پگڑی سنبھال جٹا! مسلم لیگ (ن) کے بعد ہدف پیپلزپارٹی!

 پگڑی سنبھال جٹا! مسلم لیگ (ن) کے بعد ہدف پیپلزپارٹی!
 پگڑی سنبھال جٹا! مسلم لیگ (ن) کے بعد ہدف پیپلزپارٹی!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیراعظم نے سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم کو اپنا معاون خصوصی برائے سندھ مقرر کر دیا ہے۔ ارباب پیپلزپارٹی کے زخم خوردہ ہیں کہ ان کو سندھ اسمبلی کی رکنیت نہ مل سکی اور وہ ہار گئے۔ وہ جی ڈی اے سے منسلک تھے۔ گزشتہ ماہ اسے چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ ارباب غلام رحیم پیپلزپارٹی سے ہارے ضرور، لیکن سندھ کی سیاست میں ان کا عمل دخل موجود ہے۔ پیپلزپارٹی کو ان کا وہ دور اچھی طرح یاد ہے، جب انہیں وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا، اب وہ خود کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے ان کو یہ ہدف دیا ہے کہ سندھ (خصوصاً دیہی سندھ) میں تحریک انصاف کو منظم کیا جائے، میں نے گزشتہ روز کے کالم میں بتایا تھا کہ شیخ رشید اور فواد چودھری کے مطابق اب سندھ میں بھی پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں رہے گی یا آئندہ انتخابات میں اسے شکست ہو گی۔ اس کے علاوہ ان حلقوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ آزادکشمیر انتخابات کے بعد وزیراعظم سندھ کا دورہ کریں گے۔ جلسوں سے خطاب کے علاوہ کئی سیاسی شخصیات ان سے مل کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کریں گی، اب ارباب غلام رحیم کی تقرری کا یہ مطلب ہے کہ وہ اس سے پہلے راہ ہموار کرکے وزیراعظم کے دورے کا پروگرام مرتب کرائیں گے۔

کراچی اور سندھ کے دوسرے بڑے شہروں حیدرآباد، سکھر اور میرپور وغیرہ میں پیپلزپارٹی کے مدمقابل ایم کیو ایم ہے تو اب پاک سرزمین پارٹی کے مصطفےٰ کمال نے ایک بڑی بڑھک لگائی ہے، وہ کہتے ہیں ”ہم نے را کا مقابلہ کیا ہے تو پیپلزپارٹی کیا چیز ہے“ اس سے پہلے ایم کیو ایم تحریک کی دھمکی دے چکی اور کراچی میں تحریک انصاف مسلسل احتجاجی سیاست کر رہی ہے، سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی واضح اکثریت اور برتری کے باوجود ہنگامہ آرائی ہوتی ہے اور اب تو یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ محاذ آرائی میں شدت آئے گی، پیپلزپارٹی کے ارباب اختیار بچے نہیں ہیں، ان کو واضح طور پر علم ہے کہ یہ سب ”منصوبہ سازوں“ کی منشا یا حمایت کے بغیر ممکن نہیں، اس لئے اگر ”بڑوں“ کا یہ خیال ہے کہ بلی دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لی جائیں تو خطرہ ٹل جاتا ہے، ایسا کبھی ہوا نہیں، اب باری ان کی ہے، اس لئے ان کو اپنے لئے عوامی حمائت کی زیادہ ضرورت ہے اور ان کو اسے حاصل کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ تنظیم سازی اور عوامی مسائل کی طرف زیادہ توجہ دینا ہوگی۔ اس وقت سندھ حکومت کو کورونا کے پھیلاؤ اور اس سے پیدا معاشی مشکلات کے علاوہ پابندیوں کے خلاف عوامی ردعمل کا بھی سامنا ہے۔ اس لئے اب ہنگامی سیاست ترک کرکے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔


