سڑکوں پر لاوارثوں والی زندگی کیا ہوتی ہے، ایک بوٹ پالشیا کیسے جیتا ہے ! روٹی کے چند لقموں پر جینا اور کہیں سیڑھیوں پر یا کسی ویگن کے نیچے سو رہنا کیسا ہوتا ہے

سڑکوں پر لاوارثوں والی زندگی کیا ہوتی ہے، ایک بوٹ پالشیا کیسے جیتا ہے ! روٹی ...
سڑکوں پر لاوارثوں والی زندگی کیا ہوتی ہے، ایک بوٹ پالشیا کیسے جیتا ہے ! روٹی کے چند لقموں پر جینا اور کہیں سیڑھیوں پر یا کسی ویگن کے نیچے سو رہنا کیسا ہوتا ہے

  

مصنف : اپٹون سنکلئیر

ترجمہ :عمران الحق چوہان 

 قسط:150

مقرر خاموش ہوا تو ایک لمحہ سنّاٹا چھایا رہا، جیسے سب نے سانس روک کھا ہو پھر جیسے یک لخت پورے مجمعے سے گویا ایک چیخ ابھری۔۔۔ اس سارے واقعے کے دوران یورگس ساکت بیٹھا رہا، بے حس و حرکت، اس کی آنکھیں مقرر پر مرکوز تھیں۔ حیرت کے مارے اس کا جسم ہولے ہولے لرز رہا تھا۔

