اقلیت کی ”جمہوریت“

مصر کی تاریخ کے پہلے باقاعدہ منتخب صدر محمد مرسی اس وقت جیل میں ہیں اور ان پر مختلف مضحکہ خیز الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ مخالف اُن پرالزام عائد کرتے تھے کہ وہ 52فیصد ووٹ لے کرکامیاب ہوئے ہیں، اس لیے انہیں اپنی سو فیصد مرضی سے حکومت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اُن کے مقابل احمد شفیق نے48فیصد ووٹ لئے تھے، لیکن جمہوریت چونکہ گنتی کا کھیل ہے، اس لیے وہ ناکام قرار پائے تھے۔ دنیا کے کسی ملک میں آج تک کوئی ایسا جمہوری تجربہ نہیں کیا گیا، جس میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا ناکام اور کم ووٹ حاصل کرنے والا کامیاب قرار پائے۔ دھاندلی کے ریکارڈ تو بہت قائم کیے گئے ہیں اور اس حوالے سے نت نئے تجربات مختلف ممالک میں کئے بھی جاتے رہے ہیں۔ مصر اُن ممالک میں بہت نمایاں رہا ہے، جن میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ”جھرلو“ پھرنا معمول کی بات تھی۔ یہاں صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے90فیصد سے زیادہ ووٹوں کا اہتمام بھی کر لیتے تھے۔ جما ل عبدالناصر سے لے کر انوار السادات تک، اور انوار السادات سے حسنی مبارک تک حسب توفیق ہاتھ کی صفائی دکھائی جاتی رہی۔ اولاً تو کسی کو مقابل آنے کی زحمت نہیں دی گئی اور اگر کبھی کبھار ایسا ہو گیا ، تو بھی صندوقچیوں کو عوام کی پہنچ سے دور ہی رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام بہرحال کیا جاتا رہا کہ نتیجہ جو بھی مرتب ہو، صندوقچیوں سے برآمد کی جانے والی پرچیوں کی بنیاد پر ہو اور انتہائی بھاری اکثریت سے مطلوبہ نتائج حاصل کئے گئے ہوں۔ مصر کے سابق فرعونوں میں سے کسی کو اس ابجاد کی نہیں سوجھی کہ52فیصد کو48فیصد سے زیادہ قرار دے لے اور یہ اعلان کرے کہ زیادہ ووٹ لینے والا، اپنی مرضی کے ساتھ حکومت نہیں کر سکتا۔ اسے ”ہماری“ مرضی بھی معلوم ہی نہیں، قبول کرنا پڑے گی اور اس میں اپنی مرضی شامل کرنا ہو گی، گویا ہارنے والوں کو جیتنے والا قرار دینا ہو گا۔
صدر مرسی نے آئین کے لئے ریفرنڈم کرایا اور اکثریت حاصل کر کے اُسے نافذ کرنے کا فیصلہ کیا، تو یہ طوفان اُٹھا دیا گیا کہ یک طرفہ آئین بنایا نہیں جا سکتا۔ اس استدلال میں وزن موجود تھا کہ آئین چونکہ ریاست کا ہوتا ہے، حکومت کا نہیں، اس لیے اس کی تکمیل میں سب سے مشورہ کرنا چاہئے اور ممکن حد تک اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر کوئی جماعت اپنی اکثریت کے بل پر آئین بنانے کی کوشش کرے گی اور دستور ساز اسمبلی کے اندر ( اور باہر) موجود قوتوں کو نظر میں نہیں رکھے گی، تو وہ عدم استحکام کو دعوت دے رہی ہو گی۔ پاکستان میں 1970ءکے عام انتخابات کے بعد عوامی لیگ نے دستوریہ میں عددی اکثریت حاصل کر لی تھی، لیکن اس کے تمام ارکان کا تعلق ایک صوبے، یعنی مشرقی پاکستان سے تھا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ دوسرے صوبوں کے نمائندوں سے بھی بات چیت کا اہتمام ہو اور وسیع تر اتفاق رائے کو آئین سازی کی بنیاد بنایا جائے، لیکن اس کے برعکس رویہ اختیار کیا گیا اور عوامی لیگ نے اپنے انتخابی منشور کا حلف اپنے تمام ارکان کو دلوایا کہ وہ اس سے ہرگز ہر گز دستبردار نہیں ہوں گے، گویا کسی افہام و تفہیم کی کوئی گنجائش باقی نہ رہنے دی۔ اس کے نتیجے میں وہ تصادم ہوا، جس نے ملک کو دو لخت کر دیا۔ مصر میں بھی وسیع تر اتفاق رائے کے حصول کی کوشش کی جانی چاہئے تھی، لیکن اس کا کیا علاج کہ اگر ”اقلیتی ووٹ“ کے حامل تلوار لے کر کھڑے ہو جائیں، کسی قسم کی ”ایڈجسٹمنٹ“ پر آمادہ نہ ہوں۔