک پر، خاکروبوں کی ہا ہا کار کے ساتھ ان کے جھاڑوﺅں کی چھن چھن اور ٹینکروں کے فواروں میں سے گرتے ہوئے پانی کی مترنم آوازیں سنائی دیا کرتی تھیں۔اس وقت یہ سڑک بلا ناغہ دھلا کرتی تھی۔ بلدیہ کے کارندوں کی کوشش ہوتی تھی کہ اہلِ کراچی کے بیدار ہونے سے پہلے اس شہر کو دھو چمکا کر شہریوں کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے دن کا آغاز صاف ستھرے ماحول میں کریں۔
اپنے خوبصورت تعلیمی ادارے اسلامیہ کالج کی طرف آیا تو اسے دیکھ کر تو بے اختیار آنسو ہی نکل آئے۔ اپنے وقت کا سب سے بڑا اورخوب صورت کالج اب کھنڈر بن چکا تھا۔ کھڑکیاں، دروازے ٹوٹ کر لٹک رہے تھے اور کوئی شیشہ بھی سلامت نہ تھا۔ سارے شہر کی طرح یہاں بھی چار دیواری کے ساتھ کچرے کے انبار لگے ہوئے تھے، صرف داخلی دروازے کے سامنے کوڑا کرکٹ نہیں تھا۔ قائد کے مزار کی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی۔ سوائے مزار کی مرکزی عمارت اور ایک طرف کے داخلی راستے کے، سارا مزار جلی ہوئی گھاس، ٹوٹی پھوٹی کیاریوں ، تباہ شدہ خشک تالابوںاور ادھر اُدھر لڑکھڑاتے پتھروں سے اٹا پڑا تھا۔ ظالمو اپنے قائد کی اس آخری آرام گاہ پر تو کچھ رحم کر دیا ہوتا!
پہلی بار اس شہر کو چھوڑتے وقت میں جتنا رویا تھا، اب کی بار نہیں رویا گیا۔ دل پتھر ہوگیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے اب میں اپنے ہی شہر میں اجنبی تھا۔
مجھ پر میرے شہر کراچی کا ایک بہت بڑا قرض تھا، جو میں مدت سے ادا نہ کرسکا ۔ سچ پوچھیں تو میں نے کبھی کوشش بھی نہیں کی تھی ،بہانہ و ہی گھسا پٹا تھا ، یعنی غم دوراں اور غمِ جاناں والا۔ اب عمر کے اس حصے میں فرصت کے کچھ لمحات میسر آئے اور میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو علم ہوا کہ اس شہرِ بے مثال کے مجھ پر بے شماراحسانات تھے۔سو آج یہ ادھار بھی اس کتاب کی شکل میںچکا دیا ہے۔
اب آپ کتاب شروع کیجیے ، اور اگر اس کو پڑھتے وقت کسی موقع پر کچھ یادیں آپ کو سوگوار کر جائیں اور آنکھوں کے گوشے بھیگ جائیں توسنبھل جانے پر اپنے اس خوب صورت مگر بدنصیب شہر کے لیے دعا ضرور کیجیے گا کہ اللہ یہاں رہنے والے ہر شخص کو خوش وخرم رکھے۔
محمدسعیدجاوید
( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )