آزاد کشمیر کے بعد؟

 آزاد کشمیر کے بعد؟
 آزاد کشمیر کے بعد؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مرد مفاہمت شہباز شریف نے پی ٹی آئی حکومت بننے کے بعد اسکی مسلسل ناقص کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا ہمارا کام آسان ہو رہا ہے۔ اگلے عام  انتخابات جب کبھی ہوں گے مسلم لیگ ن زیادہ بڑی  اکثریت سے جیتے گی۔صدر مسلم لیگ ن کے اس بیان پر انہی سطور میں سوال کیا گیا تھا کہ اگلے عام انتخابات کیا سویڈن کے الیکشن کمیشن نے کرانے ہیں؟ آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات کے بعد ایک بار پھر سے واضح ہوگیا کہ اصل چیز ووٹوں کی تعداد نہیں بلکہ وہ مرکز ہے جہاں سے آپ نے سیٹیں جیتنے کے لئے اجازت حاصل کرنی ہے۔ آسان  بات تو یہ ہے کہ صرف یہ کہہ کر جان چھڑا لی جائے کہ جس کی حکومت وفاق میں ہوتی ہے وہی آزاد کشمیر میں حکومت بناتا ہے مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ اسی سال جنوری میں  لیگی رہنما رانا ثنا اللہ سے غیر رسمی گپ شپ کے دوران آزاد کشمیر کے انتخابات کی بات پر بعض دوسرے افراد کی موجودگی میں بلا جھجک بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ نے کافی پہلے سے اپنا کام شروع کررکھا ہے۔ رانا ثنا اللہ نے نہ صرف اس افسر کا نام بتایا جسے یہ مشن سونپا گیا تھا بلکہ یہ بھی بتایا کہ اگلا وزیر اعظم کون ہو گا۔ٹکٹ غلط تقسیم ہونے کا بالواسطہ اعتراف تو وزیراعظم نے خود کیا جب ایک جلسے میں کہا کہ ٹکٹوں کی تقسیم کرتے ہوئے اگر غلط امیدوار سامنے آگئے ہیں تب بھی ووٹ پی ٹی آئی کو ہی دئیے جائیں۔ آزاد کشمیر کے الیکشن کی مہم سے لے کر ووٹنگ پھر نتائج کے اجرا تک کسی بھی مرحلے پر  پردہ رکھنے کی رسمی کارروائی پوری کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔

پی ٹی آئی کے جھنڈوں سے سجی ایک گاڑی میں سرکاری اہلکار گھومتے نظر آئے۔ تصویر وائرل ہوگئی۔ مریم نواز نے ٹویٹر پر مذکورہ تصویر کے ساتھ سوالیہ نشان لگا کر سوال کیا مگر کسی نے نوٹس لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ پی ٹی آئی کے امیدوار اپنے جلسوں میں سٹیج پر کھڑے ہوکر کہتے رہے کہ ادارے صرف ہمارا ساتھ ہی نہیں دے رہے بلکہ ہماری کامیابی کا انتظام مکمل کرکے ہمیں پیشگی اطلاع بھی دے چکے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کے ارب پتی امیدوار نے جماعت اسلامی کے امیدوار کو اپنے حق میں بٹھانے کی تقریب میں بتایا کہ عبدالرشید ترابی صاحب کو کس نے دستبردار کرایا ہے۔انتخابی عمل کو شفاف بنانے کا ذمہ دار الیکشن کمیشن اسی روز فوت ہوگیا تھا جب وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے علاقہ چھوڑنے کا حکم ہوا میں اُڑا دیا۔ الیکشن والے دن ایک ویڈیو وائرل ہوئی کہ ووٹنگ کا سامان تحریک انصاف کے امیدوار کے حامی اپنی گاڑی پر پولنگ سٹیشن پہنچا رہے تھے۔ خیر انتظامات مکمل تھے کہ کس نے جیتنا ہے۔ مریم کی جارحانہ پالیسی کے جوابی فری سٹائل حملوں کے لئے نہ صرف علی امین گنڈا پور بلکہ خود وزیر اعظم عمران خان کو بھی آگے آنا پڑا۔ ایک موقع پر جمائما بھی بیچ میں کود پڑیں اور حیران کن طور پر یہ الزام لگایا کہ صیہونی مخالف مظاہروں پر انہیں پاکستان چھوڑنا پڑا۔ یہ سراسر حقائق کے منافی بات ہے۔ ایک تو ایسے مظاہرے کبھی ہوئے ہی نہیں۔ دوسرے یہ کہ جب جمائما نے پاکستان چھوڑا تو اس وقت عمران خان کے دوست جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی۔

