قرآن اور سیدنا عثمانؓ
1-قرآن اور سیدنا عثمانؓ
حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان" تم میں سب سے بہتر وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور قرآن سکھائیں(بخاری شریف) اس حدیث مبارکہ کے راوی قاریِ قرآن،جامعِ قرآن،ناشرِ قرآن،شھیدِ قرآن ذوالنورین، ذوالہجرتین ، ذوالشھادتین،ذوالبشارتین جنابِ سیدناعثمانؓ بن عفان ہیں۔آپؓ نےقرآن کریم کومکمل حضور نبی کریم ﷺ سے پڑھا۔آپؓ کا قرآن مجید سے تعلق اس قدر مضبوط تھا کہ فرمایا کرتے کہ اگر ہمارے دل نا پاک ہوں تو اللہ تعالی کے کلام سے آسودہ نہیں ہو سکتے اور یقیناً میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ کوئی یوں ہی دن گزر جائے اور میں قرآن کریم کو نہ دیکھوں اور کبھی فرماتے مجھے دنیا کی تین چیزیں محبوب ہیں، بھوکوں کو آسودہ کرنا،ننگوں کو کپڑا پہنانا اور قرآن کریم کی تلاوت کرنا۔
آپؓ قرآن کے حافظ تھے،آپؓ کی گود قرآن سے خالی نہیں رہتی تھی،اسی سلسلہ میں آپؓ سے دریافت کیا گیا تو فرمایا یہ بابرکت کتاب ہےاوربابرکت ذات کی طرف سےآئی ہے۔کثرت تلاوت سےآپؓ کامصحف آپ کی شھادت( یوم شھادت 18 ذوالحجہ 35 ہجری بروز جمعہ) سے قبل پھٹ چکا تھا۔آپؓ کی زوجہ محترمہ حضرت رقیہؓ نے محاصرہ کے دن بلوائیوں سے کہا تھا؛خواہ انہیں شھید کر دو یا چھوڑ دو مگر اللہ تعالی کی قسم یہ تو رات کو ایک رکعت میں قرآن کے ذریعے سے زندہ رکھتے ہیں(یعنی ایک ہی رات میں ایک ہی رکعت میں مکمل قرآن کریم تلاوت فرماتے تھے) آپؓ کے سلسلہ میں اللہ تعالی کا یہ ارشاد صادق آتا ہے (ترجمہ !) بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں ( عبادت میں ) گزارتا ہو،آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی اُمید رکھتا ہو( اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہو سکتے ہیں ؟)بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں(اپنے رب کی طرف سے) (سورت الزمر )
2-حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ کے جمع قرآن کے درمیان فرق۔۔۔
حضرت عثمان غنیؓ کے مفاخر میں سے امت کو ایک مصحف پر جمع کرنا ہے۔ چنانچہ ابن التین فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ اورحضرت عثمان غنیؓ کےجمعِ قرآن میں فرق یہ ہےکہ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے قرآن کو اس خوف سےجمع کیاتھاکہ کہیں حاملینِ قرآت کے وفات پا جانے سے قرآن کا کچھ حصہ ضائع نہ ہو جائے کیونکہ قرآن یکجا جمع نہیں کیا گیا تھا لہذا آپؓ نے صحیفوں میں اسے آیات کی اس ترتیب کیساتھ جمع کر دیا جیسا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے اُنہیں مطلع کیا تھا۔
نیز حضرت عثمان غنیؓ کا جمعِ قرآن اس وقت عمل میں آیا جبکہ وجوہ قرآت میں اختلاف رونما ہوا۔ لوگوں نے اپنی اپنی لغات کے موافق قرآن پڑھنا شروع کیا جس کی وجہ سے ایک دوسرے کی قرآت کو غلط قرار دینے لگے،چنانچہ اس سے معاملات کی سنگینی کا خطرہ لاحق ہوا،لہذا حضرت عثمانؓ نے ان صحیفوں کو جو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے تیار کروائے تھے ایک مصحف میں سورتوں کی ترتیب کیساتھ جمع کرا دیااور صرف قریش کی لغت کو ملحوظ رکھا کیونکہ اُنہی کی لغت پر قرآن کا نزول ہوا تھا۔۔۔ اگرچہ ابتداء میں آسانی کی خاطر دوسری لغات کے مطابق قرآن کی تلاوت کی اجازت دی گئی تھی،پھر آپؓ نے دیکھا کہ اب ضرورت ختم ہو چکی ہے لہذا ایک ہی لغت پر اکتفا کیا۔
3-حضرت عثمان غنیؓ کا نظریہ قرآن وسنت سے ماخوذ۔۔
حضرت عثمانؓ نے قرآن کو اپنے اندر جذب کر لیا تھااور حضور نبی کریم ﷺ کی شاگردی اختیار کر کے قرآن کریم سے یہ معرفت حاصل کر لی تھی کہ الہٰ واحد کون ہے ؟جس کی عبادت ضروری ہےاور حضور نبی کریم ﷺ نے ان کے نفس میں یہ اُن عظیم آیات کے معانی کو جاگزیں کر دیا تھا۔حضور نبی کریم ﷺ اس بات کے انتہائی حریص تھے کہ خالقِ کائنات اور اُس کے حقوق کے صحیح تصور پر اپنے صحابہؓ کی تربیت کریں اور آپ کو یہ بخوبی معلوم تھا کہ یہ تصور،جس قدر نفوس پاک ہوں گے اور فطرت سیدھی ہو گی تصدیق ویقین پیدا کرے گا۔چنانچہ اللہ تعالی،کائنات،جنت و جھنم،قضاء و قدر،انسان کی حقیقت اور شیطان کی ساتھ انسان کی جنگ سے متعلق سیدنا عثمانؓ کا نظریہ قرآن وسنت سے ماخوذ تھا۔
4-حضرت عثمانؓ ذوالنورین مسلم اُمّہ کیلئے معیار۔۔
اللہ تعالی نے حضرت عثمانؓ کو اسلام سے مکرم کیا تو آپؓ نے اس کے مطابق زندگی گزاری اور اسکی نشر واشاعت کیلئے جہاد کیا ، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ سے اس کے اصول وفروع اخذ کیے اور ان ائمہ ہُدٰی میں سے قرار پائے جو لوگوں کیلئے راستے متعین کرتے ہیں اور لوگ اس زندگی میں ان کے اقوال و افعال کو نمونہ بناتے ہیں یقینا سیدنا عثمان بن عفانؓ کاتبینِ وحی میں سے تھے۔
5-ذوالہجرتین کے لقب سے ملقب ۔۔
سیدنا عثمان غنیؓ نے پہلی ہجرت حضور نبی کریم ﷺ کی لختِ جگر سیدہ رقیہؓ کیساتھ حبشہ کیطرف اور دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی طرف فرمائی اسی لئے آپ کو ذوالہجرتین کا لقب ملا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے مواخات مدینہ میں سیدنا عثمان بن عفانؓ کی اوس بن ثابت انصاریؓ کا بھائی بنایا۔
6-اسلامی حکومت کی تعمیر میں اقتصادی تعاون۔
حضرت عثمان غنیؓ اسلامی حکومت کے اہم ستون تھے،مشورہ،رائے اور مال میں کوئی بخیلی نہیں کی،غزوہ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شریک رہے،غزوہ بدر کے موقع پر بھی آپؓ تو تیار تھے مگر حضور نبی کریم ﷺ کی لختِ جگر سیدہ صابرہ طاہرہ رقیہ رضی اللہ تعالی عنھا سخت بیمار تھیں، انکی تیمارداری کیلئے حضور نبی کریم ﷺ کے حکم کی تعمیل میں مدینہ منورہ میں ٹھہر گئے۔یاد رہے!جو فضیلت اہل بدر کو نبی کریم ﷺ کی اطاعت میں میدان بدر میں حاضری کی وجہ سے حاصل ہوئی وہی فضیلت حضرت عثمان ؓ کو بھی حاصل ہوئی کیونکہ آپؓ رسول کریم ﷺ کیساتھ دوسروں کی طرح روانہ ہوئے تھےلیکن خود رسول کریم ﷺ نے اپنی لختِ جگر سیدہ طاھرہ رقیہؓ کی تیمارداری کیلئے اُن کو واپس کر دیا تھالہذا آپؓ کا بدر سے پیچھے رہنا رسول کریمﷺ کی اطاعت وفرماں برداری میں تھا،اسی لئے حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت عثمانؓ کیلئے حصہ مقرر کیا۔ اسی طرح آپؓ اہل بدر کیساتھ مال غنیمت،فضیلت اور اجر وثواب میں شریک رہے ۔
حضرت عثمان غنیؓ کا شمار اُن اغنیاء میں سے تھا جنھیں اللہ تعالی نے مال ودولت سے نوازا تھا۔آپؓ بہت بڑے تاجر تھے۔مال ودولت کی انتہاء نہ تھی لیکن آپؓ نے اس مال ودولت کو اللہ تعالی کی رضا اور اُسکی اطاعت میں لگا رکھا تھا، ہر کارِ خیر میں سبقت کرتے اور بے دریغ خرچ کرتے ،فقر ومحتاجی کا ذرا بھی خوف نہ کھاتے۔
مثلاً (1)بئر رومہ وقف کرنا
بئر رومہ جس کے متعلق نسائی شریف میں حدیث مبارکہ ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو بئر رومہ کو خرید کر مسلمانوں کیلئے عام کر دے اس کو جنت میں اس (کنواں) سے بہت ملے گا ۔ اس کنواں کو سیدنا عثمانؓ نے بیس ہزار درھم اور دوسری روایت کے مطابق پینتیس (35) ہزار درھم میں خرید کر مدینہ منورہ کے ہر غنی و فقیر و مسافر سمیت سب کیلئے وقف کر دیا۔
(2)مسجد نبویﷺکی توسیع
جب رسول کریمﷺ نے مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر مدینہ منورہ میں فرمائی تو مسلمان پنج وقتہ نماز اور خطبہ جمعہ سننے کیلئے جمع ہونے لگے،جس کے اندر اُنہیں اوامر و نواہی دیے جاتے تھے۔دین کی تعلیم حاصل کرتے ،یہی سے غزوات کیلئے روانہ ہوتے یہی پر باہر سے آنے والے وفود ٹھہرتے ۔ اس طرح مسجد نبوی شریفﷺکی جگہ کم پڑ گئی۔ حضور نبی کریمﷺ نے بعض صحابہؓ کو رغبت دلائی کہ مسجد کے بغل میں ایک قطعہ ارض خرید کر مسجد کیلئے وقف کر دے تاکہ مسجد نبویﷺ کی توسیع کر دی جائے۔چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔کون ہے جو فلاں کی زمین خرید کر مسجد کیلئے وقف کر دے جس کو جنت میں اس سے بہتر جگہ ملے۔۔؟؟یہ جگہ بھی سیدنا عثمانؓ نے اپنے مال میں سے بیس یا پچیس ہزار درھم کے عوض خرید کر مسجد نبویﷺ کیلئے وقف کر دی اور مسلمانوں کیلئے مسجد نبویﷺ میں وسعت پیدا کی ۔
( 3-) جیش عسرہ میں سخاوت عثمانؓ
جب رسول اللہ ﷺ نے غزوہ تبوک کیطرف کوچ کرنے کا ارادہ فرمایا تو صحابہؓ کرام کو فوج کی تیاری کیلئے مال خرچ کرنے کی رغبت دلائی جسے روم سے ٹکرانے کیلئے آپ ﷺ تیار کر رہے تھے۔صحابہؓ کرام نے حسبِ طاقت اس میں حصہ لیا اور بڑھ چڑھ کر مال دیےلیکن حضرت عثمانؓ سبقت لے گئے چنانچہ ابن شہاب زہریؒ بیان فرماتے ہیں کہ سیدناعثمانؓ نے غزوہِ تبوک میں لشکرِ اسلام کیلئے نو سو چالیس (940)اونٹ اور ساٹھ(60) گھوڑے فراہم کیے،ایک ہزار کی گنتی پوری کی اور رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر دس ہزار دینار ( سونے کے سِکّے )حضور نبی کریم ﷺکی آغوش میں بکھیر دیے۔رسول اللہ ﷺ اُنہیں اُلٹتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے ( ما ضر عثمان ما عمل بعد الیوم )آج کے بعد عثمانؓ جو بھی کریں اُنہیں ضرر نہ ہو گا۔
7-حضرت عثمان غنیؓ کی وجہ سے ساڑھے چودہ سو صحابہؓ کیلئے جنت کی بشارت
امام ترمذیؒ حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ بیعت رضوان کے موقع پر حضرت عثمانؓ حضور نبی کریم ﷺ کیطرف سے سفیر بن کر مکہ مکرمہ گئے تھے،خبر مشہور ہو گئی کہ حضرت عثمان غنیؓ شھید کر دیئے گئے۔ اس موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کون ہے جو عثمانؓ کا بدلہ لینے کیلئے میرے ہاتھ پر بیعت کرے اس وقت ساڑھے چودہ سو صحابہؓ نے حضرت عثمانؓ کا بدلہ لینے کیلئے حضور نبی کریم ﷺ کی بیعت فرمائی، اس بیعت کے بعد رب العزت کیطرف سے درج ذیل الفاظ میں ان خوش نصیب صحابہؓ کرام کیلئے رضامندی کا اعلان کیا گیا " بیشک اللہ اُن مومنوں سے راضی ہو گیا، جنہوں نے اے پیغمبر ﷺ! درخت کے نیچے بیٹھ کر تیرے ہاتھ پر بیعت کی ہے ۔اللہ اُن کے قلوب کو جانتا ہے۔پس اس نے طمانیت اور سکون اتارا اُن پر اور فتح انکے لئے بہت قریب ہے ۔(سورت الفتح)بیعت رضوان کے موقع پر حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے داہنے ہاتھ مبارک کو حضرت عثمانؓ کا ہاتھ قرار دیا ۔
8-حضرت عثمانؓ کے اوصاف و مکارم ۔۔
حضرت عثمانؓ ذوالنورین حلم وبُردباری،عفوودرگزر، عفت و پاکدامنی،جود و سخا،صبر وتحمل واستقامت، عدل و انصاف،محاسبۂ نفس اور خشیتِ الٰہی، زُہدو ورع، ہمدردی و غمخواری،شفقت ورحمدلی جیسے جملہ اوصاف و مکارم سے متصف شخصیت تھے۔
9-حضرت عثمان غنیؓ کی دس اہم خصوصیات۔۔
ابن عساکر میں ہے،جب حضرت عثمان غنیؓ پر بلوائیوں نے عرصۂ حیات تنگ کر دیا اور آپؓ گھر میں محصور تھے۔ اس موقع پر آپؓ نے باغیوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا، میری دس خصال میرا رب ہی جانتا ہے،لیکن آج تم اس کا لحاظ نہیں کرتے۔
1-میں اسلام لانے میں چوتھا ہوں۔
2-رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی میرے نکاح میں دی۔
3-جب پہلی وفات پا گئی تو دوسری بیٹی میرے نکاح میں دے دی۔
4-میں نے پوری زندگی کبھی گانا نہیں سُنا۔
5-میں نے کبھی بُرائی کی خواہش نہیں کی ۔
6-جس ہاتھ سے رسول کریم ﷺ سے بیعت کی اس ہاتھ کو آج تک نجاست سے دور رکھا،حتّٰی کہ میں غسل خانے میں بھی کبھی ننگے بدن غُسل نہیں کیا ۔
7-جب سے اسلام لایا کوئی جمعہ ایسا نہیں گزرا کہ میں نے غلام آزاد نہ کیا ہو، اگر کسی جمعہ کو میرے پاس غلام نہیں ہوا تو اُسکی قضا ادا کی ۔
8-عہد جاہلیت اور عہد اسلام میں کبھی زنا نہیں کیا۔
9-نہ ہی کبھی چوری کی۔
10-میں نے عہد رسالت ﷺ میں پورا قرآن حفظ کیا ۔
10۔حضرت سیدنا عثمان غنیؓ کے زریں اقوال۔
1-آپؓ کا قول ہے، غمِ دنیا ایک تاریکی ہے اور غمِ آخرت دل میں ایک نور ہے۔
2-تارکِ دنیا خدا کا،تارکِ گناہ فرشتوں کا اور تارک طمع مسلمانوں کا محبوب ہوتا ہے۔
3-چار چیزیں بیکار ہیں۔ وہ علم جو بے عمل ہو ۔ وہ مال جو (راہِ خدا میں)خرچ نہ کیا جائے۔ وہ زُہد جس سے دنیا حاصل کی جائے ۔ وہ لمبی عمر جس میں سامانِ آخرت کچھ تیار نہ کیا جائے ۔