’بھرا جی ، انگریزی نئیں آﺅندی‘

’بھرا جی ، انگریزی نئیں آﺅندی‘
’بھرا جی ، انگریزی نئیں آﺅندی‘
کیپشن: shahid malik

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 کوشش تو کی کہ کالم کا عنوان ذرا باوقار سا ہو جائے ، لیکن ’انگریزی نئیں آﺅندی ‘ کا کوئی بے ساختہ متبادل مل نہیں سکا ۔ یہ تاریخی الفاظ ایک ایسے پڑھے لکھے دوست کے ہیں جن کے پورے کوائف سن کر آپ حیرت میں ڈوب جائیں گے ۔ ایف سی کالج ، لاہور سے بھلے وقتوں میں ریاضی اور فزکس میں ایم ایس سی ، وفاقی محکمہ ءتعلیم میں پروفیسر اور پھر ایک دو نہیں ، چار الگ الگ ڈگری کالجوں کے پرنسپل عبید اللہ خاں ۔ انسانی معاملوں میں سوچ ایکدم اوریجنل ، تدریسی مہارت اعلی پائے کی اور شخصیت ایسی باغ و بہار کہ اگر کسی نے یونیورسٹی امتحانات میں ذاتی ڈویژن پوچھ لی تو خاں صاحب نے فخر و حیرت سے کہا ’اوہو ، وہی فرسٹ کلاس جو غریبوں کی ہوا کرتی ہے ‘ ۔ کامپلیکس ایک ہی تھا ، اس لئے عمر میں چودہ پندرہ سال کے فرق کے باوجود جب ملے قریب آ کر یہی کہا ’بھرا جی، انگریزی نئیں آﺅندی‘ ۔
 واہ کے کالج میں ہماری آرٹس کی کلاس کا اجرا ہوا تو عبید اللہ خاں وائس پرنسپل کے طور پر ہمارے استاد ہی سمجھے گئے ، پر مجھ سے نالاں کہ میٹرک میں اچھے نمبر حاصل کر کے ہسٹری ، سوکس اور اکنامکس پڑھنا ان کے نزدیک احمقانہ حرکت تھی ۔ ایک دن آپ نے شوکت نواز کے ہارمونیم اور میرے گھڑے کی سنگت میں اردو کے استاد عارف منان کی گائیکی کا سوﺅ موٹو نوٹس لے لیا ۔ مجھے کلاس سے نکلتا دیکھ کر سب کے سامنے بولے ’ سارا دن گانا بجانا ۔ آرٹس رکھ کر بی اے کر بھی لیا تو آگے کرو گے کیا؟‘ ۔ میں نے کہا کہ ایم اے ۔ ’اچھا تو ایم اے کر کے کیا ملے گا ‘ ۔ ’آپ کی طرح ساڑھے تین سو ماہوار پہ لیکچرار ہو جائیں گے‘ ۔ پنجابی میں کہنے لگے ’تہانوں کون لیکچرر رکھے گا جنہاں دی عقل گٹیاں وچ اے؟ ‘ ۔ ’جناب نوں وی تے کسے نے رکھ ای لیا سی‘ میں یہ کہے بغیر نہ رہ سکا ۔

 کہتے ہیں ولی کو ولی پہچانتا ہے ۔ اس سوال جواب سے عبیداللہ خاں نے حساب لگایا کہ یہ تو اپنا ہی آدمی ہے ۔ کچھ ہمسائیگی کا پاس بھی تھا ۔ اس لئے ہم گھر کے آس پاس یا کالج گراﺅنڈ میں کرکٹ میچ کھیل رہے ہوتے تو کبھی کبھار آکر دیکھنے لگتے ۔ بعض اوقات ایک آدھ جملے کا تبادلہ بھی ہو جاتا ، لیکن اکثر و بیشتر ضرورت سے زیادہ کھلے ڈلے انداز میں ۔ جیسے میرے چھوٹے بھائی نے بتایا کہ ایک دن کلاس روم میں چند چھپکلیوں کے علاوہ ایک بھڑ بھی دکھائی دے گئی تو ایک اردو اسپیکنگ طالب علم کو چھیڑنے کے انداز میں کہنے لگے ’میاں ، تمبوڑی آگئی ہے ۔ بلوچ رجمنٹ کو بلائیو‘ ۔ اسی طرح اپنی بجائے ائر فورس کے ایک افسر کی بطور پرنسپل تقرری پر احتجاج کرنے کے لئے ان کے دفتر کے باہر کھڑے ہو جاتے اور بظاہر ہوا کو مخاطب کر کے زور زور سے کہا کرتے ’یا اللہ ، ظالموں سے نجات دے‘ ۔
 مزیدار واقعات کی یہ فہرست اتنی لمبی ہے کہ ذرا سے مبالغہ سے کام لوں تو اچھی خاصی ڈرامہ سیریل تیار ہو جائے ۔ پھر بھی جب ’انگریزی نہیں آتی کا نیا نیا ورد شروع ہوا تو میں ایم اے کر کے برطانوی سفارتخانہ میں انٹرپرٹر تھا اور خاں صاحب پرنسپل شپ کی اڑان بھرنے کے لئے سینیارٹی کے پر پھیلا رہے تھے ۔ اچھا تو پہلی بار تاریخی الفاظ کب اور کہاں سنے ؟ وسط رمضان کے دن ، افطار سے آدھ گھنٹہ پہلے کا وقت ، واہ کی مال روڈ پہ شیر شاہ سوری کی بنوائی ہوئی لوسر باﺅلی کے پاس فوک میوزک کے انداز میں علیک سلیک کا لوک انداز’ سلاما لیکم‘ ۔ ۔ ۔ اس کے ساتھ ہی کمال گرمجوشی سے دعوت کہ بھرا جی ، روزہ میرے ساتھ کھولیں ۔ کئی قسم کے پھل ، دو تین طرح کے کھانے ، سویٹ ڈش ، چائے ۔ کھانے کا دور ختم ہوتے ہی بھر پور التجائیہ لہجہ میں پہلی بار یہ سوال ’بھرا جی ، انگریزی نئیں آﺅندی‘ ۔
 چونکہ کالج کے سربراہ کی حیثیت سے گلشن کا کاروبار تو انگریزی میں چلانا مقصود تھا ، اس لئے عہدہ سنبھالنے کے لئے مطلوبہ لسانی مہارت ضروری تھی ۔ پر بیچ میں ایک اور پیچیدگی آن پڑی ۔ جو لوگ سرکاری نوکری کا تجربہ رکھتے ہیں ان کے لئے کوئی بھی دستاویز سالانہ خفیہ رپورٹ سے زیادہ اہم نہیں ہوتی ۔ پروفیسر عبید اللہ خاں کا چودہ سالہ نامہ ءاعمال تھا تو کسی بھی گناہ کبیرہ سے پاک اور ان کے طلبہ کے امتحانی نتائج بھی شاندار ۔ پھر بھی پیشرو پرنسپل نے ، جو خاصے شریف آدمی تھے ، قلم کی مار مارتے ہوئے آخری رپورٹ میں امیدوار کی فرائض میں عدم دلچسپی کو بنیاد بنا کر لکھ دیا کہ ابھی پروموشن نہیں ہونی چاہئیے ۔ اس پہ خاں صاحب نے خواہش کی ’بھرا جی ، اس کا جواب ایسی انگریزی میں دیں کہ پڑھ کر ڈائرکٹر کا دل موم ہو جائے ‘ ۔ میں نے بساط بھر کوشش کی اور ڈائرکٹر کا دل موم ہو گیا ۔
 نئے عہدے پہ فائز ہوتے ہی نہ تو کوئی انتظامی مشکلات پیدا ہوئیں اور نہ تدریسی مسائل ، بلکہ وزیر مملکت کا دل موم کرنے کے لئے ایک چٹھی لکھوا کر اضافی بجٹ کے بغیر اپنے ادارے کو ڈگری کالج بنانے کے احکامات بھی جاری کروا لئے ۔ زبان کے بارے میں البتہ عجیب و غریب باتیں ضرور پوچھتے رہتے ۔ جیسے ’دور یا عہد‘ کی انگریزی کیا ہے ؟ میں نے کہا کہ یہ کس لئے ۔ فرمایا ’تقریر میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے اس درسگاہ میں ایک نیا دور شروع کیا ہے ‘ ۔ یا یہ سوال کہ کسی کی چھٹی کی درخواست پہ کیا لکھنا چاہئیے ، میں نے کہا لکھیں ’اجازت ہے‘ ۔ بولے ’اسپیلنگ کا مسئلہ ہو گا‘ ۔ ’ اچھا تو صرف ’یس‘ لکھ دیا کریں ‘ ۔ اس ’مشکل کشائی‘ پہ اتنے خوش ہوئے کہ چائے اور برفی منگوائی اور اپنی گھومنے والی کرسی خالی کر کے مجھے اس پہ بیٹھنے کا حکم دیا اور کہا ’بھرا جی ، گھما کر دیکھیں‘ ۔ پھر پوچھا ’مزا آیا جے؟‘ ۔
 اب یہ پڑھ کر آپ کی ہنسی نکل جائے گی کہ بھائی عبید اللہ تو یونہی انگریزی کے معاملہ پر ایک عام پاکستانی کے پیدائشی کامپلیکس کی علامت بن گئے ، وگرنہ میرا ارادہ تو اپنے ملک میں انگریزی کے حال اور مستقبل ، تدریسی مسائل اور اساتذہ کی تربیت پہ لکھنے کا تھا ، جس پہ برٹش کونسل پاکستان کا سہ روزہ پالیسی ڈائیلاگ کراچی سے شروع ہو کر لاہور کے راستے اسلام آباد پہنچ کر اختتام پذیر ہوا ۔ ساتھ ہی یہ سوالات کہ کیا انگریزی کو اردو کی جگہ ابتدا ہی سے ذریعہ ءتعلیم ہونا چاہئیے ، قومی اور مادری زبانوں کو نصاب میں کون سا مقام دیا جائے اور کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی ظاہری یا خفیہ لینگویج پالیسی معاشرے کو جوڑنے کی بجائے سماجی تقسیم کے عمل کو تیز تر کر رہی ہے ۔ عارف وقار نے بی بی سی اردو آن لائن پہ ان مکالمات افلاطوں کا خلاصہ بھی کر دیا ہے تاکہ ’انگریزی نئیں آﺅندی‘ والوں کا بھلا ہو جائے۔

