ترکی میں حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ؟

ترکی میں حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ترکی میں وقتاً فوقتاً مقامی حالات اور ایشوز پر سروے ہوتے رہتے ہیں۔ ان سرویز کے ذریعے جہاں حکومتی کارکردگی کا اندازہ ہوتا رہتا ہے وہاں عوامی موڈ، رائے اور انداز فکر کا پتہ بھی چلتا ہے۔ ان بامقصد سرویز کے بہت سے فوائد ہیں، عوام اور حکومت دونوں کے لئے یہ یکساں اہم ہیں.... آج کل ترکی کے اندرونی حالات خاصے موضوع بحث بنے ہوئے ہیں اور مقامی سیاست ، عوام اور میڈیا میں ان کی وجہ سے کافی ہلچل ہورہی ہے ۔ آج کل جو موضوعات گرم ہیں، ان میں اگلے سال یعنی 2015ءمیں ہونے والے براہ راست صدارتی انتخابات اور صدارتی امیدواروں کا انتخاب ، حکومت کے خلاف کرپشن، غبن، اقرباءپروری اور رشوت کے الزامات ،حکومت کی عدلیہ کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوششیں، زیرحراست جرنیل، جج ،جرنلسٹ اور ان کا دوبارہ ٹرائل، میڈیا پر حکومتی دباﺅ، پولیس آفیسر، بیوروکریٹ، عدلیہ کے پراسیکیوٹروں اور ججوں کے تبادلے اور ان کی جبری برطرفی وغیرہ وغیرہ، ان موضوعات پر تازے سرویز شائع ہوئے ہیں۔
 آئیے ان سرویز کے نتائج پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ یہ بتاتے چلیں کہ یہ سروے ترکی کے ایک نامور ادارے جہان ویری ریسرچ سروس نے کئے ہیں ۔یہ ترکی کا ایک تحقیقی ادارہ ہے جو غیرجانبدارانہ سروے شائع کرنے کی شہرت رکھتا ہے۔ اس سروے کے مطابق 17دسمبر 2013ءسے حکومت کے خلاف شروع ہونے والے کرپشن، رشوت ، غبن ، اقربا پروری کے الزامات 60فیصد عوام کے مطابق درست اور سچ پر مبنی ہیں، نہ کہ حکومت کے خلاف کوئی سازش۔ 81فیصد ترک عوام کا کہنا ہے کہ وزراءکے بچے، اور اقرباءکرپشن اور رشوت کے الزامات میں ملوث ہیں اور ان کو سزاملنی چاہیے۔ 78فیصد عوام نے بعض وزراءپر رشوت اور کرپشن کے الزامات کے بعد اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کے فیصلے کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ ان الزامات کی وجہ سے ان کو مستعفی ہوجانا چاہیے تھا۔ 62فیصد عوام کا کہنا ہے کہ حکومت کو عدلیہ، ججوں اور پراسیکیوٹروں کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوششیں ترک کردینی چاہیے اور عدلیہ اور ججوں کو آزادانہ کام کرنے دیا جائے۔ 62فیصد عوام نے حکومت کی طرف سے ججوں، پولیس افسروں اور اعلیٰ بیوروکریٹس کو جبری طورپر ریٹائرکرنے یا تبادلوں کو ناپسند کیا ہے اور حکومت کی ان کوششوں کی مخالفت کی ہے۔ 66فیصد ترکوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو پرائیویٹ ٹیوشن سنٹر اور اکیڈمیاں بند نہیں کرنی چاہئیں، کیونکہ یونیورسٹیوں میں داخلوں کے لئے ان اکیڈیموں کی بہت اہمیت اور کردار ہے۔
جب لوگوں سے یہ پوچھا گیا کہ اگر ترکی میں اس اتوار کو عام انتخابات منعقد ہوں تو وہ کِس جماعت کو اپنا ووٹ دینا پسند کریں گے توآق پارٹی 38فیصد ،جمہوری خلق پارٹی 27فیصد ،ملی خلق پارٹی 19فیصد اور پیس اینڈ ڈیموکریٹ پارٹی 8فیصد لوگوں کا انتخاب ہے۔ اس سروے کے مطابق برسراقتدار پارٹی 10فیصد ووٹ کم لے رہی ہے ،اس کا مجموعی ووٹ بینک کم ہوا ہے اور مخالف اپوزیشن جماعتوں کا ووٹ بینک قدرے بہتر ہوا ہے۔ اس سروے کے مطابق 53فیصد عوام کا کہنا ہے کہ حکومت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مذہبی جماعتوں اداروں اور شخصیات کو ٹارگٹ نہیں بنانا چاہیے اور ان کی آزادی اور بنیادی حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔
ترکی میں اگلے سال یعنی 2015ءمیں صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں اور ملکی تاریخ میں پہلی بار صدر کا انتخاب براہ راست عوام کریں گے،یعنی ترکی میں نظام حکومت پارلیمانی سے امریکہ طرز پر صدارتی ہورہا ہے۔ ان انتخابات میں ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان چونکہ تین مرتبہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد اب چوتھی مرتبہ وزیراعظم نہیں بن سکتے، لہٰذا وہ اپنی پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار کے طورپر سامنے آرہے ہیں۔ عوام رجب طیب اردگان کی بجائے موجودہ صدر عبداللہ گل کو زیادہ بہتر اور موزوں امیدوار خیال کرتے ہیں۔ 47فیصد عوام دوبارہ عبداللہ گل کو ترکی کا صدر دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ عوام کی نگاہ میں رجب طیب اردگان اس عوامی سروے میں صرف ساڑھے 17فیصد عوامی تائید حاصل کرتے نظر آتے ہیں۔ 71فیصد ترک عوام کا خیال ہے کہ موجودہ ترک صدر عبداللہ گل کو ترکی کو موجودہ بحران سے نکالنے میں زیادہ متحرک کردار ادا کرنا چاہیے۔
