آخر عورت کو ہی الزام کیوں؟ (شرعی اور طبی نقطہ نظر)
جب بھی یہ خبرنظر سے گذرتی ہے تو دِل کانپ جاتا ہے جو لوگ بیٹی کی پیدائش پر اپنی بہو، اپنی بیوی، اپنی بھابھی پر ڈنڈوں سے وار کرتے ہیں۔ انہیں مار نے کے درپے ہوتے ہیں اور تشدد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ نے بیٹی کو کیوں جنم دیا‘ توتوہے ہی منحوس،مزید طرح طرح کی باتیں اور بیٹی جننے والی خاتون کے خاندان کو گالی گلوچ۔ یہیں پر بس نہیں بلکہ اللہ کریم سے بھی (نعوذبااللہ)ایسے گلے شکوے کرتے ہیں کہ جنہیں زبان پر لانا ممکن نہیں ہے۔
اے میرے ربِ کریم یہ کیسا معاشرہ ہے کہ جس نے عورت کو عزت دینا تھی ‘ آج اُس کی پیدائش پر اتنی آہ و بکا اور ما ردھاڑ،ذرا ایک لمحہ کے لئے سوچئے جو یہ ظلم کرتے ہیں کیا وہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے بھی عورت کی کوکھ سے ہی جنم لیا تھا۔آج طرح طر ح کی باتیں اور طعن و تشنیع اللہ معاف کرے۔یہ سراسر دین سے دوری اور عورت کے تقدس کی پامالی ہے۔یہ تو اللہ کریم کی عطاہے جو بیٹے دے، بیٹیاں دے اور کچھ بھی نہ دے بلکہ دے کر چھین بھی لے۔ذرا پوچھیے اُن سے جن کو اللہ کریم نے اولاد جیسی نعمت سے نہیں نوازا وہ ترس گئے ہیں اور مارے مارے پھرتے ہیں کہ کاش ہماری جھولی بھی ہری بھری ہوجائے۔ اللہ کریم کے باغی نہ بنیں بلکہ اللہ خالق کا ہر حال میں شکر ادا کریں جو لوگ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو مزید نعمتوںسے نوازتے ہیں۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کو اللہ کریم نے دو بیٹیوں سے نوازا اور اُس نے اُن کی تعلیم و تربیت کی اور اچھا خیال رکھا تو وہ شخص جنت میں میرے ساتھ ہوگا جیسے یہ دو انگلیاںہیں(اکھٹی کر کے دکھائیں) ذرا غور کیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی چار بیٹیاں تھیں اور بیٹے تو کم سنی میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان ذہن نشین کر لیں کہ شاید اِس سے پتھر دِل لوگوں کے دلوں میں بیٹیوں کی قدر و منزلت پیدا ہوجائے۔
صدیقہ کائنات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دِن ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ آئی اِس نے کچھ مانگا تو میں نے اسے ایک کھجور دی اُس عورت نے کھجور کے دو ٹکڑے کئے اور آدھی آدھی دونوں میں بانٹ دی اور خود نہ کھائی اس کے بعد وہ چلی گئی ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو میں نے سارا ماجرہ سنا دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا کہ جو شخص بھی لڑکیوں کی پیدائش کے ذریعے آزمایا گیا اور
ان کے ساتھ اچھا سلوک کر کے اس آزمائش میں کامیاب رہا تو یہ لڑکیاں اس کے لئے قیامت کے دن جہنم کی آگ سے بچنے کے لئے پردہ ثابت ہوں گی(بخاری و مسلم)
اِ س حوالے سے اور بھی احادیث پیش کی جاسکتی ہیں لیکن طوالت سے بچنے کے لئے اختصار کیا ہے ۔طبی نقطہ نظر سے بھی آگاہی ضروری ہے کیونکہ اکثر لوگ طبی حقائق سے لاعلم ہیں ۔سادہ الفاظ میں اختصار کے ساتھ یہ ہے کہ خلیہ(Cell)انسانی جسم میں بنیادی اکائی ہے۔خلیہ کے اندرکروموسومز( Chromosomes)دھاگے کی طرح کا ایک اسٹرکچر(Structure)ہوتا ہے۔تولیدی عمل میں مرد اور عورت کی جانب سے تئیس،تئیس(23,23)کروموسومز آپس میں ملتے ہیں۔ ان کروموسومز میں سے 22,22کروموسومز ایک جیسے ہوتے ہیں اور ایک کروموسوم جنسی کروموسوم ہوتا ہے اور یہ بچہ کی جنس کا تعین کرتا ہے اس کو سمجھنے کے لئے مرد اور عورت کے جنسی کروموسومز کے طرز کو سمجھنا ہوگا۔
جیسا کہ مرد میں کروموسومز کی طرز XY اورعورت میں XXہوتی ہے ۔جب تولیدی عمل میں مردکا تولیدی جوہر جو Yکروموسوم لئے ہوئے ہوتا ہے اور عورت کے X کروموسوم کے ساتھ ملتا ہے تو بچہ کی مردانہ جنس کا تعین ہوتا ہے لیکن دوسری طرف اگر مرد کا تولیدی جوہر Xکروموسوم عورت کے X کروموسوم کے ساتھ ملے گا تو بچہ کی جنس یقینی طور پر زنانہ ہوگی۔اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ بچے کی جنس کے تعین میں عورت قطعی طور پر معذور ہے کیوں کہ اس کے پاس تو قدرتی طور پر XXکروموسومز ہیں جو وہ تولیدی عمل میں شیئر(Share)کر سکتی ہے جب کہ مرد Xکروموسوم اور Yکروموسوم دونوں میں سے کسی ایک کو شیئرکرتا ہے۔یاد رہے یہ سب اللہ کریم کے حکم سے ہوتا ہے لہذا اگر اولادِ نرینہ یعنی بیٹا نہ ہونے کا ذمہ دار ہے تو وہ تو میڈیکلی طور پر صرف مرد بنتا ہے،عورت بیچاری تو قطعی طور پر معذور ہے پھر یہ طعن و تشنیع صرف عورت کو کیوں ہے؟
ہر اُس مسلمان بھائی سے التجا ہے جو اس جہالت کا شکار ہے اب بھی وقت ہے وہ اس سے باز آجائے اور دین اسلام میں جو احکامات عورت سے حسن ِسلوک کے ضمن میں دیے گئے ہیں اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے”جو عورت آپ کے دکھ درد کی ساتھی ہے اور اچھے برے وقت میں آپکا ساتھ دیتی ہے تو خدارا پھر اسکو ایسے قصور کی سزا نہ دی جائے جو کہ اسکا ہے ہی نہیںآیئے اور آج سے ہی اپنی اصلاح کریں۔ ٭