وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے خلاف درخواستیں منظور ، لاہور ہائیکورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کر دیا
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )لاہور ہائیکورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے انتخاب کے خلاف تحریک انصاف کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے تحریری فیصلہ جاری کر دیاہے ۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس صداقت علی خان،مسٹرجسٹس شاہد جمیل خان، مسٹرجسٹس شہرام سرور چودھری، مسٹرجسٹس محمد ساجد محمود سیٹھی اور مسٹرجسٹس طارق سلیم شیخ پرمشتمل فل بنچ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے 16اپریل کو ہونے والے انتخاب میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور دوسری رائے شماری کے ذریعے انتخابی عمل مکمل کرنے کاحکم دے دیا،فاضل بنچ نے گورنر پنجاب کواس بابت آج یکم جولائی کو شام 4بجے پنجاب اسمبلی کااجلاس طلب کرنے کا حکم دیاہے،جس کی صدارت ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کریں گے،اس دوران حمزہ شہباز وزیراعلیٰ کے طور پر برقراررہیں گے تاہم انتخابی عمل کے نتیجہ میں اگر وہ منتخب نہیں ہوپاتے تو انہیں فوری طور پر یہ عہدہ چھوڑنا ہوگا،عدالت نے یہ فیصلہ اکثریت رائے سے جاری کیاہے۔
مسٹرجسٹس محمدساجد محمود سیٹھی نے بنچ کے دیگر ارکان سے اختلاف کرتے ہوئے 16اپریل کے انتخابی عمل،حمزہ شہباز کی کامیابی اور حلف برداری کے نوٹیفکیشنز کوکالعدم کرتے ہوئے عثمان بزدار کومذکورہ تاریخ سے وزیراعلیٰ کے طور پر بحال کرنے کا فیصلہ سنایا تاہم فاضل جج نے فل بنچ کے دیگر ارکان کی طرح حمزہ شہباز اور ان کی کابینہ کے اقدامات کو ڈی فیکٹو ڈاکٹرائن کے تحت قانونی تحفظ فراہم کیا ہے،فاضل بنچ نے خبر دار کیا ہے کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد میں رکاوٹ پیدا کرنے والوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی،فاضل بنچ نے عدالتی کارروائی کو سکینڈلائز کرنے والے وی لاگرز کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دیاہے۔
فاضل بنچ نے قراردیاہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے نئے الیکشن کا حکم نہیں دیا جا سکتا،دوبارہ الیکشن کاحکم سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہو گا،ہم پریذائڈنگ افسر (ڈپٹی سپیکر)کے 16اپریل کے نوٹیفکیشن کو کالعدم بھی نہیں کر سکتے،اسی طرح حمزہ شہباز کے بطور وزیراعلیٰ حلف اٹھانے سے متعلق 30اپریل کے نوٹیفکیشن کو بھی منسوخ نہیں کیاجارہا،فاضل بنچ نے قراردیا کہ 16اپریل کو وزیراعلیٰ کے الیکشن میں حمزہ شہباز نے 197ووٹ حاصل کئے جن میں سے 25ووٹ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے تھے،سپریم کورٹ نے منحرف ارکان سے متعلق آئین کے آرٹیکل63(اے) کی تشریح کرتے ہوئے قراردیا کہ پارٹی ہدایات کے برعکس پڑنے والے ووٹوں کوشمار نہیں کیا جائے گا،اس لئے ان 25ووٹوں کو گنتی سے نکالنا ہوگا۔
عدالت نے قراردیا کہ ڈپٹی سپیکر ہی اجلاس کی صدارت کریں گے اور منحرف ارکان کے ووٹ نکال کر دوبارہ گنتی کریں گے،اس گنتی کے نتیجہ میں اگر کوئی امیدوار کل ارکان کی واضح اکثریت (186) ووٹ حاصل نہیں کرسکے گا تو پھر آئین کے آرٹیکل130(4)کے تحت دوبارہ رائے شماری ہوگی اور جس امیدوار کو حاضر ارکان کی اکثریت کی حمایت حاصل ہوگی وہ وزیراعلیٰ منتخب ہوجائے گا،عدالت نے مزید حکم جاری کیا ہے کہ گورنر پنجاب نئے منتخب وزیراعلیٰ کی حلف برداری اور اسمبلی کی کارروائی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے،گورنر انتخاب کے دوسرے دن (2جولائی) صبح11بجے سے پہلے نئے وزیراعلیٰ سے حلف لیں گے۔
فاضل بنچ نے قراردیا کہ ڈی فیکٹو ڈاکٹرائن کے تحت حمزہ شہباز اور ان کی کابینہ کے اب تک کئے گئے تمام اقدامات کو تحفظ دیاجاتاہے،فاضل بنچ نے مزید قراردیا کہ ہم اسمبلی کے مختلف اجلاسوں میں ہوانے والی بد نظمی کو نظر انداز نہیں کر سکتے،اگر اسمبلی اجلاس میں ہنگامہ آرائی یا بد نظمی ہوئی تواس کے ذمہ داروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی،عدالت نے قراردیاہے کہ انتظامیہ آئین کے تحت عدالتی فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانے کی پابند ہے،فاضل بنچ نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ کی تعریف کرتے ہوئے کچھ وی لاگرز کی طرف سے عدالتی کارروائی کو سکینڈلائز کرنے کا سخت نوٹس لیا ہے،عدالت نے ایف آئی اے اور پیمرا کو ہدایت کی ہے کہ متعلقہ وی لاگرز کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے،عدالت نے یہ بھی قراردیاہے کہ اگر ایسے وی لاگرز کا معاملہ عدالت کے سامنے اٹھایا جاتا ہے تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی بھی کی جائے گی،فاضل بنچ نے مختصر فیصلہ جاری کیا جس کی وجوہات تفصیلی فیصلے میں دی جائیں گی، عدالت کے سامنے مختلف اپیلوں اوردرخواستوں میں اٹھائے گئے4معاملات تھے جن میں سے ایک اپیل وزیراعلیٰ کے الیکشن کے لئے اسمبلی اجلاس طلب کرنے کے عدالتی حکم کے خلاف تھی،دوسری اپیل میں ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا جس میں فاضل جج نے سپیکر قومی اسمبلی کو حمزہ شہباز سے وزارت اعلیٰ کا حلف لینے کاحکم جاری کیا تھا، تیسرا معاملہ 16اپریل کوحمزہ شہباز کووزیراعلیٰ منتخب کرنے والی اسمبلی کارروائی کے خلاف تھا کہ یہ کارروائی غیر قانونی تھی جبکہ چوتھا معاملہ سپریم کورٹ کے آرٹیکل63(اے) کی تشریح کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق تھا اور درخواست گزاروں کا موقف تھا کہ منحرف ارکان کے ووٹ شمار نہیں کئے جاسکتے اس لئے یہ الیکشن کالعدم کیا جائے۔
فاضل بنچ نے صرف آخری استدعا کی حد تک درخواستیں منظور کی ہیں جبکہ دیگر تمام استدعاؤں کی حد تک درخواستیں اور اپیلیں مسترد کردی ہیں جبکہ مسٹرجسٹس محمد ساجدمحمود سیٹھی نے بنچ کے اکثریتی ارکان سے اتفاق نہیں کیا اور درخواستیں منظور کرنے کی بابت اپنا الگ مختصر فیصلہ جاری کیا۔
یادرہے کہ آئین کے آرٹیکل130(4)کے تحت اگر وزارت اعلیٰ کا کوئی امیدوار کل ارکان کی اکثریت (186ووٹ)حاصل نہ کرسکے تو پھر سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو امیدواروں کے درمیان دوسری انتخابی رائے شماری ہوگی اورجس امیدوار کو حاضر ارکان کی اکثریت کی حمایت حاصل ہوجائے وہ وزیراعلیٰ منتخب ہوجائے گا۔