 خوش آئند پہلو یہ ہے کہ تینوں اجلاس دیکھنے اور سننے کے بعد ، جن میں پیشہ ورانہ ضرورت کے تحت میں نے اپنے حق خاموشی کو آزادی ءاظہار کا حصہ سمجھا ، دو بنیادی نکتے ایسے تھے جن پہ کم و بیش ہر کسی کو متفق پایا ۔ ایک تو یہ کہ انگریزی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ دوسرے ، چونکہ مادری زبان آدمی کے ورلڈ ویو اور تشخص سے جڑی ہوتی ہے ، اس لئے نہ تو انگریزی ہماری اپنی زبانوں کی جگہ لے سکتی ہے اور نہ اسے ابتدائی جماعتوں میں ذریعہ تعلیم ہونا چاہئیے ۔ لطف یہ ہے کہ جاوید جبار اور غازی صلاح الدین جیسے خوش گو دانشور وں سے لے کر پروفیسر طارق رحمان اور ڈاکٹر شاہد صدیقی جیسے آزاد رو محققین اور پروفیسر کرس کینیڈی ، جان میک گوون ، سٹیفن رومن اور رچرڈ وائرز ، سبھی نے اس پہ تقریباً ایک ہی جتنا زور دیا ، اور نیم دیہی اساتذہ کے ہمراہ ’بر گر جنریشن‘ نے یکساں طور پہ داد دی ۔
 آپ پوچھیں گے کہ تم نے خود تین دن چپ رہ کر کیسے گزارے ۔ جواب ہے کہ میں اچھے اچھے دانے تلاش کرتا رہا ۔ مثلاً برٹش کونسل ڈائیلاگ کے ناظم بلال احمد کے انسانی ، انتظامی اور علمی اوصاف کا قائل تو تھا ہی ، لیکن ڈائرکٹر آف انگلش پروگرام مسرت شاہد کی سورت الرحمان کی تلاوت تو گویا ساری کارروائی کو ’مشرف بہ اسلام‘ کر گئی ۔ بیچ میں پاکستانی انگلش کی مثالوں کے لئے میں نے ڈائرکٹر پروگرامز ٹونی جونز کے ساتھ قلمی ’اکھ مٹکا‘ بھی کیا ۔ نمونہ ¾ کلام کی بات کروں تو کئی سیپیوں میں موتی بنا ڈھونڈے مل گئے ۔ ملاحظہ ہو ’انگلش ہمارے سر کا تاج ہے اور پاﺅں کی زنجیر بھی‘ غازی صلاح الدین ۔ ’ زبان کے مسئلہ پر کیا پالیسی میکر ، پالیسی میکر لگا رکھی ہے ۔ یہ تو پتا کرو کہ پالیسی میکر ہے کون؟ ‘ جان میک گوون ۔ ’اردو انگریزی جوڑ بندی کو برا نہ کہو ۔ ۔ ۔ امیر خسرو ’زحال مسکیں مکن تغافل‘ جیسی غزل میں ہندی اور فارسی کی کوڈ سوئچنگ نہ کرتے تو اردو شائد وجود میں نہ آتی ‘ ۔
 پالیسی ڈائیلاگ میں پاکستان میں انگریزی کی صورتحال پر جس ریسرچ کی جھلکیاں پیش کی گئیں اس کی تفصیل آئندہ ماہ منظر عام پہ آنے والی ہے ۔ لیکن وہ جو اقبال نے کہا تھا کہ ’آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ‘ ۔ تو ، جناب ، میں نے آئینہ ایام میں نئے پاکستان کے جو چہرے دیکھے وہ ہم جیسے بابوں اور بابیوں سے کہیں شاداب تر ہیں ۔ آخری اجلاس میں میری دریافت ہیں پینل کے دو سب سے کم عمر ارکان ، ندین ممتاز اور بلال تنویر ۔ چھوٹے بچوں کے ایک منفرد اسکول کی سربراہ ندین نے یہ انکشاف کر کے مجمع لوٹ لیا کہ انگلش مادری زبان کی طرح سیکھ کر تیرہ چودہ سال کی عمر میں اردو پڑھنی شروع کی تو شدت سے احساس ہوا کہ یہ زبان ہمارے لئے کتنی ضروری ہے ۔ انگریزی ناول نگار اور مترجم بلال نے کہا کہ انگلش میرے فکری اظہار کا وسیلہ ہے اور اردو جذباتی اظہار کا ۔

 شاباش بچو ، یہ ہے سوچنے کا صحیح طریقہ ، مگر زبان کی بنیا د پر ایلیٹ جو محل ماڑیاں تعمیر کرنا چاہتی ہے ، انہیں دو منزلہ اور سہ منزلہ نہ ہونے دینا ، نہیں تو ایک دن یہ ملبہ تم پہ آ گرے گا ۔ اسی لئے تو جی سی یونیورسٹی کی پوسٹ گریجوایٹ اسٹوڈنٹ ماہ رخ چوہدری نے عوامی مقرر کے لہجہ میں لاہور کے اجلاس میں یہ کہہ کر بھونچال برپا کر دیا تھا کہ ذرا یہ تو بتائیے ، تعلیمی منصوبہ بندی ، نصاب سازی اور بجائے خود آج پالیسی ڈائیلاگ کے پینل میں طلبہ و طالبات کی نمائیندگی ہے کہاں ۔ ہر دو تین سال بعد بڑے بڑے فیصلے بدل جاتے ہیں اور طالب علم کو خبر نہیں ہوتی ۔ ’یو آر میسنگ اپ مائی انٹلیکٹ‘ ۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اس سوچ کی تضحیک نہیں ہونے دیں گے ، کیونکہ وہ دیکھئے ، مرحوم عبید اللہ خان جنت کی کھڑکی سے ماہ رخ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ’بھرا جی ، اینھاں نوں تے انگریزی وی آﺅندی اے۔ ٭

مزید :

کالم -