مریم نواز کی تقریریں اتنی جارحانہ اور جلسے اتنے بڑے تھے کہ الیکشن میں شکست دینے کے باوجود شیخ رشید جیسے ترجمان کو یہ کہنا پڑا کہ بڑے جلسے کرکے الیکشن نہیں جیتا جاسکتا۔ ساتھ ہی وہ یہ دھمکیاں بھی دیتے رہے کہ مریم نواز کو سخت باتیں کرنے پر نقصان اٹھانا پڑے گا۔اسی دوران لندن میں افغان حکومت کے ایک وفد نے سرکاری طور پر سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کرکے تبادلہ خیال کیا۔ افغان حکومت نے ٹویٹر پر ملاقات کی خبر اور تصویر جاری کی۔ یہ معاملہ حکومت اور اس کے سرپرستوں کے لئے کسی دھماکے سے کم نہ تھا۔ ایک پارٹی اور اسکی جلا وطن قیادت جس کو مٹانے کے لیے مسلسل پاپڑ بیلے جارہے ہیں۔ انہیں دوسرے ممالک آج بھی اہم شخصیت کا درجہ دے کرملاقاتیں کرتے پھر رہے ہیں۔ پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کے لئے اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ تھی کہ اس ملاقات کا اہتمام ایک بہت اہم عرب ملک نے کیا تھا۔ اس ملاقات سے حکومت کو اس قدر دھچکا لگا کہ“ پوری جنگی مشینری“ میدان میں جھونک دی۔ ہراول دستے کے طور پر فواد چودھری اور شہزاد اکبر پریس کانفرنس کرنے آئے تو بہت زیادہ دباؤ چہروں سے عیاں تھا۔ غدار، غدار کا راگ الاپتے فواد چودھری نے یہ بھی کہا اگر نواز شریف یہ ملاقات نہ کرتے تو ن لیگ کی سیٹیں پیپلز پارٹی کے برابر ہوتیں۔ گویا وہ بتا رہے تھے کہ ہم نے آپ کی سیٹیں کم کردی ہیں۔ کچھ ایسی ہی گفتگو شیخ رشید  نے بھی کی۔ آزاد تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا ممکن نہیں تھا۔

ن لیگ کو ہر قیمت پر پیپلز پارٹی سے نیچے لانا تھا تاکہ عوام کو تاثر دیا جاسکے کہ پارٹی ختم ہورہی ہے۔ن لیگ کی قیادت نے صورتحال کو بھانپ کر تاک تاک کر نشانے لگائے اور اپنے بیانیہ کو پھیلایا۔ آزاد کشمیر الیکشن کی مہم مسلم لیگ ن کے مخالفین کے لئے کوئی خوشگوار تجربہ نہ تھی۔ سیٹیں بے شک جیت لیں مگر ایسا لگ نہیں رہا کہ مسلم لیگ ن کو مستقبل قریب میں نیست و نابود کیا جا سکتا ہے۔ آثار یہی بتاتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کو ابھی کافی دیر تک حالت جنگ میں رہنا ہوگا۔ یہی اس کی بقا اور مقبولیت کی ضمانت ہے۔ مفاہمتی موڈ اپنایا گیا تو فریق مخالف تہس نہس کر ڈالے گا۔ آزاد کشمیر فتح کرنے کے بعد اگلا مورچہ سندھ میں لگایا جائے گا۔اب تو اعلانات ہونا بھی شروع ہو گئے ہیں ان پر عمل کا وقت آیا تو زرداری اور بلاول سے کیے گئے تمام وعدے اور ان کی“ قربانیاں“ فراموش کردی جائیں گی۔ کہا جاتا ہے کہ اندرون سندھ پیپلز پارٹی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ لیکن تصور کریں  اگر پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ پر کرپشن کے مقدمات بنا کر گرفتاریاں کر کے نا اہلیاں کردی جائیں تو پارٹی کو کون سنبھالے گا؟پیپلز پارٹی سے سندھ چھیننے  کا عمل شروع ہونے میں زیادہ دیر نہیں۔ اگلے انتخابات سے پہلے پہلے صفایا کرکے گراونڈ ہموار کی جائے گی۔ویسے یہ بھی ممکن ہے معاملہ بغیر کسی جھگڑے کے طے پا جائے۔آصف زرداری کی پیپلز پارٹی، ق لیگ اور ایم کیو ایم کی طرح مرکز اور صوبے میں چند وزارتیں لے کر راضی ہو جائے۔ دیکھتے ہیں اب کیا ہوتا ہے مگر پیش قدمی ضرور ہوگی۔

مزید :

رائے -کالم -