ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 11

Jul 30, 2017 | 02:52 PM

تحریر: پیر ابونعمان
دعوت دین حق کا جذبہ عزم و استقامت سے کامیاب ہوتا ہے۔ اس راہ میں انبیاء، اولیا، صالحین بہت آزمائے گئے ہیں بالخصوص اہل خانہ و خاندان کی جانب سے بھی انہیں مشکلات اور کڑے امتحانوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ جب اللہ کا کوئی فقیر تبلیغ و اشاعت دین کا فرض ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے قدم قدم پر آزمایا اور دھتکارا بھی جاتا ہے،حالات ایسے بھی پیدا ہوتے ہیں کہ اسے گھر والے بھی تسلیم نہیں کرتے۔حالانکہ اس راہ کا سب سے پہلا سبق اپنے اہل خانہ کو پڑھانا ہوتا ہے۔تبلیغی وتربیتی کام گھر،خاندان اور محلہ سے شروع ہو اور کامیاب بھی ہوجائے تو راستے میں بہت سی آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ مخدوم المشائخ حضرت پیر محمد رمضان رضوی سیفی کو بھی کڑی آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا، توکل اللہ اور مرشد کی نگاہ سے بے سروسامانی کے باوجود لاہور میں ہجرت فرمانے کے بعد بے پناہ نعمتوں سے نوازے گئے۔ ان کی اہلیہ نے ان کے اقدام کو احسن جانا اور ہر لمحہ صبر و شکر گزاری کے ساتھ استقامت دکھائی۔

علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 10 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
پیر صاحب کی اہلیہ محترمہ اللہ کے فضل اور نبی مکرم حضرت محمدﷺ کے عشق میں سوزوفیض کی نعمت سے مالا مال ہو گئیں۔ آج وہ اپنے شوہر کی غمخواری کے ساتھ تنظیمی امور اور تبلیغ دین میں مصروف ہیں۔ وہ فرماتی ہیں ’’ظاہر ہے جب ابھی میں باطنی تعلیم و تربیت سے ناواقف تھی تو ایک عام عورت کی طرح سوچتی تھی۔ پھر جب پیر صاحب نے مجھے اسرار و معارف سے آشنا کیا اور مجھے نہایت نرمی و محبت کے ساتھ دین کی باتیں سمجھائیں تو میں بتدریج تصوف کی طرف مائل ہو گئی۔ اور پھر مجھے یہ سمجھ آ گئی کہ انسان بالخصوص ایک عورت کا کیا کردار ہوتا ہے۔ وہ ماں، بیٹی، بیوی اور ہر رشتہ کے ساتھ کیسے اپنے حسن سلوک اور عقل و فہم کے معاملات نبھا سکتی ہے۔ ایک عورت جب تک ٹھیک نہیں ہو گی، اس کی ظاہری، خوبیوں کے ساتھ باطنی خوبیاں بیدار نہیں ہوں گی وہ اپنا کردار نہیں نبھا سکتی۔ عورت کا ظاہر کے ساتھ باطن سنوارنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ پیر صاحب نے مجھے ظاہر کے ساتھ باطن کی تعلیم دلوائی ہے اور آج میں الحمد اللہ لاہور میں بھی اوراپنے گاؤں میں بھی خواتین کی اعلٰی تربیت کاکام کر رہی ہوں۔ میری بیٹیاں قابل مثال ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی ہے اور اب جامعہ میں میرے ساتھ اپنی خدمت انجام دے رہی ہیں۔ یہ سب پیر صاحب اور ہمارے مرشد کریم حضرت پیر محمد عابد حسین سیفی کی تربیت و نگاہ کا فیض ہے ورنہ ہم کس قابل۔
میں اپنے شوہر کو اب شوہر سے زیادہ ایک قابل تعظیم رہبر کا درجہ دیتی ہوں۔ پیر صاحب نے اپنے ہر طرح کے فرائض ادا کئے ہیں اور کمال حسن و اخلاق ،اعلٰی ظرفی کے ساتھ زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کیا ہے۔ میں ان کی شخصیت سے متاثر ہوں اور ان کے کمالات کی بھی معترف ہوں۔ پیر صاحب سائلین کی جس طرح مدد فرماتے ہیں اس سے میرے جیسی خواتین کیلئے دنیا ہی جنت بن جاتی ہے۔ پیر صاحب اگر گھر میں نہ ہوں اور کسی دورے پر گئے ہوں تو ان کی عدم موجودگی میں ان کا روحانی تصرّف ہمارے لئے آسانیاں فراہم کر دیتا ہے۔ اللہ کریم نے میرے مرشد کے صدقے میرے پیر صاحب کو باطنی طور پر اپنی نعمتوں اور فیوض و برکات سے نواز رکھا ہے۔ آپ ہمہ وقت فلاح انسانیت اور دین کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔ خوش خلقی اورشائستگی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ دینی شعائر کی بہت پابندی کرتے ہیں۔ نماز سے غفلت کا سوچتے بھی نہیں۔ ایک بار میں اپنے میکے گئی ہوئی تھی اور کمرے میں کنڈی لگا کر سوئی ہوئی تھی۔ صبح نماز کیلئے میری آنکھ نہ کھل سکی۔ جب نماز کا وقت ہوا تو کمرے کا دروازے اچانک کھل گیا۔ میں پریشان ہو کر اٹھی کہ دروازہ کیسے کھل گیا ہے؟
اس لمحہ میں نے دیکھا کہ پیر صاحب تشریف لائے ہیں۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’آپ کب تشریف لائے۔ مجھے معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ۔۔۔۔۔۔ اور یہ دروازہ کس نے کھولا ہے؟ویسے بھی باہر توگرج چمک کیساتھ موسلادھار بارش ہورہی ہے لیکن آپ کے کپڑے بھی گیلے نہیں ہوئے۔یہ سب کیا ہے پیر صاحب‘‘
وہ مسکراتی ہوئی آنکھوں کیساتھ مجھے دیکھنے لگے۔پھردھیرے سے فرمایا ’’اللہ والیئے، جلدی جلدی اٹھیں۔ نماز کا وقت ہو چکا ہے۔ خود بھی وضو کریں اور مجھے بھی وضو کرائیں‘‘۔ پیر صاحب کی بات سنتے ہی میں جلدی سے اٹھی اور وضو کر کے جب صحن میں آئی تو پیر صاحب غائب ہو چکے تھے۔ میں کافی دیر تک حیران و پریشان رہی۔ پھر معاً خیال آیا کہ ہم باطن کے جس نظام سے منسلک ہو چکے ہیں وہاں نماز کی قضا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ کے پیرومرشد آپ کی نگرانی کرتے اور غفلت سے دوچار نہیں ہونے دیتے۔ پیر صاحب کے روحانی تصرف و کمالات کے کتنے ہی واقعات ہیں جو یہاں بیان کرنے بیٹھوں تو کتابیں رقم کرنا پڑیں گی۔ مجھے یاد ہے شروع شروع میں جب ابھی میں تصوف میں زیادہ مائل نہیں ہوئی تھی اور یہ میری تربیت کا ابتدائی زمانہ تھا۔ کسی گاؤں سے ایک مریض کو چارپائی پر ڈال کر لایا گیا۔ پیر صاحب نے اسے دم کیا تو اللہ کے فضل و کرم سے وہ بھلا چنگا ہو گیا۔ میں یہ سمجھتی ہوں اور پیر صاحب بھی یہ سمجھاتے ہیں کہ کرامات کوئی چیز نہیں ہوتیں۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جو اللہ تعالٰی کے احکام کو مانتا ہے اور اسکی رضا پر راضی رہتا ہے،پھر اللہ پاک اسکی دعا کو رد نہیں فرماتا۔جو اللہ سے خلوص سے محبت کرتے اور اس کی مانتے ہیں، اللہ بھی ان پر عنایات فرماتا ہے‘‘
حضرت پیر محمد رمضان رضوی سیفی کی اہلیہ سے گفتگو جاری تھی کہ پیر صاحب بولے ’’اصل بات نسبت اور تعلق کی ہے۔ مرشد کامل و مکمل ہو اور وہ شریعت پر گامزن ہو تو وہ ہرگز اپنی ذات کمالات کیلئے استعمال نہیں کرتا‘‘
اہلیہ فرماتی ہیں کہ حضرت پیر ابو نعمان رضوی سیفی ایک دوربیں اور صاحب ادراک شخصیت ہیں۔ وہ تعلیم کے ساتھ تربیت کے داعی ہیں اور اپنے اوپر یہ فرض قرار دیتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ ساتھ بچیوں کی تعلیم تو بہت ضروری ہے لیکن جوان اور پیرانہ سال مسلمانوں کو بھی جنس سے بالاتر ہو کر تعلیم دینا چاہئے۔ ایک مسلمان علم سے پیار کرتا ہے اور علم ہی وہ راستہ ہے جو سالک کو محبوب بنا دیتا ہے۔ اللہ عزوجل کے احکامات اور رسول کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب مسلمان خود بھی تعلیم و تربیت حاصل کریں اور اچھے خلق سے مخلوق خدا کی خدمت اور عبادات سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ پیر صاحب خواتین کی تعلیم و تربیت کے بہت زیادہ حق میں ہیں۔ وہ اکثر کہتے ہیں کہ انسان کی ترقی کا راستہ تعلیم و تربیت میں ہے لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ ہر مسلمان چہ جائیکہ وہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہویا بوڑھا۔۔۔ وہ علم حاصل کرے اور اس کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ ہر ذی حیثیت مسلمان اسلامی معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے۔ یہ صدقہ جاریہ ہے اور یہی انسانیت کو بچانے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
پیر صاحب بچیوں کی تعلیم کے حق میں اسقدر زیادہ دلائل دیتے اور سمجھاتے ہیں کہ اسلام کی ترقی میں خواتین کی تعلیم کا بہت کردار ہے۔ آپ مولویانہ سوچ نہیں رکھتے۔ یہی ایک صاحب تصوف و کمال بندے اور عام مولوی میں فرق ہے۔ اللہ کے برگزیدہ بندے ہمیشہ انسانوں کی فلاح کا سوچتے اور اللہ کے حقیقی احکامات سے روشناس کرا کے دلوں میں ایمان کی قوت بھر دیتے ہیں۔ پیر صاحب کا جامعہ کی بچیوں کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ اپنی اولاد سے زیادہ ہے۔ وہ بچیوں کے لیے تحائف لاتے، انہیں کھانے پلانے میں سخاوت کرتے ہیں۔ اگر کوئی بچی بیمار ہو جائے تو تڑپ اٹھتے ہیں۔ اور اس کی صحت کے لیے دعا و دوا کا اہتمام اس کی صحت کاملہ تک جاری رکھتے ہیں۔ آپ نرم طبیعت ہیں لیکن جامعہ کے طالب علموں کی حفاظت و نگہداشت کے لیے کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرتے۔ اپنی اولاد کو بھی حکم دے رکھا ہے کہ وہ طالب علموں کے خادم بن کر ان کی خدمت کیا کریں۔ پیر صاحب خود بھی رات دن ان بچوں کے خادم بن کر کام کرتے ہیں۔ میں اگر کبھی آرام کا کہہ دوں تو فرماتے ہیں ’’اللہ والیو مجھے راحت ہی راحت ہے۔ یہ بچے جس عظیم مقصد کے لیے میرے پاس آئے ہیں جب انہیں پڑھتا ہوا دیکھتا ہوں تو میری طبیعت خوش ہو جاتی ہے۔‘‘ پیر صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے بہت سے طالب علم مجھ سے زیادہ قابل ہیں۔اگر یہ مجھ سے چھوٹے ہیں تو انہوں نے گناہ اتنے نہیں کئے اگر یہ مجھ سے بڑے ہیں تو ان کی نیکیاں مجھ سے زیادہ ہیں۔(جاری ہے )

ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 12 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(اس داستان کے بارے میں اپنی رائے دیجئےsnch1968@gmail.com )

مزیدخبریں