نجم سیٹھی اور تاریخ....!

نجم سیٹھی اور تاریخ....!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمیں ہی نہیں------ پوری میڈیا برادری اور سول سوسائٹی کو اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ سینئرصحافی‘ دانشور، تجزیہ کارنجم سیٹھی سب سے بڑے صوبے کے نگران وزیر اعلیٰ چنے گئے ہیں۔ حسب توقع نجم سیٹھی نے بھی اپنے منصب کی اہم مگر نازک ذمہ داریوں کی ابتدا اس واشگاف اعلان سے کی کہ جب تک وہ اس منصب پر فائزہیں ،تب تک ان کا کوئی ذاتی تعلق دار، دوست ہے اور نہ ہی کوئی رشتے دار! ہمیں یقین ہے کہ نجم سیٹھی جیسے فہیم، مدبر اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن سرانجام دینے میں کامیاب رہیں گے- ہمیں ان سے بجا طورپر یہ توقع بھی ہے کہ وہ میڈیا اور پنجاب حکومت کے باہمی روابط کی بحالی و بہتری کو اولین ترجیحات میں شامل کریں گے، خصوصاً ملک کی63 فیصد آبادی کو ابھی تک پرائمری تعلیم اپنی ماں بولی میں حاصل کرنے کا وہ بنیادی حق نہیں ملا، جو متفقہ قومی دستور 1973ءکے تحت دیگر تمام صوبوں کے عوام کو مل چکا ہے-اسی طرح کا سلوک پنجابی میڈیا کے ساتھ بھی روا رکھا گیا-

گزشتہ 5برس پنجابی میڈیا کے لئے قیامت سے کم نہیں تھے۔صوبے کے چیف ایگزیکٹو نے اپنی پارٹی کے ایک رہنما کے قریبی عزیز کی ذاتی خواہش پر پنجابی میڈیا کو اس کے بنیادی صحافتی حق سے جبری طور پر محروم رکھا- یہ معاملہ پنجاب کے عوام میں بے چینی پیدا کرنے کا سبب بنا اور ان کا احساس محرومی بڑھا- پنجابی زبان کے متعدد اخبارات و جرائد محض ایک شخص کی ناجائز ضد کے باعث معاشی گھٹن سے اپنی اشاعت جاری نہ رکھ سکے اور ہزاروں صحافتی کارکن بے روزگار ہوگئے- گزشتہ 23برس سے باقاعدہ اشاعت جاری رکھنے میں کامیاب واحد پنجابی اشاعتی ادارہ پنجابی میڈیا گروپ کے اخبارات و جرائد بھی اپنا سٹاف کم کرنے، سہولتیں بند کرنے اور دیگر گوناگو مشکلات سے دوچار ہو کر جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کے باعث ہونے والا مسلسل خسارہ برداشت سے باہر ہوچکا ہے۔ محترم نجم سیٹھی خود سینئر صحافی ،اشاعتی ادارے کے مالک و عملی منتظم ہونے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، وہ ان مشکلات کا حقیقی ادراک بھی رکھتے ہیں-

نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے نجم سیٹھی صاحب کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے اور وہ وعدہ ایفا کرنے کا موقع بھی مل رہا ہے، ان سے بہتر اس کا پس منظر اور کون جانتا ہے کہ جب ن لیگی رہنما کے قریبی عزیز ڈی جی پی آر پنجاب بنے تو انہوں نہ نجانے کس پاداش میں پنجابی میڈیا کے لئے سرکاری اشتہارات کے مختص کردہ پانچ فیصد کوٹے پر پابندی عائد کردی۔ پنجابی صحافت پر اس کاری ضرب کے خلاف نمائندہ صحافتی تنظیموں نے صدائے احتجاج بلند کی، ایک عرصے تک پنجاب بھر میں احتجاج جاری رہا ،مگر حکمرانوں کی قربت کے باعث مذکورہ بیوروکریٹ کی ذاتی ضد جیت گئی اور مسلسل 5 برس سے تاحال پنجابی میڈیا کی یہ جبری حق تلفی جاری ہے-
محترم نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ جب متاثرہ پنجابی جرنلزم صوبے بھر میں اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہا تھا تو متحدہ ایکشن کمیٹی کی جانب سے دیگر اخبارات و جرائد کے ساتھ ساتھ ہفت روزہ ”فرائیڈے ٹائمز“ کو بھی احتجاجی مواد پر مبنی ایک اشتہار اشاعت کے لئے مع چیک بھجوایا گیا۔ موصوف نے صوابدیدی اختیارات کے تحت وہ اشتہار شائع نہیں کیا، تاہم اس زیادتی پر اظہار افسوس، پنجابی میڈیا سے اظہار یکجہتی اور صوبے کے چیف ایگزیکٹو میاں شہبازشریف سے بات کرکے یہ معاملہ حل کرانے کا وعدہ ضرور کیا- ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ انہوں نے چیف ایگزیکٹو پنجاب کے سامنے یہ معاملہ لازمی طور پر اٹھایا ہوگا ،لیکن سبھی جانتے ہیں کہ وہ حکمران اپنی طرز کے نرالے اور بادشاہ ہیں ،کسی کی سنتے ہی کب ہیں؟

پورے پنجاب کے باسیوں کو محترم نجم سیٹھی سے یہ قوی امید ہے کہ وہ63 فیصد سچے، کھرے اور محب وطن پاکستانیوں کو1973ءکے آئین کے تحت دیگر صوبوں کی طرح بنیادی تعلیم اپنی ماں بولی میں حاصل کرنے کا حق ضرور دلوائیں گے، ہم اس لئے بھی پُرامید ہیں کہ یہ بھاری پتھر ہٹانا کسی مصلحت پسند انسان،کسی سیاستدان یا فوجی حکمران کے بس کی بات ہی نہیں، اللہ غریق رحمت کرے محترم حنیف رامے بھی پنجاب کا مقدمہ اردو میں لکھنے اور بطور سپیکر پنجاب اسمبلی رکن اسمبلی عبدالرشید بھٹی کو ماں بولی پنجابی میں بات کرنے کی پاداش میں بذریعہ سیکیورٹی باہر پھینکوانے پر مجبور ہوگئے تھے، یہ کام اگر کوئی کرسکتا ہے تو وہ صرف نجم سیٹھی جیسے حق گو‘ حق شناس اور زندہ ضمیر لوگ ہی کرسکتے ہیں، جنہیں تاریخ میں زندہ رہنا ہے- ٭

مزید :

کالم -