تحریک انصاف کو گزشتہ روز بہت ہی حیرت انگیز اور زبردست کامیابی ملی ہے، سیالکوٹ ضلع کے حالیہ ضمنی انتخاب میں اس نے مسلم لیگ (ن) کی ناقابل شکست نشست چھین لی اور ان کا امیدوار احسن سلیم بریار، اختر وریو (مرحوم) کے بیٹے طارق سبحانی کو  ہرانے میں کامیاب ہو گیا۔ پی پی 38 کا یہ حلقہ وریو خاندان کاوراثتی ہے اور یہ ناقابل یقین لگتا ہے کہ یہاں سے وریو خاندان ہی کے فرد کو شکست ہو گئی کہ وریو خاندان اس پورے علاقے (معہ قومی اسمبلی) میں ناقابل شکست چلا آ رہا تھا اور ان کا اثر و رسوخ اور عوام سے مسلسل رابطہ ان کی کامیابی کا ضامن رہا، اس حلقے کی انتخابی مہم کے دوران ہم نے اپنے بھائی رانا شفیق پسروری سے دریافت کیا تو ان کا خیال تھا کہ وریو جیتیں گے کہ ان کی ڈیرہ داری کا تسلسل چلا آ رہا ہے اور عوامی رابطہ مضبوط ہے لیکن نتیجہ کچھ اور نکلا، یہ زیادہ خود اعتمادی کی وجہ ہے یا پھر تحریک انصاف کے موقف کی جیت ہے۔

ان کے مطابق تو مریم نوازشریف اپنے والد کے بیانیے کو لے کر چل رہی تھیں اور یہ عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ اس میں کتنی حقیقت ہے یہ تو بعد میں واضح ہو گی، لیکن ایک بات سب پر ظاہر ہے کہ حالیہ انتخابی دنگل میں مریم نواز شریف کو سولو فلائٹ کا موقع دیا گیا اور مفاہمت کے شہنشاہ محمد شہباز شریف معہ اپنے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف الگ رہے۔ آزادکشمیر کے انتخابات اور اب حلقہ پی پی 38 کے ضمنی انتخاب کے نتیجے نے بقول شخصے اس امر پر مہر لگا دی ہے کہ چچا اور بھتیجی کا بیانیہ متفقہ نہیں، جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ قائد مسلم لیگ (ن) محمد نوازشریف کا بیانیہ واضح طور پر چھوٹے بھائی کا نہیں، یا ان کو اس سے اتفاق نہیں، بہرحال اب تک کی صورت حال میں یہ بات خوش آئند تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے منتخب یا تنظیمی حضرات کے درمیان عدم اتفاق کے باوجود کوئی گڑبڑ نہیں ہوئی تھی۔ محمد شہباز شریف کے موقف کے حامی خاموش ضرور ہیں، لیکن ان کی وفاداریوں میں فرق نہیں آیا، تاہم آئندہ کیا ہوگا اس کے لئے خود محمد نوازشڑیف کو بھی سوچنا ہوگا۔


آج کے سیاسی منظرنامے میں تحریک انصاف کے حلقے بہت خوش ہیں کہ اب ان کا سفر کامرانی کی طرف ہے۔ ان کے بقول اب ان کو مسلم لیگ (ن) سے کوئی خطرہ اور خدشہ نہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو تو وہ پہلے ہی درخور اعتنا نہیں جانتے، اس لئے اب ان کا مقابلہ پیپلزپارٹی سے ہے کہ پیپلزپارٹی نے کشمیر میں بہتر کارکردگی دکھائی، حالانکہ اس میں خود تحریک انصاف کے وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کا بھی کچھ حصہ ہے، جنہوں نے بھٹو پر غداری کا الزام لگا کر کشمیریوں کو غصہ دلایا کہ تنازعہ کشمیر کے مسئلہ پر کشمیری بھٹو کی جدوجہد اور کارکردگی سے تاحال متاثر ہیں۔ بہرحال پنجاب میں تو ان کی حالت پتلی ہے، یہاں سے صوبائی اسمبلی میں ان کی نمائندگی بھی جنوبی پنجاب ہی کی مرہون منت ہے اور اب جو رویہ تنظیمی طور پر اختیار کیا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید پیپلزپارٹی پنجاب کو مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے حوالے کرکے سندھ تک محدود رہنے کا فیصلہ خود کر چکی یا وعدے کئے ہوئے ہیں۔ ورنہ وسطی پنجاب کی تنظیم مکمل کرنے میں کیا امرمانع ہے، یہاں مخدوم فیصل صالح حیات، قاسم ضیاء، نوید چودھری اور اورنگ زیب برکی جیسے حضرات موجود ہیں اور ان میں سے کوئی بھی وسطی پنجاب کا صدر ہو سکتا ہے، یہ کون سا مشکل کام ہے اور کیا آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو لاہور کے سابق صدر میاں مصباح الرحمن کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ پھر سے یہ ذمہ داری سنبھال لیں۔ اگر اب بھی تاخیر ہوئی تو بقول جیالوں کے، اس کا مطلب یہ ہو گا کہ قیادت خود نہیں چاہتی اور شاید یہاں ”سرنڈر“  کر دیا گیا۔

مزید :

رائے -کالم -