چھٹے وائسرائے کا دربار اور جنوبی ہند اور دکن میں بلا کا قحط، 50لاکھ افراد لقمہ اجل بنے
مصنف : ای مارسڈن
قیصرۂ وکٹوریہ اور ان کے جانشینوں کے عہد میں ہند کی حالت
آخری 6 وائسرائے1877ءسے 1901ءتک:
چھٹے وائسرائے لارڈ لٹن نے 1877ءمیں دہلی کے مقام پر ایک عظیم الشان دربار کیا اور اس دربار میں ملکہ وکٹوریہ کے قیصرۂ ہند ہونے کا اعلان کیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہند کے راجہ، نواب اور والیانِ ریاست اپنے پرانے جھگڑے ٹنٹے چھوڑ کر قیصرہ¿ ہند کی وفادار رعیت کی حیثیت سے شریک جشن ہونے پر راضی ہوئے۔
اس کے چند ہی روز بعد جنوبی ہند اور دکن میں بلا کا قحط نازل ہوا۔2 سال تک مینہ وقت پر نہ برسا۔ 50لاکھ آدمی قحط سے مارے مر گئے۔ گورنمنٹ سے قحط زدوں کی امداد میں جو کچھ ہو سکا کیاگیا۔ انبار در انبار غلہ جہازوں اور ریل کے ذریعہ غیر ملکوں سے لا کر ہند کے ان حصوں میں پہنچایا گیا جہاں کال پڑ رہا تھا۔ 10 کروڑ روپیہ سے زیادہ غریب غربا ءکی پرورش پر صرف کیا گیا اور لاکھوں جانیں بچ گئیں۔ اس قحط کے بعد ریلوں کے پھیلانے کی مزید کوشش کی گئی تاکہ پھر ہند کے کسی حصے میں قحط ہو جائے تو وہاں غلہ باآسانی پہنچا دیا جائے۔
اسی زمانے میں شیر علی امیر افغانستان نے ایک روسی افسر کا کابل میں خیر مقدم کیا اور وائسرائے نے جو ایک افسر دوستانہ سفارت پر بھیجا تو اسے اپنے یہاں آنے کی اجازت نہ دی۔ اس انکار کے یہ معنی تھے کہ روسی ہند پر حملہ کریں گے تو میں ان کی مدد کروں گا۔ انگریز مجھ سے دوستی کی توقع نہ رکھیں۔ اس وجہ سے شیر علی کے ساتھ جنگ ہوئی۔ انگریز فوجیں افغانستان پر حملہ آور ہوئیں۔ شیر علی بھاگ گیا۔ اس کے بیٹے یعقوب خاں نے جو تخت کابل پر بٹھا دیاگیا تھا، انگریزوں کے ساتھ صلح کر لی، مگر جب سرلوئس کوگنری سفیرِ انگریز اس کی ملاقات کو آیا تو افغان سپاہیوں نے فساد کر کے سفیر اور اس کے اردلی کے سپاہیوں کو قتل کیا۔ یعقوب خاں تخت کابل سے دستبردار ہوا اور ہند میں بھیج دیا گیا۔
ساتویں وائسرائے لارڈ رپن نے جو 1880ءمیں آئے جنگ افغانستان ثانی کا خاتمہ کیا۔ یعقوب خاں کے چھوٹے بھائی ایوب خاں نے تخت کابل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی مگر جنرل رابرٹس جو بعد میں لارڈ رابرٹس ہوئے، کابل سے کوچ کر کے قندھار پہنچے اور ایوب خاں کو بھگا دیا۔ افضل خاں کا سب سے بڑا بیٹا عبدالرحمن خاں تخت کا حقدار وارث تھا۔ وہ انگریزوں کا دوست ہونے کے سبب سے افغانستان کا امیر بنایا گیا۔ اس نے استقلال اور خوبی کے ساتھ حکومت کی۔ 1901ءمیں عبدالرحمن نے وفات پائی اور اس کا بیٹا حبیب اللہ خاں اس کا جانشین ہوا۔ 1919ءکے آغاز میں اس کو افغانوں نے قتل کر دیا اور اس کا تیسرا بیٹا سردار امان اللہ خاں امیر ہوا۔
لارڈ رپن 1884ءمیں ولایت کو واپس گئے۔ وہ اہل ہند پر بڑے مہربان تھے اور یہ بھی ان پر جان قربان کرتے تھے۔ انہوں نے ایسے قانون وضع کیے جن کی رو سے مقامی امور کے سرانجام کے لیے بڑے بڑے شہروں اور قصبوں کے لوگ اپنے یہاں کے لوگوں ہی کو منتخب کرتے ہیں۔ گویا ایک قسم کی حکومت کرتے ہیں۔ لارڈ رپن نے غیر سرکاری مدرسوں کو امداد دینے کا سلسلہ جاری کیا یعنی ان کے خرچ کے لیے کچھ روپیہ دینا منظور کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر جگہ بہت سے مدرسے جاری ہو گئے۔ ہند کی اشیائے درآمد پر اب تک جو محصول لگائے جا چکے تھے۔ لارڈ رپن نے تقریباً کل موقوف کر دیئے۔ اس سبب سے ان چیزوں کا نرخ بہت ارزاں ہو گیا اور تجارت میں بڑی ترقی ہوئی۔(جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