قومی اسمبلی کی کل نشستوں کے 51فیصد سے کم ووٹ لے کر بھی وزیراعظم منتخب ہوسکتا ہے ،مگرکیسے؟ایسا آئینی طریقہ کہ جسے جان کر پی ٹی آئی بھی خوش ہوجائے گی
لاہور(تجزیہ:سعید چودھری)عام انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے ،قومی اسمبلی میں تاحال کوئی سیاسی جماعت بھی کل نشستوں کے 51فیصد کے مساوی ارکان کی حمایت حاصل نہیں کرسکی ہے ،یہی صورتحال پنجاب میں ہے ،اگر وزیراعظم کے انتخاب تک یہی صورتحال رہتی ہے تو کیا اس سے کوئی آئینی بحران پیدا ہوجائے گا؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کل نشستوں کے 51فیصد کے برابر ووٹ نہ ملنے پر بھی کوئی رکن اسمبلی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ منتخب ہوسکتا ہے ؟
قومی اسمبلی کا ایوان مجموعی طور پر 342نشستوں پر مشتمل ہے ،آئین کے تحت 172ارکان کے ووٹ حاصل کرنے والا وزیراعظم منتخب ہوجائے گا،اگر وزیراعظم کے کسی امیدوار کو 172ارکان کی حمایت نہیں ملتی تو پھر کیا ہوگا؟آئین کے آرٹیکل 91میں واضح کردیا گیا ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کے21ویں دن قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوگا تاہم صدر مملکت چاہیں تو اس سے قبل بھی اجلاس طلب کرسکتے ہیں۔پہلے اجلاس کی صدارت جانے والی قومی اسمبلی کے سپیکر کریں گے ،وہ نومنتخب ارکان سے حلف لیں گے جس کے بعد سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہوگا۔سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے لئے کل نشستوں کے 51فیصد کے مساوی ووٹ لینے کی کوئی شرط آئین میں مقرر نہیں ہے جس کا مطلب ہے کہ حاضر ارکان کی اکثریت جس شخص کو ووٹ دے گی وہ سپیکر منتخب ہوجائے گا، جس کے فوراً بعد ایوان اپنے وزیراعظم کا انتخاب کرے گاجبکہ صوبائی اسمبلی اسی طور اپنے وزیراعلیٰ کو منتخب کرے گی۔
آئین کے آرٹیکل91(4)کے تحت وزیراعظم کو قومی اسمبلی کی کل رکنیت (342نشستیں)کے اکثریتی ووٹوں کے ذریعے منتخب کیا جائے گا،یعنی وزیراعظم کو کامیابی کے لئے172ووٹ درکار ہوں گے تاہم وزیراعظم کے انتخاب کے حوالے سے کچھ دیگر شرائط بھی آئین میں موجود ہیں ۔اگر وزارت عظمیٰ کا کوئی امیدوار کل رکنیت کے 51فیصد کی حمایت حاصل نہیں کرپاتا تو پھر دوسر ی مرتبہ رائے شماری کروائی جائے گی اور یہ رائے شماری پہلی رائے شماری میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے 2امیدواروں کے درمیان ہوگی۔دوسری رائے شماری میں جو امیدوار ایوان کے حاضر ارکان میں سے اکثریتی ووٹ حاصل کرے گااسے وزیراعظم قرار دے دیا جائے گا،اگر دوسری رائے شماری میں دونوں امیدواروں کے ووٹ برابر ہوجاتے ہیں تو پھر بار بار رائے شماری کروائی جائے گی جب تک کہ کوئی ایک امیدوار اکثریت حاصل نہ کرلے۔
آئین کے آرٹیکل 130میں یہی طریقہ کار وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لئے دیا گیا ہے۔اب اگر پاکستان تحریک انصاف یا کوئی دوسری جماعت 172ارکان کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے اور وزیراعظم کے انتخاب کے لئے پہلی رائے شماری میں اسے اور اس کی مدمقابل جماعت کے امیدوار کو 172ووٹ نہیں ملتے تو دوبارہ رائے شماری ہوگی اورایوان میں موجود حاضر ارکان کی اکثریت سے نیا وزیراعظم منتخب ہوجائے گا۔آئین کے آرٹیکل191اور130کے پیچھے مقننہ کی یہ منشا نظر آتی ہے کہ وزیراعظم کے انتخاب پر کوئی ڈیڈ لاک یا آئینی بحران پیدا نہ ہو۔
اب ایک اور سوال زیربحث ہے کہ کیا مخصوص نشست پر منتخب ہونے والے کسی رکن اسمبلی کو وزیراعظم یا وزیراعلیٰ منتخب کیا جاسکتا ہے ؟ اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل130میں کوئی پابندی عائد نہیں ہے ،اس آرٹیکل کے تحت صوبائی اسمبلی کے ارکان اپنے میں سے کسی کو بھی وزیراعلیٰ منتخب کرسکتے ہیں تاہم وزیراعظم کے انتخاب کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 91(3)کے تحت یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ قومی اسمبلی کے ارکان اپنے میں سے کسی ایک مسلم رکن کو وزیراعظم منتخب کریں گے ،آئین کے اس آرٹیکل کے تحت مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین تو وزیراعظم بن سکتی ہیں تاہم اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے ارکان وزیراعظم منتخب نہیں ہوسکتے۔
آئین کے تحت غیر مسلم وزیراعظم نہیں بن سکتا تاہم وزیراعلیٰ کے لئے مذہب کی کوئی شرط نہیں ہے۔اس لئے مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والے تمام ارکان وزارت اعلیٰ کے الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں اور واضح اکثریت لے کر یہ عہدہ بھی سنبھال سکتے ہیں جبکہ وزارت عظمیٰ کے الیکشن میں مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والی خواتین تو حصہ لے سکتی ہیں لیکن غیر اس کے لئے نااہل ہوں گے تاہم پارلیمانی روایت یہی ہے کہ عام انتخابات میں جیتنے والے کو ہی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ منتخب کیا جاتا ہے۔اگر اہلیت کی شرائط پر پورا اترنے والے مخصوص نشست کے حامل رکن اسمبلی کو وزیراعظم یا وزیراعلیٰ منتخب کیا جاتا ہے تو یہ پارلیمانی روایات کے منافی ہوگاتاہم اس بابت کوئی آئینی قدغن موجود نہیں ہے۔