اچانک اس آدمی نے ہاتھ بلند کیا،سب لوگ خاموش ہو گئے اور اس نے پھر بولنا شروع کیا۔

” میں تم سے درخواست کرتا ہوں۔“ اس نے کہا ” تم جو بھی ہو، بشرطےکہ تم سچ میں دلچسپی رکھتے ہو۔ لیکن سب سے زیادہ میرا خطاب مزدوروں سے ہے۔ ان سے جن کے لیے میری بیان کردہ برائیاں اور ظلم محض جذباتی باتیں نہیں ہیں کہ جن سے وقتی طور پر کھیل کر انھیں ایک طرف رکھ دیا جائے اور فراموش کردیا جائے۔۔۔ جن کے لیے یہ روزمرّہ کی تکلیف دہ اور بے رحم حقیقتیں ہیں، جن کے جسموں پر زنجیریں ہیں، کمر پر کوڑوں کے نشان ہیں اور روحیں گرم لوہے سے دغی ہوئی ہیں۔ مزدورو تم سے ! محنت کشو تم سے ! جنھوں نے یہ ملک بنایا ہے اور اس کی کاؤنسلوں میں تمھاری ہی کوئی شنوائی نہیں ہے ! تم، جن کی محنت کی فصل کوئی اور اٹھا لے جاتا ہے، جو مزدوری کرتے اور حکم مانتے ہیں اور ایک بوجھ ڈھونے والے جانور سے زیادہ اجرت کا تقاضا نہیں کرتے ! جو ہر دن زندہ رہنے کے لیے روٹی اور چھت مانگتے ہیں۔ یہ تم ہی ہو جن کے لیے میں نجات کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ یہ تم ہی ہو جن سے میں درخواست کر رہا ہوں۔ مجھے پتا ہے کہ تم سے کتنا تقاضا کرنا ہے۔۔۔ کیوں کہ میں تمھاری جگہ رہ چکا ہوں، میں نے تمھاری زندگی گزاری ہے اور آج رات کوئی آدمی ایسا نہیں جو مجھ سے بہتر تمھارے حالات جانتا ہو۔ مجھے علم ہے کہ سڑکوں پر لاوارثوں والی زندگی کیا ہوتی ہے، ایک بوٹ پالشیا کیسے جیتا ہے ! روٹی کے چند لقموں پر جینا اور کہیں سیڑھیوں پر یا کسی ویگن کے نیچے سو رہنا کیسا ہوتا ہے۔ مجھے پتا ہے ہمت اور آرزو کس چیز کا نام ہے، اونچے خواب دیکھنا اور پھر انہیں بکھرتے دیکھ کر کیا محسوس ہوتا ہے! روح کے سارے خوش رنگ پھولوں کو طاقت کے وحشی درندے کے قدموں تلے کچلے جانے پر کتنا دکھ ہوتا ہے۔ مجھے پتا ہے کہ ایک مزدور کو علم کی کیا قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔۔۔ میں نے یہ قیمت ادا کی ہے، اپنی بھوک اور نیند سے، جسم اور دماغ کی اذیّت سے بلکہ شاید پوری زندگی سے۔ چنانچہ جب میں تمھیں امید اور آزدی کی کہانی سناتا ہوں، ایک نئی دنیا کی تخلیق کے تصور کے ساتھ، ایک نئی مشقت کے خیال کے ساتھ تو تمھیں یوں بے یقینی اور کاہلی کے ساتھ پتھر کا بت بنا دیکھ کر حیرت نہیں ہوتی۔ میں مایوس بھی نہیں ہوتا کیوں کہ مجھے ان طاقتوں کا علم ہے جو تمھارے پیچھے کار فرما ہیں۔۔۔ کیوں کہ میں غربت کے کڑکتے کوڑے کی آواز سن سکتا ہوں، نفرت اور آقائیت کے ڈنک کو محسوس کر سکتا ہوں۔’ افسروں کی بداخلاقی اور بدتمیزی ‘، ( شیکسپئیر کے ڈرامے” ہیملٹ“ کا حوالہ۔ مترجم)کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ جو لوگ آج مجھے سننے آئے ہیں، چاہے ان میں سے جتنے بھی لاپروا اور بے دھیان ہوں، چاہے جتنے بھی محض تجسس کی وجہ سے آئے ہوں، یا مذاق اڑانے آئے ہوں، ان میں کوئی ایسا ضرور ہو گا جسے دکھوں اور مصیبتوں نے بے خوف بنادیا ہوگا، جسے کسی ظلم اور جبر کے اتفاقی مشاہدے نے دہشت کی وجہ سے چوکنّا کردیا ہوگا۔ اس کے لیے میرے الفاظ ایسے ہوں گے جیسے اندھیرے میں سفر کرنے والے کے لیے بجلی کا کوندا۔۔۔ جس سے راستہ واضح دکھائی دینے لگتا ہے، اپنی تمام مشکلوں اور رکاوٹوں کے ساتھ۔۔۔ وہ ان کے مسئلے حل کرتا ہے۔۔۔ ساری مشکلات کو سامنے لے آتا ہے! اس کی آنکھوں پر پڑے پردے ہٹ جائیں گے، اس کی بیڑیاں ٹوٹ کر گر جائیں گی۔۔۔ وہ شکر گزاری کے نعرے کے ساتھ اچھل کر کھڑا ہوجائے گا اور وہ بلآخر ایک آزاد آدمی کے مانند آگے بڑھے گا! ایک آدمی جسے اپنی خود ساختہ غلامی سے نجات مل جائے گی! وہ جو پھندے سے چھوٹ جائے گا! جسے چرب زبانی سے فریب نہیں دیا جا سکے گا۔ جسے دھمکیوں سے ڈرایا نہیں جا سکے گا۔ جو آج رات کے بعد سے آگے بڑھے گا، پیچھے نہیں ہٹے گا۔ جو تعلیم حاصل کرے گا اور باتوں کو سمجھے گا۔ جو اپنی تلوار سونت کر اپنے بھائیوں اور کامریڈوں کی فوج کا حصہ بنے گا۔ جو دوسروں کو خوشخبری دینے والا ہوگا، جیسے میں نے اسے دی ہے۔۔۔ اُس آزادی اور روشنی کا انمول تحفہ جو نہ میری ملکیت ہے نہ اس کی بلکہ انسانی روح کا ورثہ ہے!مزدورو، محنت کشو !۔۔۔ کامریڈو!اپنی آنکھیں کھولواور ارد گرد دیکھو ! تم نے اتنی دیر مشقت اور حبس میں زندگی گزاری ہے کہ تمھارے حواس کند ہوگئے ہیں، تمھاری آوازیں گونگی ہو گئی ہیں، تمھاری روحیں بے حس ہو گئی ہیں۔ لیکن اپنی زندگی میں ایک بار اس دنیا کو محسوس کرو جس میں تم رہتے ہو۔۔۔ اس کے پرانے رسم و رواجوں کے چیتھڑے اتار پھینکو۔۔۔ اسے اس کی حقیقی صورت میں دیکھو، مکروہ عریاں حالت میں! اس بات کا احساس پیدا کرو کہ آج رات منچوریا کے میدانوں میں دو دشمن قوتیں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔۔۔ جو کہ اب، جب ہم یہاں بیٹھے ہیں، تقریباً ایک ملین انسان ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑنے کو ہیں، ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچنے کے لیے تیار ہیں!۔۔۔ اور یہ سب بیسویں صدی میں ہو رہا ہے، زمین پر امن کے شہزادے کی پیدائش کے1900 سال بعد! 1900 سال سے اس کے ا لفاظ کو خدائی الفاظ کہہ کر تبلیغ کی گئی ہے، اور یہاں انسانوں کی دو فوجیں جنگل کے درندوں کی طرح ایک دوسرے کی تِکّا بوٹی کررہی ہیں ! فلسفیوں نے دلائل دئیے، پیغمبروں نے ڈرایا، شاعروں نے منتیں کیں۔۔۔ پھر بھی یہ وحشی درندے آزاد گھوم رہے ہیں! ہمارے پاس اسکول اور کالج ہیں، اخبار اور کتابیں ہیں۔ ہم نے زمین آسمان کھنگال مارے، تولا، پرکھا اور سمجھا۔۔۔ صرف اس لیے کہ انسان، انسان کو تباہ کرنے کے لیے مسلح ہو سکے ! ہم اسے جنگ کہتے ہیں، اور نظر انداز کر دیتے ہیں۔۔۔ میری باتوں کو فرسودہ اور روایتی باتیں سمجھ کر نظر انداز مت کرو۔۔۔ میرے ساتھ آؤ، میرے ساتھ آؤ!۔۔۔ اس کا احساس پیدا کرو! گولیوں سے چھِدے انسانوں کے جسم دیکھو، گولوں سے اڑتے ہوئے پرخچوں کو دیکھو! انسانی جسموں میں بھونکی جاتی ہوئی سنگینوں کی آواز سنو، درد میں ڈوبی کراہوں اور چیخوں کو سنو، تکلیف سے بگڑی ہوئی انسانی شکلیں دیکھو، جنھیں غصے اور نفرت نے بھوتوں میں تبدیل کر دیا ہے! ایک لمحے کو اِس گوشت کے لوتھڑے پر ہاتھ رکھو!۔۔۔ یہ گرم ہے اور لرز رہا ہے۔۔۔ ابھی تو یہ ایک انسان کا حصہ تھا! اس خون سے ابھی تک بھاپ نکل رہی ہے۔۔۔ ابھی تو یہ ایک انسان کے دل میں دوڑ رہاتھا! میرے خدایا ! یہ یوں ہی چلتا رہتا ہے۔۔۔ یہ سوچا سمجھا اورمنظم سلسلہ ہے۔اور ہم اسے جانتے ہیں، اس کے بارے میں پڑھتے ہیں اور پھر بھی اسے قبول کیے ہوئے ہیں۔۔۔ ہمارے اخبار اس کی کہانیاں چھاپتے ہیں اور چھاپا خانے بند نہیں ہوتے، ہمارے گرجے اسے جانتے ہیں اور اپنے دروازے بند نہیں کرتے۔۔۔ لوگ اسے آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن خوف سے اٹھ کر بغاوت نہیں کرتے ! ( جاری ہے ) 

نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -