تعلیم وتربیت شہری کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ خود کو ریاستی نظام سے ہم آہنگ کر سکے

تعلیم وتربیت شہری کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ خود کو ریاستی نظام سے ہم آہنگ کر ...
تعلیم وتربیت شہری کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ خود کو ریاستی نظام سے ہم آہنگ کر سکے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: ملک اشفاق
قسط: 29
 ارسطو کا طریقہ تعلیم(ایک نظر میں)
 ارسطو کے خیال کے مطابق تعلیم وتربیت شہری کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ خود کو ریاستی نظام سے ہم آہنگ کر سکے اور خود کو ریاستی آئین کے مطابق ڈھال سکے۔ افلاطون کی طرح ارسطو بھی یہ یقین رکھتا ہے کہ تعلیم کا سیاسی مقصد بھی ہوتا ہے اور یہ سیاسی مقصد تعلیم کی بدولت بآسانی حاصل ہو سکتا ہے۔
طریقہ تعلیم پر تنقید
 طریقہ تعلیم پر تنقید کے اہم نکات درج ذیل ہیں:۔
-1 ارسطو نے تعلیم کے موضوع پر نامکمل بحث کی ہے اور موضوع کو ادھورا چھوڑ دیا ہے۔
-2 ارسطو نے موسیقی کو غیر ضروری اہمیت دی ہے اور اس طرح تعلیم کے صرف ایک ہی پہلو پر زور دیا ہے۔
-3 ادب اور فنونِ لطیفہ کو معمولی اہمیت دی گئی ہے۔
-4 ارسطو نے قومی، لازمی اور یکساں تعلیم کو صرف شہریوں تک محدود کیا ہے۔ اس طرح شہریوں اور غیر شہریوں میں دیوار امتیاز کھڑی کی ہے افتراق کی جڑ بوئی ہے۔
 ارسطو کا نظریہ غلامی
 ارسطو نے گھریلو زندگی کے سلسلے میں اہم کام یہ کیا کہ غلامی کی نوعیت اور اسے جائز قرار دینے کی وجوہات پیش کیں۔ ان کا ذکر تو پہلے بھی کیا جا چکا ہے کہ کنبوں کو باہم ملا کر ریاست بنتی ہے اور ہر کنبہ کے ممبر اس کے افراد ہوتے ہیں۔ ایک مکمل خاندان 2 قسم کے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے، ایک گروہ آزاد لوگوں کا اور دوسرا غلاموں کا۔ ارسطو گھریلو بحث کے بارے میں کہتا ہے کہ خاندان کے نظام کو چلانے کے لیے آلات کی ضرورت ہوتی ہے جو مختلف نوعیتوں کے ہوتے ہیں، کچھ جاندار اور کچھ بے جان۔ یہی وجہ ہے کہ نوکر اور غلام جاندار آلات کی جگہ کام کرتے ہیں۔ ارسطو کا یقین ہے کہ حقِ ملکیت کے بغیر کوئی انسان اچھی زندگی نہیں گزار سکتا یا اس کا زندہ رہنا ہی مشکل ہے کیونکہ انسان کو ضروریات زندگی کی فراہمی بڑی ضروری ہے۔ چنانچہ ایسے آلات بھی حقِ ملکیت میں شمار ہوتے ہیں اور گھریلو زندگی کی خوشحالی کے لیے ان کا وجود بہت ضروری ہے۔ غلام جاندار املاک کے زمرے میں آتے ہیں اور انسان کے حقِ ملکیت کے زمرے میں شامل ہیں۔ ارسطو کے خیال کے مطابق غلام صرف اپنے مالک کے تابع نہیں ہوتا بلکہ اپنی ذات و صفات اور ذہنی و جسمانی ہرطرح اس کے لیے وقف ہوتا ہے۔ ایک غلام اپنے مالک سے اس لیے مختلف ہے کہ مالک آزاد فرد ہے اور ادراک کا مالک ہے جبکہ غلام ادراک سے محروم ہے لیکن قوتِ ادراک کے احکام کی تعمیل کرنا جانتا ہے۔
 غلام کی تعریف اور مدافعت
”کوئی بھی شخص جو پیدائشی طور پر اپنی ذات کا مالک نہ ہو بلکہ دوسرے کی ملکیت ہو۔ پیدائشی طور پر غلام ہے۔“ ارسطو کے نظریہ غلامی کی بنیاد مندرجہ ذیل 2 باتوں پر ہے۔
-1 انسان پیدائشی طور پر غیر مساوی ہیں اور اچھی صلاحیتوں کے اعتبار سے مختلف طبقات میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔
-2 یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص زیادہ بہتر ہو اور کوئی کم۔ ارسطو کے مطابق زندگی کے لیے املاک ضروری ہے اور املاک مختلف اور کئی آلات سے بنتی ہے چنانچہ غلام جو کہ”جاندار آلہ ہے“ املاک کا حصہ ہے اور انسانی زندگی کے لیے ضروری ہے۔
 آیئے اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے دلائل ہیں جن کی بناء پر ارسطو غلامی کو صحیح تصور کرتا ہے۔
ارسطو کے دلائل ”غلامی کو جائز قرار دینا“
 اس سلسلے میں ارسطو نے 3 اہم دلائل دیئے ہیں جن کی مختلف تفصیل درج ہے۔
 غلام مالک کے لیے ایک آلہ کار کی حیثیت رکھتا ہے
 پہلی بات یہ کہ جب ارسطو غلام کو آلہ کار کی حیثیت دیتا ہے تو وہ ایک جان دار آلہ کار کی حیثیت غلام کو عطا کرتا ہے۔
 ارسطو کے خیال میں کسی کو اپنی ملکیت پر حق ہوتا ہے اسی طرح وہ غلام پر بھی حق رکھتا ہے اور اس پر اس کا مکمل کنٹرول ہوتا ہے۔ اسے فروخت کرکے اس کے حقوق کسی اور کے حوالے بھی کر سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح اپنی ملکیت کسی کو فروخت کرکے اس کے حقوقِ ملکیت کسی اور کو دے دیتا ہے۔
 غلام گھریلو زندگی کا ایک لازمی جزو
 ارسطو کے خیال میں غلام کوگھریلو زندگی کا لازمی جز ہونا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آقا اورغلام کے درمیان دو طرفہ تعلقات کی حمایت کرتاہے۔ مالک کو تمام حقوق غلام پر حاصل ہیں۔ ارسطو تو یہاں تک کہتا ہے کہ خاندان کا جز بنے بغیر غلام کی زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا یعنی غلام کے وجود کا دارومدار ارسطو کے خیال میں اس امر میں پنہاں ہے کہ وہ گھریلو زندگی کے لازمی جز میں شمار ہو۔ تنقید کرنے والے مفکرین ارسطو کے اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ کیونکہ ملکیت تو بے جان ہوتی ہے اور غلام جان دار ہوتا ہے، اس کے بھی خیالات ہوتے ہیں۔ کچھ مرضی ہوتی ہے۔(جاری ہے )
نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔

مزید :

ادب وثقافت -