پی ٹی آئی حکومت کے دو سال
حکومت نے دو سال میں ایف بی آر میں اصلاحات لانے کی بھرپور کوشش کی ہے، چار مرتبہ ایف بی آر کے چیئرمین تبدیل کئے، خود وزیر اعظم عمران خان نے ایک مرحلے پر کہا تھا کہ اگر ایف بی آر نے کارکردگی کا مظاہرہ نہ کیا تو وہ ایک نئی ایف بی آر کھڑی کردیں گے۔ ٹیکس نظام میں بہتری لانے کے لئے گزشتہ دوسالوں میں کی جانے والی یہ ایک سنجیدہ کوشش تھی اور اس کے مثبت نتائج بھی متوقع تھے مگر مارچ کے مہینے سے پاکستان میں کرونا وائرس کے وار نے ساری کوششوں پر پانی پھیردیا، اس کے باوجود گزشتہ سال کے برابر بلکہ کچھ اوپر ٹیکس جمع ہونے کا مطلب یہی ہے کہ ہماری ٹیکس مشینری میں ٹیکس جمع کرنے کی بے پناہ سکت موجود ہے جس کو بروئے کار لاکر آنے والے سالوں میں ٹیکس کلیکشن میں خاطرخواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان نے خطے میں امن کو یقینی بنانے کے لئے گزشتہ دو برسوں میں بہت سے اقدامات کئے ہیں، خاص طور پر افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے ضمن میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور پاکستان کے اندر ان کے حامی حلقوں کو نیوٹرل کرنے کے حوالے سے حکومت کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر پر بھی وزیر اعظم عمران خان نے جس انداز میں اقوام متحدہ میں پاکستان کا مقدمہ پیش کیا اس کے سبب اقوام متحدہ کو ایسے اقدامات لینا پڑے ہیں جو بھارتی عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن کر حائل ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں چین کی جانب سے ریاست پاکستان سے اپنی کمٹمنٹ کے اظہار کے طور پر دو مرتبہ سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاسوں کا انعقاد، لداخ کے حوالے سے بھارت کو منہ توڑ جواب اور گلگت بلتستان تک سی پیک منصوبوں کی وسعت سے بھی بھارت کو منہ کی کھانا پڑی ہے اور عالمی بساط پر اس کی چالیں کمزور پڑی ہیں۔
سی پیک اتھارٹی کے قیام کے بعد اس منصوبے کے دوبارہ سے فعال ہوجانے کو بھی گزشتہ دو برسوں میں اس حکومت کی بڑی کامیابی مانا جائے گا۔ خاص طور پر اس حوالے سے امریکی دباؤ کو جس طرح حکومت نے ایک کارگر حکمت عملی سے کم کیا ہے اور جس طرح اس زہر کے اثر سے اس منصوبے کو متاثر ہونے سے بچایا ہے جو زہر امریکی سفارت کار ایلس ویلز گھول رہی تھیں، ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ آئندہ آنے والے برسوں میں اس حوالے سے صورت حال میں نمایاں بہتری کے آثار پیدا ہوں گے اور پاکستان تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرے گا۔
کرونا وائرس کی وباکا پھوٹنا ایک بڑا بحران تھا، حکومت کے لئے زندگی اور روزگار کو بچانا ایک بڑا چیلنج تھا، اس حوالے سے ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے جس یگانگت کا مظاہرہ کیا اور ایک مشترکہ حکمت عملی سے جس طرح اس مسئلے کا حل کیا ہے، وہ اب تک اس حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔ سمارٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے جہاں کرونا کی وباء پر قابو پایا گیا وہیں پر دیہاڑی دار طبقے کے لئے روزگار کے مواقع کو جاری رکھنے کے اسباب بھی یقینی بنائے گئے۔ اس ضمن میں وزیر اعظم عمران خان نے بار بار عوام سے خطاب کرکے جس انداز سے انہیں اعتماد لیا یہ اسی کا ثمر ہے کہ اپوزیشن کو کرونا وائرس کی وباء پر زیادہ سیاست چمکانے کا موقع نہیں ملا۔ خاص طورپر سندھ اور وفاق کے مابین چپقلش بھی ایک حد کے اندر رہی اور تمام تر اختلافات کے باوجود دونوں جانب کی سیاسی قیادت ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہی۔ یقینی طور پر اس ضمن میں عسکری قیادت نے بھی مثبت کردار ادا کرتے ہوئے دونوں جانب سے ہونے والی زیادتیوں کو ختم کروانے میں ایک کارگر کردار ادا کیا ہوگا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج وفاق اور سندھ کے مابین کسی اور معاملے پر اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے حوالے سے دونوں اطراف ایک پیج پر ہیں۔
یہ بات البتہ ماننا پڑے گی کہ حکومت مہنگائی، منافع خوری اور مختلف کاروباری مافیاز سے نپٹنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہے۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ ملک میں امن و امان، خاص طور پر دہشت گردی کے حوالے سے صورت حال پہلے سے ہی قابو میں ہے، وگرنہ اب تک عوام کی نظر میں اس حکومت کا ڈبہ گول ہو چکا ہوتا۔ مہنگائی، منافع خوری اور کاروباری مافیاز پر اگر سندھ حکومت سیاسی ترجیحات کی بنا پر ہاتھ نہیں ڈال رہی تو پنجاب حکومت گورننس کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ بیوروکریسی کو اپنی پالیسیوں کے مطابق چلانا پاکستان تحریک انصاف کے لئے گزشتہ دو سالوں میں ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ اس حوالے سے مقتدر حلقے بھی بیوروکریسی کو نکیل نہیں ڈال سکے ہیں۔ چنانچہ آئندہ آنے والے دنوں، مہینوں اور سالوں میں گورننس پی ٹی آئی حکومت کے لئے چیلنج بنی رہے گی جس کا فائدہ اٹھا کر اپوزیش کسی بھی وقت حشر بپا کر سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کب تک اس قیامت کو ٹال سکتی ہے!