مسعود اشعر کی رحلت…… ایک عہد تمام ہوا

مسعود اشعر کی رحلت…… ایک عہد تمام ہوا
مسعود اشعر کی رحلت…… ایک عہد تمام ہوا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مسعود اشعر 3دسمبر1931ء کو انڈیا کے شہر رام پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی عالم فاضل آدمی تھے، ان کی ملتان میں رحلت ہوئی اور حسن پروانہ کالونی کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔ملتان میں آمد سے پہلے مسعود اشعر روزنامہ ”زمیندار سدھار“ اور روزنامہ ”احسان“ لاہور میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ وہاں سے وہ روزنامہ ”امروز“ میں سب ایڈیٹر ہو گئے۔ ملتان میں ان دنوں نظیر لدھیانوی اقامتی ایڈیٹر تھے۔1957ء میں مسعود اشعر نے ان کی جگہ سنبھالی۔ان کی اہلیہ کے ساتھ رفاقت 65برس رہی وہ لاہور میں فوت ہوئیں۔ مسعود اشعر نے ملتان میں قیام کے دوران خواتین میں حقوق کی آگاہی کے لئے کام کیا۔ نوشابہ نرگس پہلی لیڈی رپورٹر مقرر ہوئیں۔ مزدوروں، کسانوں، صنعتی کارکنوں کے حقوق کو ایک تحریک کی شکل دینے  کے لئے انہوں نے ولی محمد واجد، حشمت وفا، شبیر حسن اختر، رشید ارشد سلیمی، سعید صدیقی، حنیف چودھری، ابن حنیف اور ممتاز شفیع سمیت پورے ادارتی عملے کی رہنمائی کی۔ انہوں نے اپنے ملتان میں قیام کے دوران نئے لکھنے والوں کی خوب حوصلہ افزائی کی اور ملتان کے اہل علم حضرات کو لکھنے کی طرف راغب کیا۔ پروفیسر فرخ درانی نے کالم شروع کئے۔ اے کے درانی جو ہفت روزہ ”سیر و سفر“ کے مالک تھے۔ لکھنا شروع کیا۔ اصغر ندیم سید ”محفلیں“ کے نام سے کالم لکھا کرتے تھے۔

صلاح الدین حیدر کا آنا جانا رہتا تھا۔ سید سلطان احمد، اقبال ساغر صدیقی، اعلیٰ پائے کے عالم فاضل انسان تھے ان کی نگرانی میں یہ سارے کام انجام پاتے تھے۔اخبار میں طالبعلموں کی دنیا کے نام سے ایک سلسلہ شروع ہوا۔ کالج اور تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور طلبا اپنے کالم لاتے تھے جو امروز میں اشاعت پذیر ہوتے تھے۔ صرف یہی نہیں شعراء اور ادیب بھی اپنے اپنے کالموں میں جگہ حاصل کرتے تھے۔ مسعود اشعر ذاتی طور پر شریف النفس انسان تھے۔ اعلیٰ ظرف کے مالک تھے۔ دل و دماغ میں پاکیزگی تھی، جو سچ لکھتے وہ بولتے۔ دل میں کوئی بات نہیں رکھتے تھے۔انہوں نے پوری زندگی اخبار میں اپنا بیان، اپنی تصویر یا کسی تقریب میں اپنی موجودگی کو اخبار میں شامل اشاعت نہیں ہونے دیا۔ صرف پرنٹ لائن پر ہی ان کا نام کافی تھا۔ رات کو بارہ بجے دفتر تشریف لاتے تھے۔ کاپی دیکھتے تھے۔ ایک خبر پر ان کی نظر جا ٹکی وہ خبر انہوں نے اُکھاڑ دی، نیوز ایڈیٹر، رپورٹر کو طلب کیا اور پوچھا کہ کیا یہ اخبار میرے لئے چھپتا ہے۔کمال کے اُستاد، انشائیہ پرداز، مترجم تھے۔

کبھی کسی سے تحفہ نہیں لیا۔ یہ ان دِنوں کی بات ہے جب اے سی کا چلن شہر میں نہیں تھا۔ مسعود اشعر کا کمرہ شہر کے عمائدین، پڑھے لکھے لوگوں، دور قریب سے آنے والے شعراء سے سجا رہتا۔ بہاول پور سے شاعر ظہورنظر تو باقاعدگی سے آتے تھے۔سیاسی لوگوں میں خورشید گردیزی، عقیل صدیقی، عطاء اللہ ملک، کرامت گردیزی، قسور گردیزی ایسے کئی نیک نام لوگ ان کے رابطے میں رہے۔وہ اپنا ایک سیاسی نقطہ نظر رکھتے تھے، لیکن کسی کو اپنا نظریہ ان پر تھوپنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ دائیں اور بائیں بازو کی تفریق ان کے ملاقاتیوں میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ خواجہ خدابخش، شیخ یعقوب، شیخ محمد رشیداور ایسے ہی بائیں بازو کے جید لوگوں کے ساتھ رابطہ رہا اور سب کے ساتھ یکساں پذیرائی ہوتی رہی۔ 