صدر مرسی کے مخالفین ”مرشد ِ عام کی بیعت نامنظور اور ”اخوان حکومت نامنظور“کے نعرے لگانے میں تو دلچسپی رکھتے تھے، لیکن تبادلہ خیال کرنے پر تیار نہ تھے۔ دستور کو اکثریت کے بجائے اقلیت کی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتے تھے۔انہوں نے ایسا اودھم مچایا کہ فوج کو دھم سے کودنے کا بہانہ ہاتھ آ گیا۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران 20ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ سینکڑوں شہری ہلاک کر ڈالے گئے ہیں۔ سینکڑوں خواتین قید خانوں میں ٹھونس دی گئی ہیں۔ درجنوں اخبار نویسوں پر مصر کی سالمیت کے خلاف سازش کرنے کے الزام میں مقدمے چلائے جا رہے ہیں، ان کے لئے جیلوں کو ”اسرائیلی ٹارچر سیل“ بنا ڈالا گیا ہے۔ چند ہی روز بیشتر ایک عدالت نے ایک پولیس والے کی ہلاکت کی پاداش میں529 افراد کو موت کی سزا دی ہے۔ ایک دن کی سماعت کے بعد تاریخ کا یہ انتہائی شرمناک فیصلہ سنایا گیا، قانون دان جس کی نظیر قانون کی کتابوں میں تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔ اخوان المسلمون کے مرشد ِ عام اور قومی اسمبلی کے سپیکر بھی اس سزا کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ دنیا بھر میں احتجاج کی لہر اُٹھی ہے، امریکہ بہادر کو بھی اس پر تشویش کا اظہار کرنا پڑا ہے کہ جمہوریت کی نقاب کو چہرے پر تو بہرحال ”اوڑھے“ رکھنا ہے، لیکن مصر کے نام نہاد جمہوریت پسند، جو مرسی کے خلاف مظاہرے کرتے اور ہنگاے اٹھاتے نہیں تھکتے تھے، اب اپنا سبق بھول گئے ہیں۔ انہیں اپنا کوئی مطالبہ یاد رہا ہے، نہ نعرہ۔52فیصد کو پھانسی دے کر سکون کیسے ہو گا؟ اور حکمران نیند کی چادر کیسے تان لیں گے، اس سوال کا سامنا کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔
عالم ِ اسلام میں جگہ جگہ اقلیت، اکثریت کو تہہ تیغ کرنے کے در پے ہے اور نام بھی جمہوریت کا استعمال کر رہی ہے۔ اگر یہ ”حق“ جمہوریت ہے تو صدر اوباما، اپنے ہارے ہوئے حریف رومنی کو اقتدار منتقل کیوں نہیں کرتے، اس کا حق تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا؟ مصر کا تجربہ ایک اور رنگ سے پاکستان میں دہرانے کی خواہش بھی موجود ہے۔ یہ درست ہے کہ یہاں اس کی کامیابی کے امکانات صفر ہیں۔ پاکستان کی فوج کا نظریاتی مزاج اور کردار مختلف ہے اور یہاں جمہوریت کی جڑیں بھی گہری اور مضبوط ہیں۔ یہاں ریفرنڈم کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے والے بخیرو خوبی تاریخ کے کوڑا دان میں محفوظ کئے جا چکے ہیں، سیاسی جماعتوں کی بھاری اکثریت جمہوریت پر عمل کرے یا نہ کرے،اسے ترک کرنے پر یقین نہیں رکھتی، لیکن یہاں اس قماش کے دانشور اور تجزیہ کار ضرور موجود ہیں، جو قوم کے اجتماعی افکار و جذبات سے کھیلتے اور شوشے اڑاتے رہتے ہیں۔ آئین میں (بار بار) طے کئے جانے والے امور کو از سر نو چھیڑتے اور وسوسے ڈالتے چلے جاتے ہیں۔ کوئی قائداعظمؒ کے نام پر تہمتیں لگاتا ہے، تو کوئی کسی ایک پیرا گراف کو ورق پر اور کسی ایک ورق کو کتاب پر بھاری قرار دیتا ہے۔ کسی ایک پڑاﺅ کو منزل سے برتر گردانتا ہے اور پوری قوم اور اس کی تاریخ کو اپنی مرضی کے تابع کرنے کے در پے ہے۔ پاکستان میں تو ان عناصر کو پتھر چاٹنا پڑیں گے ہی، مصر میں بھی ان پر پتھروں کی بارش ہو گی۔ وہ دن ضرور آئے گا، جب ”گینگ ریپ“ کے رسیا سنگسار کئے جائیں گے۔
(یہ کالم روزنامہ ” پاکستان“ اور روزنامہ ”دنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)