اسمبلی میں علامتی جنازہ اور جمہوریت کی سسکیاں
لیجئے صاحب جمہوریت کا علامتی جنازہ بھی نکل گیا۔ کیا حقیقی جنازہ بھی نہیں نکلا ہوا؟ یہ سوال حالات حاضرہ کو دیکھ کر لا محالہ ذہن میں آتا ہے۔ جب کسی جمہوریت کا عام آدمی سے دور دور کا واسطہ نہ ہو تو اس کی ویسے ہی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس وقت اسمبلیوں میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا کوئی اسے جمہوریت کہہ سکتا ہے۔ پہلے ایک جنازہ اس وقت نکلا جب قومی اسمبلی میں ننگی گالیاں دی گئیں۔ گلی محلے کے کھلنڈرے نوجوانوں کی طرح ایک دوسرے پر حملے کئے گئے، بجٹ کتابیں پھینکی گئیں، دوسرا جنازہ بلوچستان اسمبلی میں نکلا جب مرکزی دروازے پر تالے ڈال دیئے گئے۔ پولیس کے ساتھ جھگڑے ہوئے، مقدمہ درج کیا گیا اور جن ارکان پر مقدمہ درج کیا گیا انہوں نے تھانے میں گرفتاری کے لئے ڈیرے ڈال دیئے اور ابھی تک ڈالے ہوئے ہیں ظاہر ہے سندھ اسمبلی میں تو اس سے کچھ بڑھ کر ہی ہونا تھا ناں، سو وہ چارپائی پر جمہوریت کا علامتی جنازہ لے آئے۔ اب کے پی کے اسمبلی بچی ہے شاید وہاں جمہوریت کی علامتی تدفین کا کوئی ڈرامہ رچایا جائے۔ یہ ہے ہماری اسمبلیوں کا احوال، جہاں سنجیدگی اور متانت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، جمہوری اقدار کا دور دور تک شائبہ دکھائی نہیں دیتا۔ دنیا ہمارے یہ تماشے دیکھ رہی ہے، ہنس رہی ہے،مگر ہمارے جمہوریت کے دعویداروں کو اس کی رتی بھر پروا نہیں، وہ اپنے کھیل میں مگن ہیں۔ انہیں کروڑوں روپے اجلاس میں شرکت کی مد میں مل جاتے ہیں، اس اجلاس کا عوام کو کوئی فائدہ ہوتا ہے یا نہیں اس سے انہیں غرض نہیں۔
سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان نے اس لئے چارپائی لا کر جنازہ نکالا کہ اپوزیشن لیڈر کو وہاں خطاب نہیں کرنے دیا گیا۔ یہ عجیب جمہوریت ہے جہاں زباں بندی ایک قاعدہ بنا دیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی جو جمہوریت کی بڑی دعویدار بنتی ہے، اس نے سندھ اسمبلی میں جیسے بجٹ منظور کرایا، وہ سب کے سامنے ہے۔ جمہوریت کا جنازہ ایوان میں صرف چارپائی لانے سے تو نہیں نکلتا، اس وقت بھی نکلتا ہے جب اپوزیشن کو بات نہ کرنے دی جائے۔ قومی اسمبلی، سندھ اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں جو غدر مچا ہے، اس کے پیچھے ایک ہی کہانی ہے،اپوزیشن کو بات نہ کرنے دی جائے، قومی اسمبلی میں شہباز شریف کی تقریر کے دوران جو کچھ ہوا اس نے بعد ازاں ایک بڑے ہنگامے کی شکل اختیار کر لی، بلوچستان میں حکومت نے ارکانِ اسمبلی کو بات نہ کرنے دی تو اسے تالے لگانے کا مرحلہ آگیا، اب سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کا گلا دبایا گیا تو جنازے کی چارپائی آ گئی۔ یہ حکومتیں آخر اتنی خوفزدہ کیوں ہو جاتی ہیں کچھ برا نہیں کر رہیں تو اپوزیشن سے ڈرتی کیوں ہیں،اُسے بولنے کیوں نہیں دیتیں۔ اگر کوئی برا بولے گا تو عوام خود اس کے ناقد بن جائیں گے۔یہ معاملہ عوام پر کیوں نہیں چھوڑا جاتا، جمہوریت کے اصل وارث اور فریق تو وہی ہیں موجودہ جمہوری تجربے میں پہلی بار یہ دیکھا جا رہا ہے کہ حکومتیں اپوزیشن کو بولنے نہیں دے رہیں قانون سرعت میں بغیر بحث کے منظور کئے جا رہے ہیں، ایک طرح سے پارلیمانی روایات کو بلڈوز کیا جا رہا ہے، یہ بھی تو جمہوریت کا جنازہ نکالنے کی ایک صورت ہے، اسمبلی میں چار پائی آ جانے سے اتنی قیامت کیوں آ گئی ہے، جمہوریت کی سسکیاں تو بہت پہلے سے سنائی دے رہی ہیں اس کی جان کنی کا عالم تو سب دیکھ رہے ہیں۔
