’ہمارے پاس والدین 5 سال کے بچے لاتے ہیں جو انٹرنیٹ پر فحش مواد دیکھنے کی وجہ سے۔۔۔‘ خیراتی ادارے میں کام کرنے والی خاتون نے ایسا انکشاف کردیا کہ سن کر ہی والدین کو شرم آجائے
لندن(نیوز ڈیسک) آج کے دور میں انٹرنیٹ کا استعمال ایسا عام ہو چکا ہے کہ کمسن بچے بھی ہر وقت موبائل فون اور لیپ ٹاپ سے چمٹے دکھائی دیتے ہیں، مگر وہ انٹرنیٹ پر کرتے کیا ہیں؟ کیا وہ انٹرنیٹ کو محض معلومات کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں، دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتے ہیں، تفریح طبع، یا پھر کچھ اور؟ اس سوال پر کم ہی والدین توجہ دیتے ہیں، اور اسی عدم توجہی کا نتیجہ ہے کہ یہ کمسن بچے ایسے کاموں میں بھی ملوث ہو رہے ہیں کہ جن کا تصور کرنا ہی والدین کے لئے کسی ڈراﺅنے خواب سے کم نہیں۔
میل آن لائن کے مطابق برطانوی این جی او ”برنارڈز“ کے لئے کام کرنے والی ایک خاتون ورکر نے بتایا ہے کہ والدین ان کے ادارے میں ایسے کمسن بچوں کو نفسیاتی مدد کے لئے لے کر آتے ہیں جو انٹرنیٹ کی وجہ سے جنسی جرائم میں ملوث ہو رہے ہیں، اور ان میں سے بعض کی عمر صرف پانچ سال ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ پر فحش مواد دیکھنے والے یہ بچے اپنے ساتھی بچوں پر جنسی حملے کر رہے ہیں۔ چھوٹے بچے ایک دوسرے کے جنسی اعضاءکو چھونے سے لے کر ایک دوسرے کو فحش مواد دکھانے جیسے رویے میں ملوث پائے جا رہے ہیں جبکہ جو ذرا بڑے ہیں وہ اپنے ساتھی بچوں سے جنسی زیادتی کا ارتکاب بھی کر رہے ہیں ۔
بہت سے بچے ایسے ہیں جنہیں آن لائن لائیو بروڈ کاسٹ کے ذریعے جنسی افعال کی جانب مائل کیا جاتا ہے۔ یہ بچے اکثر اوقات اپنی برہنہ تصاویر اور ویڈیوز آن لائن پوسٹ کر دیتے ہیں جو مجرمانہ ذہنیت کے لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ بعض جرائم پیشہ گروہ بچوں کو جنسی نمائش کیلئے استعمال کرتے ہیںاور دنیا بھر میں اپنے گاہکوں کیلئے ان کی برہنہ ویڈیوز لائیو سٹریم کرتے ہیں۔
ادارے برنارڈز کی جانب سے برطانوی پارلیمان کی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کمیٹی کو بھی مطلع کیا گیا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کے جنسی اسحتصال کے کیسز میں سے تقریباً 75فیصد کا تعلق کسی نہ کسی طرح انٹرنیٹ سے بن رہا ہے۔ ان بچوں کی اکثریت جنسی جرائم کا نشانہ بنتی ہے لیکن ایسے بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو کم عمری میں ہی خود بھی جنسی مجرم بہن رہے ہیں۔