سمارٹ لاک ڈاؤن…… توجہ طلب پہلو
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سمارٹ لاک ڈاؤن کرنے پر مجھے اپنی ٹیم پر فخر ہے دیگر ممالک آج اسی حکمت عملی پر چلنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ کورونا سے پیدا شدہ بحرانی کیفیت میں وطن عزیز کو درست سمت میں رکھنے کے لئے یہ تدبیر میرے کام آئی آج سے اگر ہم ایس او پیز کا لحاظ رکھتے ہیں اور ان پر مکمل عمل درآمد کرتے ہیں تو بحران کی سنگینی سے بخوبی نجات پا لیں گے وزیراعظم نے اپنے ٹویٹر پیغام میں بلوم برگ کا ایک مضمون شیئر کیا جس کے مطابق جرمنی، اٹلی، فرانس، پرتگال وغیرہ میں سمارٹ لاک ڈاؤن پر غور کیا جا رہا ہے۔وزیراعظم کے معاون خصوصی اطلاعات و نشریات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ سمارٹ لاک ڈاؤن کورونا وبا سے نپٹنے کی کنجی ہے قوم نے ماسک کے استعمال اور سماجی فاصلہ اختیار کرنے میں نمایاں بہتری دکھائی ہے۔ کورونا سے لڑنے کے لئے ضروری ہے کہ سمارٹ لاک ڈاؤن اور ایس او پیزپر عمل پیرا ہوں۔ کورونا کے پھیلاؤ کے آغاز سے ہی زندگی اور روزگار میں توازن پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
سمارٹ لاک ڈاؤن کے اگر اچھے نتائج برآمد ہو رہے ہیں تو یہ مقامِ مسرت ہے۔وزیراعظم اس حوالے سے اپنی ٹیم کی پہل کاری پر اسے مبارکباد دے رہے ہیں تو انہیں اس کا بھی حق ہے وبا جوں جوں کم ہونے کے آثار پیدا ہوں گے خوف اور بے اطمینانی کی کیفیت کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی لیکن ان ڈاکٹروں کو کیا ہوگیا جو یہ کہہ رہے ہیں کہ کورونا کیسز کم نہیں ہوئے دو ہفتوں کے سخت ترین لاک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹروں کی مختلف تنظیموں کا کہنا ہے کہ کورونا کیسز کی تعداد حقیقتاً کم نہیں ہوئی بلکہ حکومت کی جانب سے ٹیسٹوں کی تعداد میں کمی لائی گئی ہے جس کے باعث مریضوں کی کم تعداد سامنے آ رہی ہے جب تک حکومت کل آبادی کے 2فیصد کے رینڈم ٹیسٹ نہیں کرتی اصل حقائق سامنے نہیں آئیں گے کورونا ٹیسٹنگ کی استعداد اب بھی بہت کم ہے۔ حکومت ہسپتالوں میں بیڈز، ڈاکٹرز اور نرسوں کی تعداد زیادہ کرے اور ہسپتالوں میں آکسیجن کی مقدار بڑھائے جہاں تک ڈاکٹروں کے دعوے کا تعلق ہے کہ حکومت نے ٹیسٹوں کی تعداد کم کر دی ہے اس لئے کیسز کم ہو گئے ہیں۔ اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالیں تو ان کی رائے میں وزن نظر آتا ہے۔ حکومت کی جانب سے جو اعداد و شمار جاری کئے جاتے ہیں ان کے مطابق 20جون کو نئے مریضوں کی تعداد 6604تھی اس کے بعد اس تعداد میں مسلسل کمی دیکھی گئی۔21جون کو یہ تعداد 2951، 22جون کو 4471، 23جون کو 2946، 24جون کو 3892، 25جون کو 4044 اور 26جون کو 2775تھی،ان اعداد و شمار کی روشنی میں بلاشبہ نظر آتا ہے کہ نئے مریضوں کی تعداد کم ہو رہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ مریضوں کے ٹیسٹ بھی کم ہو گئے ہیں۔20جون کو ملک بھر میں 30ہزار ٹیسٹ کئے گئے جو 26جون تک کم ہوتے ہوتے 21ہزار تک آ گئے تھے اب ظاہر ہے اگر ٹیسٹ کم ہوں گے تو مریض بھی کم ہی سامنے آئیں گے۔ عالمی ادارۂ صحت تو زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔ ایک عہدیدار نے کہا تھا کہ نئے مریضوں کی حقیقی تعداد معلوم کرنے کے لئے ٹیسٹوں کی استعداد اور تعداد بڑھانا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو اعداد و شمار سے صحیح تصویر سامنے نہیں آئے گی اور اگر کم ٹیسٹوں کی وجہ سے یہ نتیجہ نکال لیا گیا کہ وبا کا زور ٹوٹ رہا ہے تو یہ گمراہ کن بھی ہو سکتا ہے۔