55فیصد عوام کا کہنا ہے کہ حکومت کے خلاف سازش میں ترک اسلامی سکالر محمد فتح اللہ گلن ملوث نہیں ، جبکہ 41فیصد عوام کا کہنا ہے کہ خدمت یا گلن تحریک ایک فلاحی، رفاہی اور مثبت فائدہ مند سماجی اور تعلیمی تحریک ہے جس کا مقصد علاج انسانیت ہے اور یہ ترکی کی خوش حالی اور ترقی کے لئے کام کررہے ہیں۔ 46فیصد ترک عوام کا کہنا ہے کہ خدمت یا گلن تحریک ترکی کی تمام مذہبی اور تعلیمی میدان میں کام کرنے والی جماعتوں سے بہتر کام کررہی ہے۔ یہ ایک تعلیمی تحریک ہے اور تعلیم کے فروغ کے لئے اس کا کردار بہت مثبت اور بہتر ہے۔ ترکی کے وزیراعظم کی طرف سے محمد فتح اللہ گلن اور ان سے منسوب گلن یا خدمت تحریک کے بارے میں سخت ریمارکس ، بیانات اور لب ولہجے کو بھی ان کی اپنی جماعت سمیت دیگر جماعتوں نے بھی پسند نہیں کیا ۔ ان کی اپنی جماعت یعنی آق پارٹی کے 38فیصد اور اپوزیشن جماعت ملی خلق پارٹی کے 33فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ گلن تحریک یا خدمت تحریک ایک مثبت اور فلاحی تحریک ہے۔ 33فیصد عوام ترک پولیس پر اعتماد کرتے ہیں، 31فیصد عدلیہ اور 31فیصد صدر پر اعتماد کرتے ہیں۔ 28فیصد عوام کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت غلط طریقے سے معاملات کو ہینڈل کررہی ہے اور حالات پر کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہورہی ۔ 66فیصد عوام حکومت کی پرائیویٹ ٹیوشن سنٹرز اور اکیڈیمیوں کو بند کرنے کی کوششوں کے خلاف ہیں۔ عوام کا خیال ہے کہ یہ ادارے یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کے لئے فائدہ مند ہیں۔
جب ترک عوام سے یہ سوال پوچھا گیا کہ ترکی موجودہ گھمبیر حالات سے کیسے باہر نکل سکتا ہے ؟ تو اس سوال کے جواب میں 71فیصد عوام کا کہنا ہے کہ ترکی کو موجودہ حالات سے باہر نکالنے کے لئے ترک صدر عبداللہ گل کو زیادہ متحرک ہونا پڑے گا۔ 72فیصد عوام کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات سے نکلنے کے لئے عدلیہ ، پولیس اور غیرجانبداراداروں کو آزادی سے اپنا کام کرنے دیا جائے۔ 60فیصد عوام کا کہنا ہے کہ پولیس کو آزادانہ طورپرتفتیش کرنے دی جائے اور ان کے کام میں حکومتی مداخلت نہ ہوتو حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ 36فیصد عوام کا خیال ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد جلد کروایا جائے تو یہ ملک کے لئے بہتر ہوگا۔ 50فیصد ترک عوام اپنے صدر پر، 31فیصد حکومت اور پارلیمنٹ پر، 28 فیصد لوگ اعتماد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت پر عوامی اعتمادکم ہوا ہے اور اس کی نسبت میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں پر عوام کا اعتماد قدرے بڑھا ہے۔
اس سروے میں یہ بتایا گیا ہے کہ حکومت تعلیم اور معاشی میدان میں قدرے ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ یہ دوسیکٹر اور شعبے تنزلی کی جانب جارہے ہیں۔ 25فیصد عوام معاشی ناکامی اور 24فیصد ترک عوام کا کہنا ہے کہ حکومت تعلیمی میدان میں ناکام ہوئی ہے۔ 24فیصد عوام نے حکومتی خارجہ پالیسی کی ناکامی قرار دیا ہے۔ بظاہر ان سرویز کے نتائج سے حکومت اپنی ساکھ کھوتی نظر آتی ہے اور اس کے اہم اسباب میں سے حکومت پر کرپشن رشوت، غبن ، اقرباءپروری، عدلیہ کو کنٹرول کرنا اور پولیس آفیسرز کے تبادلے اور جبری رخصتی جیسے سنگین الزامات ہیں۔ حکومت اور برسراقتدار پارٹی کے ان الزامات کی وجہ سے ووٹ بھی خاصے کم نظر آرہے ہیں اور اپوزیشن جماعتوں اور میڈیا پر عوامی اعتماد بڑھا ہے۔ اس سروے کے نتائج سے آپ اتفاق کریں یا نہ کریں، ایک بات صاف نظر آرہی ہے کہ ترکی میں حالات مثالی نہیں ہیں اور ترکی کا وہ امیج جواسلامی دنیا اور بین الاقوامی سطح پر کچھ مثبت بنا تھا، اب اس پر بھی سوال اور انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔ بطور ایک ہمدرد پاکستانی شہری کے ہم سب کی خواہش ہے کہ ترکی میں حالات جلد بہتر اور معمول پر آئیں اور یہ دوبارہ ٹریک پر آجائے ،اس سلسلے میں اس ماہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات اور اگلے سال ہونے والے براہ راست صدارتی انتخابات اور اس کے نتائج بہت اہمیت رکھتے ہیں جوترکی اور ترک عوام کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ ہمیشہ کی طرح ہماری نیک خواہشات ترک عوام کے ساتھ ہیں اور رہیں گی۔ ٭

مزید :

کالم -