سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی، چیف جسٹس اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا پہلی مرتبہ آمنا سامنا،ریکارڈ فراہمی کی درخواست مسترد، کارروائی کل تک ملتوی
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیخلاف ریفرنس پرسپریم جوڈیشل کونسل کی پہلی بار کھلے کمرے میں سماعت کا آغاز ہو گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ریفرنس سرکاری گھر کی تزئین و آرائش پر دائر کیا گیاتھا ، ابتدائی سماعت کے دوران ریکارڈ فراہمی کی جسٹس شوکت عزیزصدیقی کی درخواست مسترد کردی گئی اور جرح کل تک موخر کرتے ہوئے گواہ کا بیان ریکارڈ کا حصہ بنادیاگیا۔
مقامی نیوزویب سائٹ کے مطابق کونسل کے سربراہ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ تین دن میں مکمل کرنا ہے،کارروائی کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آج جوڈیشل کونسل میں میں کیا کاروائی ہونی ہے، کیا شواہد ریکارڈ ہونے ہیں ؟
جسٹس شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ آج جوڈیشل کونسل کی کاروائی میں شواہد ریکارڈ ہونے ہیں، موکل کی طرف سے دو درخواستیں دائر کی ہیں، ایک درخواست میں الزامات سے متعلق ریکارڈ لگایا گیا جس میں اعلی عدلیہ کے گھروں پر اٹھنے والے اخراجات کا گزشتہ سات سال کا ریکارڈ مانگا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو طول نہیں دینا چاہتے، جو الزامات ہیں ان کی روشنی میں جواب دیں، یہ ریکارڈ منگوانے کا کوئی مقصد نہیں ہے، کسی مخصوص جج کا بھی درخواست میں ذکر نہیں ، کسی جج کا ذکر ہوتا تو ریکارڈ منگواتے۔
وکیل نے کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر سرکاری گھر کی لاکھوں روپے تزئین و آرائش کرانے کا الزام ہے، دوسرے ججز کے سرکاری گھروں پر اٹھنے والے اخراجات کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل انکوائری کرتی ہے، انکوائری کا دائرہ اختیار اتنا وسیع نہیں ہوتا،سرکاری گھر کے تزئین و آرائش کے اخراجات کی لمٹ کو کونسل طے کرے گی، ٹرائل شروع ہو چکا ہے اور ہم شواہد کی روشنی میں فیصلہ کریں گے ۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے وکیل نے کہا کہ ہماری دوسری درخواست ریفرنس کے شکایت کنندگان سے متعلق ہے، شکایت کنندگان کے خلاف فوجداری اور عدالتی مقدمات کا ریکارڈ منگوایا جائے، یہ دیکھا جائے کہ جب یہ گھر شوکت عزیز صدیقی کو الاٹ ہوا اس وقت کیا حالت تھی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے شواہد ریکارڈ کر لیتے ہیں۔
پاکستان ٹوئنٹی فورنیوز کے مطابق اس دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے روسٹرم پر کھڑے اپنے وکیل حامد خان کے کان میں بات کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان اپنے موکل سے کہیں کہ اس طرح بات نہ کریں، ہم کب اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں۔جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے کہاکہ کم سے کم یہ تاثر ملنا چاہیے کہ میرے ساتھ برابری کا سلوک ہوا جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے کون سا غلط اختیارات کا استعمال کیا، کارروائی کیسے چلانی ہے، جوڈیشل کونسل کی صوابدید ہے اور وکیل حامد خان کو ہدایت کی کہ اپنے موکل کو کہیں ،عدالت کو مخاطب نہ کریں،جو بات کہنی ہے اپنے وکیل کے ذریعے کریں۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی درخواستوں کی مخالفت کی اور کہا کہ ریفرنس میں براہ راست الزامات معزز جج پر لگائے گئے،مانگے گئے ریکارڈ کا ریفرنس سے کوئی تعلق نہیںجس پر ان کے وکیل نے کہاکہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کے الزامات بے بنیاد ہیں، سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کرنا جرم نہیں۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس صدیقی کی ریکارڈ فراہمی کیلئے درخواستیں مسترد کر دیں اور گواہ کا بیان ریکارڈ کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر الزامات پر شواہد نہیں آئے تو کونسل کی کارروائی ختم کر دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل سے کئی محترم ججز بری ہوتے ہیں، ہم کسی کے لیے متعصب نہیں ہیں،آگے جا کر جواب دینا ہے، آگے جا کر ایسے منہ کالا نہیں کرنا۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ شواہد کی ریکارڈنگ کا عمل شروع کریں جس پر جسٹس صدیقی کے وکیل نے کہا کہ مجھے جرح کے لیے وقت دیں، کونسل اپنی کارروائی کل تک ملتوی کردے۔
چیف جسٹس نے کارروائی کل تک موخر کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہاکہ جرح آج نہیں کرتے،ہم گواہ کا بیان ریکارڈ کر لیتے ہیں، ہم تو چاہتے ہیں کسی کے خلاف کیس نہیں تو وہ بری ہو اور پھر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف گواہ علی انور گوپانگ کا بیان حلفی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا جس کے بعد کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