جس جمہوریت کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی ہو اس پر مضبوط عمارت کیسے تعمیر ہو سکتی ہے۔ پاکستانی جمہوریت میں جمہور یعنی عوام کہاں ہیں، کوئی تلاش کرکے بتائے، یہ تو خواص کا ایک ہابی کلب ہے۔ جس جمہوریت میں الیکٹیبلز کی اصطلاح استعمال ہوتی ہو جو اپنی وفاداریاں تبدیل کر کے اِدھر سے اُدھر جانے کے عادی ہوں اور ان کی وجہ سے حکومتیں بنتی اور بکھرتی ہوں، اس جمہوریت کو عوام کی نمائندہ کیسے کہا جا سکتا ہے۔ جس جمہوریت میں پہلے دن سے دھاندلی کے الزامات لگتے ہوں، رزلٹ کو مشکوک بنا دیا جاتا ہو، الیکشن پر سوالات اٹھائے جاتے ہوں، نتیجہ رک رک کے آتا ہو، حکومت مخالف تحریک کی داغ بیل ڈالی جاتی ہو، اس جمہوریت کو ایک پختہ اور مضبوط جمہوریت کیسے کہا جا سکتا ہے۔ جس جمہوریت کے بغل بچے کا کردار اسٹیبلشمنٹ ادا کرتی ہو، اسے اپنی مرضی سے چلاتی ہو، اس جمہوریت میں تنزلی نہ آئے تو اور کیا ہو۔ آج اسمبلیوں میں وہ کچھ ہو رہا ہے، جسے سوچ کر ہی گھن آتی ہے۔ وہ مقدس ایوان جس میں قرآنی آیات موجود ہیں، قائد اعظم کی تصویر لگی ہوئی ہے، جب غلیظ گالیوں سے گونجتا ہے تو جمہوریت اسی وقت دم توڑ جاتی ہے۔ جعلی جمہوریت اور کسے کہتے ہیں، جو عوام کی نمائندہ نہ ہو، جس میں خواص کے مفادات کی ہنڈیا پکتی ہو اور اختلاف ہو جائے تو یہ ہنڈیا بیچ چوراہے کے پھوٹ جاتی ہو۔ یہ جمہوریت اس لئے بھی جعل لگتی ہے اس میں عوام کا ارکانِ اسمبلی پر کوئی خوف ہی موجود نہیں۔ وہ ان کے مسائل سے بھی بے پروا ہیں اور اس حوالے سے بھی بے خوف ہیں عوام ان کے اسمبلیوں میں کرتوت دیکھ کر کیا سوچیں گے، کیا کہیں گے۔
اَب کئی لوگ کہیں گے اسمبلیوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ جمہوریت کے خلاف ایک سازش ہے۔ یہ سازش کیا فرشتے کر رہے ہیں کیا سب ارکانِ اسمبلی ہی یہ کھیل نہیں کھیل رہے، جمہوریت کے خلاف اگر کوئی سازش ہو رہی ہے تو اسے ناکام کس نے بنانا ہے۔ اسمبلی کے اندر بھی اگر ایک دوسرے کو بولنے نہیں دیا جائے گا تو کیا سب آسمان پر جا کر بولیں گے۔ اسمبلیوں کو پر امن اور جمہوری طریقے سے چلانا سپیکروں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا سپیکر غیر جانبدار ہوتے تھے، اب معاملہ یکسر اُلٹ ہے، سب سے زیادہ آمریت کا انداز سپیکر ہی اپناتے ہیں۔ اپوزیشن کو کچلنا اپنی ذمہ داری سمجھ لیتے ہیں حکومت سے اپنی وفاداری اس برے انداز سے نبھاتے ہیں کہ ان پر ایک جابر سلطان کا گمان ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک ایسی تنزلی ہے، جس نے جمہوری اقدار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ 73 سال گزرنے کے باوجود ہم نظامِ انتخاب کو شفاف بنا سکے اور نہ جمہوری اقدار کو اپنا سکے۔ ہمارا نظام انتخاب مشکوک اور ہماری جمہوریت اسی لئے جعلی قرار پاتی ہے، یہ کبھی عوام کی حقیقی رائے کا عکس نہیں ہوتی،بلکہ جو درپردہ ہاتھ ہیں وہ اس کے خدوخال وضع کرتے ہیں۔ ایسی جمہوریت کا علامتی جنازہ ایک معمول کی بات ہے۔عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کیونکہ ان کا تجربہ یہ ہے آمروں نے انہیں کبھی نہیں روکا جمہوریت آتی ہے تو ان سے سب کچھ چھین لیتی ہے۔