یہ درست ہے کہ پہلے کی نسبت لوگوں میں حفاظتی نقطہ ء نظر کے حوالے سے بہتر رویہ اور شعور سامنے آیا ہے لوگوں نے ماسک بھی پہننا شروع کر دیا ہے جب ایسا ہو گا تو بہتر نتائج بھی سامنے آئیں گے لیکن ڈاکٹروں کی اس تجویز پر بھی غور کرنا چاہیے کہ آبادی کے دو فیصد کے رینڈم ٹیسٹ کئے جائیں تو ہی صحیح صورت حال سامنے آئے گی۔ ڈاکٹر حضرات یہ تجویز کافی عرصہ سے پیش کر رہے ہیں لیکن اس کو پذیرائی نہیں ملی۔ چند ہفتے پہلے لاہور میں سرکاری اہتمام میں ایک ماڈل سروے کیا گیا تھا جس نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ لاہور میں مریضوں کی تعداد 6لاکھ ستر ہزار ہو سکتی ہے۔ محکمہ صحت نے یہ رپورٹ جب پنجاب کابینہ کے سامنے رکھی تو وزراء نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور ان کی رائے تقسیم نظر آئی تو اجلاس ایجنڈے کی اگلی آئٹم کی جانب بڑھ گیا اور یوں یہ رپورٹ اس حقیقی توجہ سے محروم رہی جو اس کا حق تھا۔سمارٹ لاک ڈاؤن کے مثبت نتائج اگر سامنے آ رہے ہیں تو اسے جاری رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ پاکستان میں مریضوں کی تعداد 2لاکھ سے بڑھ چکی ہے جو خطے میں بھارت کے سوا باقی تمام ملکوں سے زیادہ ہے۔ جو حضرات مختلف امور میں دوسرے ملکوں سے موازنہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں انہیں یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ مریضوں کی تعداد میں یہ ہوشربا اضافہ کیوں ہوا۔ دنیا میں صرف 12ملک ایسے ہیں جہاں مریضوں کی تعداد 2لاکھ تک پہنچی اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ابھی یہ تعداد مزید بڑھ رہی ہے جولائی کے مہینے میں اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ سمارٹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اگر مریضوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی رہے تو یہ باعثِ اطمینان ہوگا بشرطیکہ ٹیسٹوں کی تعداد کم کرنے کی بجائے بڑھائی جائے۔
ویسے تو پنجاب حکومت نے اب یہ پالیسی بنا لی ہے کہ صرف انہی مریضوں کا ٹیسٹ ہوگا جن میں کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی علامات ظاہر ہوں گی اس سے پہلے ماہرین کہہ چکے ہیں کہ 30فیصد کیرئیر ایسے ہوتے ہیں جن میں کسی بیماری کی سرے سے کوئی علامت ہی نہیں ہوتی۔ ایسے چھپے مریض ہی زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ خود ٹیسٹ نہیں کراتے اور اب حکومت بھی علامات کے سامنے آنے کے بغیر ٹیسٹ نہیں کرے گی تو کیا ایسے لوگ مرض کے پھیلاؤ کا باعث نہیں بنیں گے۔ اس وقت بھی بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جن میں ساری علامات بھی ہوتی ہیں لیکن وہ ٹیسٹ کراتے ہیں اور نہ کسی ہسپتال سے رجوع کرتے ہیں اگر انہیں بخار ہو تو اپنے طور پر بخار کی دوائی کھا لیتے ہیں، کھانسی ہو تو کھانسی کی دوائی لے لیتے ہیں اگر ٹھیک ہو جائیں تو بہتر، نہ ہوں تو ان کا مرض پیچیدہ ہو جاتا ہے پھر اگر انہیں بروقت مناسب طبی امداد نہ ملے تو ان کا بچنا مشکل ہوجاتا ہے ایک وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ کووِڈ 19کا چونکہ کوئی علاج تاحال دریافت نہیں ہوا اس لئے لوگ ادویات پر پیسے ضائع نہ کریں بس آئسو لیٹ کریں تو خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے، ان حالات میں اگر کم ٹیسٹوں سے یہ نتیجہ نکال لیا گیا کہ وبا کا زور بھی ٹوٹ رہا ہے تو خدشہ ہے کہ ہم اعداد و شمار سے دھوکا کھا کر کہیں مشکل حالات سے دوچار نہ ہو جائیں۔ توقع ہے حکومت اس پہلو پر توجہ دے گی۔