 ایک واقعہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ امروز کے سب ایڈیٹر مظہر عارف شروع دن سے سرائیکسٹ تھے،غضنفر مہدی، خان رضوانی، وزیر خان غلزئی،میر چاکر خان رند بلوچ، ریاض انور ایڈووکیٹ اور ایسے ہی کئی نیک ناموں سے رابطے میں تھے۔ ایک روز وہ سرائیکی کے بارے میں خبر لائے۔ مسعود اشعر صاحب کے سامنے رکھ دی۔ باتوں میں تلخی ہوئی، بات بڑھ گئی اور خبر نہ لگی۔ مظہر عارف ناراض ہو کر چلے گئے۔ پیپلز پارٹی کا دور تھا۔پیر علی محمد راشدی سے اس گروپ کے رابطے تھے۔ مظہر عارف کی چل گئی وہ این پی ٹی سے اپنا تقرر نامہ لے کر دفتر آن پہنچے اور سوچتے تھے کہ مسعود اشعر سے میری تلخی ہوئی ہے وہ کیسے رکھیں گے۔ انہیں تاثر ملا کہ مسعود اشعر سرائیکی دشمن ہے۔ وہ لیٹر لے کر مسعود اشعر کے کمرے میں گئے اور لیٹر ان کے آگے سرکا دیا۔ مسعود اشعر مسکرائے اور بولے پھر آ گئے ہو۔ لیٹر دیکھا اور پھر مظہر عارف کو اوپر نیوز روم بھیج دیا۔ اگلے لمحے مظہر عارف سب ایڈیٹر کی سیٹ پر متمکن تھے اور مظہر عارف حیران کہ یہ کیسا انسان ہے کہ پچھلے دِنوں میری اس سے تلخ کلامی ہوئی اور اس نے مجھے جلدی قبول بھی کر لیا اور ان کی مسعود اشعر کے ساتھ ایسی بنی کہ آخری دم تک مظہر عارف مسعود اشعر کے ساتھ رابطے میں رہے۔

ایک بار مخالفوں نے زور لگایا اور مظہر عارف کی تقرری منسوخ کرا دی۔ مسعود اشعر نے مظہر عارف کو بلایا اور کہا کہ اپنے رابطے مضبوط کر لو تمہارے پیچھے لوگ پڑ گئے ہیں۔وہ بحالی کا لیٹر دوبارہ لے آئے اور مسعود اشعر کو دیا تو مسعود اشعر صاحب نے این پی ٹی کا وہ لیٹر اٹھا کر مظہر عارف کو دکھایا، جس میں مظہر عارف کو برطرف کر دیا گیا تھا۔ مظہر عارف حیران ہوئے کہ مجھے برطرف کر دیا گیا ہے اور ایڈیٹر نے یہ تک نہیں بتایا اور دوبارہ بحالی تک وہیں تعینات رہے۔مسعود اشعر جب چلتے تھے استقامت اور پورے اعتماد کے ساتھ زمین پر قدم رکھتے تھے۔ نہ تیز چلتے تھے اور نہ آ ہستہ چلتے تھے۔ نہ جھک کر چلتے تھے اورنہ اکڑ کر چلتے تھے۔ مسعود اشعر کا ستواں ناک، کشادہ پیشانی، کھلی چمکتی آنکھیں، رنگ ایسا کہ دودھ میں روح افزا ملا دی گئی ہو، بازوؤں کی ہڈی طویل تھی، سینہ اور چہرہ چوڑا تھا، ہڈیاں مضبوط تھیں۔ مسکراہٹ ہمہ وقت ان کے چہرے پر رقصاں رہتی تھی۔ لوگوں کو احترام دیتے، جس کی وجہ سے لوگ بچھ بچھ جاتے تھے۔ چھوٹے بڑے عزت سے پیش آتے۔ملازم دل و جان سے ان پر فدا تھے۔انہوں نے ملتان میں قیام کے دوران صحافت کو نئے رنگ و روپ سے آراستہ کیا۔ بے زبانوں کو زبان عطا کی،دقیانوسی خیالات اور روایات کی بیخ کنی کی۔ غیر ضروری گفتگو سے گریزاں رہے۔

مزید :

رائے -کالم -