ہگس بوسان....اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے

ہگس بوسان....اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app




گزشتہ دنوں یورپی تنظیم برائے تحقیق CERNسے تعلق رکھنے والے ماہرین طبیعات نے یورپ کی مشترکہ تجربہ گاہ ایل ایچ سی Large Hadron Colliderمیں اجزائی طبیعات Particle Physicsپر تجربات کرکے ایک نئے جزوParticleکی دریافت کا اعلان کیا۔اتفاق سے مَیں نے چند روز پہلے ایک چھوٹی سی کتاب Looking for God,Get reasonableپڑھی تھی، چھپن صفحات پر مشتمل یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک زبردست علمی کاوش ہے،جو درحقیقت مصنف سید اقبال ظہیر کے ایجوکیشنل انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے لئے لکھے گئے مضمون کی توسیعی شکل ہے۔اس میں مادہ پرستوں کی تخلیق کائنات کی دلیلوں کو اسلام اور مذہبی نقطہ ءنظر کے حوالے سے پرکھا گیا ہے۔مَیں نے سوچا اس کتاب کی تلخیص کی جائے، لیکن پھر اسے بھاری پتھر سمجھ کر چھوڑ دیا۔شاید کوئی سائنس دان اس کتاب کے ترجمے اور تلخیص کا حق ادا کر سکے۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہگس بوسان کا غلغلہ بلند ہوا۔محترم جناب غلام جیلانی خان صاحب نے اس پر کچھ لکھا اور کچھ لکھنے والوں کو اکسایا، لیکن مَیں نے اس کا بھی کوئی اثر قبول نہیں کیا۔سوچا انہوں نے پاکستان میں رہنے والوں کو اکسایا ہے، ان میں مَیں شامل نہیں ہوں۔پھر اس پر واقعی کچھ لوگوں نے لکھا اور اس موضوع کو خاصا الجھا دیا، بلکہ پُراسرار بنا دیا، ایک آدھ نے تو کچھ ایسا تاثر بھی دیا،جیسے اس دریافت سے دنیا زیر و زبر ہونے والی ہو۔مضمون بے حد ادق ہے اور مجھ جیسے سائنس سے لابلد کے لئے اس پر قابو پانا مشکل ضرور ہے۔پھر بھی کوشش کروں گا کہ طول طویل سائنسی مباحث اور تشریحات کی بجائے سادہ سادہ انداز میں اس کے بارے میں کچھ حقائق کا بیان ہو سکے۔
ہگس بوسان (Bosonکو امریکی اسی انداز میں بولتے ہیں، کیونکہ دواو”O“ متصل آئیں تو پہلے والے کو واﺅ اور دوسرے کو الف کی طرح بولتے ہیں،جیسے Robotکو روباٹ، ہم اسے روبوٹ پڑھتے ہیں، اس لئے اگر کوئی بوسان کو بوسون بھی بولے تو غلط نہیں ہوگا)تو یہ ہگس بوسان اجزائی طبیعات والوں کے لئے وہ مہدی آخرالزماں ہے، جس کا انہیں مدت سے انتظار تھا۔یہ جزو برصغیر کے ایک طبیعات کے ماہر ایس این بوس کے نام سے معنون ہے۔ایس این بوس 1894ءمیں پیدا ہوئے اور 1941ءمیں پرلوک سدھار گئے،لیکن سب کو ہگس بوسان کے انتظار میں مبتلا کرکے چھوڑ گئے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ایک اور غلط فہمی کا ازالہ کرنا بھی ضروری ہے۔میڈیا نے اسے بار بار Gsd Particleکے نام سے بھی پکارا ہے۔یاد رہے کسی سائنس دان نے اسے یہ نام نہیں دیا، نہ ہی اس نام کا خدا، روحانیت یا عالم بالا سے کوئی تعلق ہے۔نوبل انعام یافتہ اور ایک تجربہ گاہ کے ڈائریکٹر امریطس نے اس جزو کے بارے میں ایک کتاب لکھی، جو اس کی دریافت کے سلسلے میں مشکلات اور اس پر آنے والے اخراجات کے حوالے سے تھی،کتاب کا نام تھا....The God damn Particle.... یعنی لعنتی جزو، انگریزی بولنے والے کسی چیز سے تنگ آکر اُس کے لئے یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں۔کتاب کے پبلشرنے سوچا کہ اس نام کی بجائے اگر کتاب کا نام صرف God Particleکردیا جائے تو اس سے کتاب کی فروخت پر اچھا اثر پڑے گا۔کتاب کے مصنف لیولیڈرمین Leo Ledermanنے بھی اس کو تسلیم کرلیا اور یوں یہ ذرئہ بے مقدار نام خدا سے منسوب ہوگیا۔
اب آیئے دیکھیں اس کی حقیقت کیا ہے۔اجزائی طبیعات یاParticle Physicsجو مادے کے اجزا اشعاع اور ان اجزاءکے تعامل وغیرہ سے بحث کرتی ہے۔مادے کے کئی اجزاءاور ان کے خواص وغیرہ کو دریافت کرچکی ہے۔ان ماہرین طبیعات نے ان اجزاءکے جو کمیت وزن اور کشش ثقل کے حوالے سے نام اور کوڈ دے رکھے ہیں، انہیں ایک ترتیب دینے کی کوشش کی ہے او رایک معیاری نمونہ یا سٹینڈرڈ ماڈل سٹرکچر بنایا ہے،جس کو بعض اوقات دائروں سے اور بعض اوقات بلاکس کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے۔یہ بلاکس اجزاءکی نمائندگی کرتے ہیں۔اس ماڈل میں ایک جزو کی کمی محسوس کی جارہی تھی،جسے ان ماہرین طبیعات نے بوسان جزو قرار دیا۔ان کا خیال تھا کہ اس جزو کے مل جانے کے بعد یہ ماڈل مکمل ہو جائے گا۔
تاہم یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ سٹینڈرڈ ماڈل بھی کوئی مثالی اور مکمل ماڈل نہیں ہے۔اس کے بارے میں بطور خاص کہا جاتا ہے کہ ”نیوٹرینو“ کی گردش کی درست پیمائش سے یہ عاری ہے۔یہ تاریک توانائی Dark Energyاور تاریک مادے Dark Matter کے بارے میں بھی کوئی رہنمائی فراہم نہیں کرتا۔یہ مفروضائی اجزاءپر بھی انحصار کرتا ہے۔گویا اس سٹینڈرڈ ماڈل میں کئی خامیاں اور”کمیاں“(کمی کی جمع) ہیں،جنہیں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔Short of being a complete theory of interaction۔

