حکومتی کارکردگی پر ایک نظر
پاکستان میں بدقسمتی سے سیاسی شعور نہ ہونے کے برابر ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی عمران خان پر تنقید کرے تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس شخص کا تعلق نون لیگ یا پیپلز پارٹی سے ہے یا پھر اسے عمران خان سے بغض ہے۔ حالانکہ کسی سیاسی کتاب یا سیاسی مفکر کے نزدیک ایک سیاسی جماعت یا اس کے لیڈر پر تنقید کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ نقاد کے دل میں اس کے خلاف بغض بھرا ہو یا پھر وہ مخالف سیاسی جماعت سے یو۔
جو سیاست دان بھی پاکستان میں حکمران بنے ان سب میں کچھ خصوصیات مشترک رہی ہیں۔ مثال کے طور پر الیکشن سے پہلے وہ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور حکمران بننے کے بعد ان کا پہلا بیان یہی ہوتا ہے کہ سابقہ حکومت کی کرپشن اور غیر ملکی قرضوں کی وجہ سے ملکی خزانہ خالی ہو چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا بیان بار بار دینے کے باوجود وہ نہ تو کرپشن کرنے والوں کو عبرتناک سزائیں دیتے ہیں اور نہ ہی ملکی وسائل میں اضافے اور غیر ملکی قرضے کی واپسی کی کوئی بہتر پالیسی بناتے ہیں بلکہ پہلے سے سخت شرائط پر آئی ایم ایف سے مزید قرضے لیتے ہیں۔ دوسری مشترک خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ ہر وزیر کو وہی وزارت دیتے ہیں جو یا تو اس شعبے کو بالکل نہ جانتا ہو یا پھر سابقہ دور حکومت میں بغیر میرٹ کے اسی شعبے میں رہ کر کرپشن کرتا رہا ہو، حالانکہ بہت سے ملکوں میں متعلقہ شعبے میں پی ایچ ڈی کے حامل وزیر لگائے جاتے ہیں۔ تیسری مشترک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ کئی قسم کے سروے اور اعدا و شمار جاری کرتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ ہمارے دور میں جی ڈی پی کی شرح اتنے فیصد بڑھ گئی ہے جبکہ سابقہ دور میں اتنی تھی، غیر ملکی سرمایہ کاری میں اتنا فیصد اضافہ ہو گیا، اتنے بیرونی قرضے ادا ہو گئے، اتنے ری شیڈول اور اتنے معاف ہو گئے۔ اس قسم کے اعداد و شمار کے ساتھ خوبصورت گراف بھی بنے ہوتے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ان اعداد و شمار کو صحیح معنوں میں پرکھنے کا ہمارے پاس کوئی طریقہ کار نہیں ہے کیونکہ ماضی میں ایسے بہت سے سروے اور اعداد و شمار بعد میں جعلی ثابت ہوئے تھے۔
حکومت اپنا کام بہتر طریقے سے سر انجام دے رہی ہے یا نہیں، اس کا اندازہ کسی سروے رپورٹ، اعداد وشمار یا گراف سے نہیں بلکہ عوام کے معیار زندگی، عوام کو دی گئی سہولیات اور مستقبل کے قابل عمل منصوبہ جات سے لگایا جاتا ہے اور اگر ہم یہی پیمانہ موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے استعمال کریں تو ہمیں کارکردگی کا اندازہ خود بخود ہو جاتا ہے، اور گراف یا اعداد وشمار کے گورکھ دھندوں میں پڑنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
کامیاب حکمرانی کے لئے مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں ہم آہنگی کا ہونا بہت ضروری ہے جبکہ موجودہ حکومت میں یہ بالکل بھی دکھائی نہیں دیتی، سندھ حکومت لاک ڈاون کا فیصلہ بہت جلد کر لیتی ہے، پنجاب اور وفاق کی سطح پر تاخیر سے ہوتا ہے، سندھ حکومت نئے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیتی ہے، پنجاب حکومت کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔ سانحہ ماڈل ٹاون، بلدیہ ٹاون، سانحہ ساہیوال وغیرہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی، بلکہ سابقہ حکومت کی طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر میں نامزد ملزمان کو حکومتی عہدے دیئے جاتے ہیں۔ مہنگائی کئی گنا بڑھ جاتی ہے، نہ تو نئی ملازمتوں کا اعلان ہوتا ہے نہ ہی کاروبار کے نئے مواقع پیدا کئے جاتے ہیں۔ جن لوگوں پر کرپشن ثابت بھی ہو جاتی ہے، انہیں بھی سزا نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی تو برائے نام ہوتی ہے۔
عوام کو یہ تو بتایا جاتا ہے کہ کتنا غیر ملکی قرضہ واپس ہوا، یہ نہیں بتایا جاتا کہ مزید کتنا قرضہ لیا گیا ہے۔ یہ تو بتایا جاتا ہے کہ احساس پروگرام کے تحت کتنی رقم تقسیم ہوئی، یہ نہیں بتایا جاتا کہ کرونا کے نام پر کتنے ارب ڈالر کی بیرونی امداد پاکستان کو دی گئی اور اس میں سے عوام پر کتنی خرچ ہوئی اور کتنی اقتدار کے ایوانوں میں تقسیم ہوئی۔ یہ تو بتایا جاتا ہے پی آئی اے میں اتنے کرپٹ عناصر سابقہ دور حکومت سے موجود ہیں، یہ نہیں بتایا جاتا کہ کتنوں کو موجودہ حکومت نے سزائیں دی ہیں۔ یہ تو بتایا جاتا ہے کہ ایک آئل مافیا ہے، یہ نہیں بتایا جاتا کہ حکومت اس کے سامنے کتنی بے بس ہے۔
عدلیہ، پولیس، میڈیا، تعلیم، صحت، الغرض کوئی ایک بھی شعبہ ایسا نہیں جس میں اصلاحات کی کوشش بھی کی گئی ہو، اصلاحات ہونا یا نہ ہونا تو دور کی بات ہے۔
اگر کوئی حکومتی کارکردگی پر سوال اٹھائے تو کہا جاتا ہے کیا تم زرداری یا نواز شریف کو دوبارہ لانا چاہتے ہو؟ یعنی حد یہ ہے کہ 22 کروڑ کی آبادی میں عوام کے سامنے صرف تین آپشن ہیں۔
.
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.