اب اصل اور اہم سوال یہ ہے کہ یہ نودریافت جزو واقعی ہگس بوسان ہے بھی یا نہیں؟ اس کے بارے میں ابھی تک کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی ،کیونکہ کیا یہ گیا ہے کہ اس کی خصوصیات یا Dataہگس بوسان سے مطابقت رکھتا ہے،لیکن کئی دوسرے اجزاءبھی اس ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والے ہو سکتے ہیں۔اب اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس کی فرسودگی Decayسے کیا چیز وجود میں آتی ہے،جب تک یہ معلوم نہیں ہوتا، اسے حتمی طورپر ہگس بوسان قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہ ہگس بوسان کا کوئی اور رشتے دار ہو سکتا ہے،لیکن اگر یہ ہگس بوسان نہ ہوا تو پھر ایک انقلاب متوقع ہے،کیونکہ سٹینڈرڈ ماڈل کے مطابق اس ماڈل میںفقط اسی جزو کی کمی تھی،اگریہ کوئی دوسرا Particleنکل آیا تو گویا سٹینڈرڈ ماڈل کا سارا سٹینڈرڈ غارت ہو جائے گا اور اب تک سائنس دان جو کچھ کہتے آئے ہیں یا سمجھتے آئے ،وہ سب غلط ثابت ہوگا،اگرچہ سٹینڈر ماڈل کوئی مکمل چیز نہیں، تاہم اس کی اس وجہ سے اہمیت ہے کہ اب تک سائنس دان اسے بنیاد مان کر تجربات کرتے آئے ہیں، اگر یہ غلط ہوگیا تو پھر اسے سٹینڈر ماڈل میں توسیع Extemtionکرنا پڑے گی اور تمام تر صورت حال بدل کر رہ جائے گی۔
ابھی تک تو صرف اتنی بات یقینی ہے کہ CERNکی تجربہ گار میں جو جزو دریافت ہوا ہے، وہ اپنے ڈیٹا کے حوالے سے یعنی کمیت وزن اور حجم وغیرہ کے لحاظ سے مفروضہ یا ”منتظر“ جزو ہگس بوسان سے ملتا جلتا ہے۔اب تک دریافت ہونے والے تمام اجزاءمیں یہ سب سے بھاری ہے، تاہم یہ ایک سائنسی دریافت ہے او راس کی حقیقت محض جذبات سے طے نہیں ہو سکتی ہے، اس کے لئے مزید تجربات ہوں گے ،جو یہ تعین کر سکیں گے کہ کیا یہ واقعی ہگس بوسان ہے۔
اب آیئے ایک اور حقیقت کی طرف،وجود خدا سے انکاری مادہ پرست مادے کے وجود اور اس کے نتیجے میں کائنات کی تخلیق کی جو کہانی سناتے ہیں،گویا وہ خود اپنے آپ میں بھی ادھوری ہے اور ابھی تک اس کی کئی کڑیاں مفقود ہیں۔اگرچہ جوحجت بازی وجود باری تعالیٰ کے بارے میں کی جاتی ہے کہ اچھا تو پھر خدا کہاں سے آیا،اسے کس نے پیدا کیا،یہی حجت بازی مادے کے بارے میں بھی کی جا سکتی ہے کہ مادہ عدم سے کیسے وجود میں آیا۔مادے کو کون وجود میں لایا، ہر بات حادثاتی طور پر کیسے واقع ہوتی رہی اور اس تندرست انداز میں۔انسانی جسم کا ہر خلیہ جاندار ہے، لیکن اپنے آپ سے بے خبر ہے،جب یہ خلئے کھربوں کی تعداد میں مل کر ایک جاندار یا انسان کو بنانے کا سبب بنتے ہیں تو ان خلیوں سے بننے والا انسان اپنے آپ کی آگہی رکھتا ہے کیوں؟کیا یہاں پر عبدالحمید عدم کا شعر صادق نہیں آتا۔
آگہی میں اک خلاءموجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے

( اشرف قریشی لاہور کے متعدد اخبارات سے وابستہ رہے ہیں۔ ہفت روزہ ”تکبیر کراچی“ کے نمائندے بھی رہے۔ اس وقت نیویارک میں مقیم ہیں اور ہفت روزہ ”ایشیا ٹربیون“ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں۔)

مزید :

کالم -