اب بے بنیاد قیاس آرائیاں ختم کر دیں
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (انٹر سروسز پبلک ریلیشنز) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ انتخابات کا اعلان فوج نے نہیں، الیکشن کمیشن نے کرنا ہے فوج کا ملکی سیاست، اٹھارہویں ترمیم، عدلیہ اور انتخابات سے کوئی تعلق نہیں، آرمی چیف نے کبھی نہیں کہا کہ اٹھارہویں ترمیم مجموعی طور پر اچھی نہیں، اِس ترمیم میں کئی معاملات کو ڈی سنٹرلائز کرنے سمیت کئی چیزیں اچھی ہیں اِس سے اچھی کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی کہ ہر صوبہ اپنے معاملات کا خود ذمہ دار ہو، لیکن انہیں اپنے فیصلے کرنے کے قابل بھی ہونا چاہئے۔تمام ادارے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں پاکستان اُس وقت مضبوط ہو گا جب ہر ادارہ آئین اور قانون کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کام کرے گا،انتخابات اور اس کا ٹائم فریم آئین میں ہے۔ اس میں تمام لوگوں کا کردار ہے انتخابات کے حوالے سے ہر وہ کام کریں گے، جو آئین کے تحت کہا جائے گا، الیکشن میں ایک دن کی تاخیر بھی نہیں چاہئے۔ سعودی عرب کے ساتھ دو طرفہ سیکیورٹی کا معاہدہ ہے اس باہمی معاہدے کے تحت ہی پاکستانی فوج وہاں جائے گی، سعودی عرب بھیجی جانے والی پاکستانی فوج یمن جنگ کا حصہ نہیں ہو گی، ہماری فوج صرف سعودی حدود کے اندر رہے گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی خواہش ہے کہ پاکستان اُس امن کی طرف چلا جائے جو تمام پاکستانیوں کی خواہش ہے اور یہی ’’باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ ہے اِس کا کچھ اور مطلب نہ لیا جائے۔انہوں نے اِن خیالات کا اظہار پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
میجر جنرل آصف غفور نے بہت تفصیل سے گفتگو کی ہے اور بہت سی ایسی باتوں پر دوبارہ اظہارِ خیال کیا ہے جن پر پہلے بھی فوج کا موقف معلوم و معروف ہے تاہم اس کے باوجود بعض حلقے اس پر ایسی گفتگو کرتے رہتے ہیں جو زمینی حقائق سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی،مثال کے طور پر سعودی عرب فوج بھیجنے کا معاملہ ہی لے لیں، بار بار یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ سیکیورٹی معاہدے کے تحت ہوتا ہے، پارلیمینٹ نے بھی سعودی عرب فوج بھیجنے کی منظوری دی تھی اور یہ بات اس وقت بھی واضح کر دی گئی کہ پاک فوج سعودی سرزمین کے اندر رہے گی اور باہر نہیں جائے گی،بار بار یہ بات واضح کی جا چکی ہے، لیکن ہر چند ماہ بعد اِس مسئلے کو دوبارہ اُٹھا دیا جاتا ہے اور اِس حوالے سے دانستہ شکوک و شبہات پھیلائے جاتے ہیں اور پھر انہی بے بنیاد باتوں پر غلط دلائل کی عمارت استوار کی جاتی ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ ریاست کا ہر ادارہ آئین کے تحت کام کرتا ہے اور اُسی وقت مضبوط ہوتا ہے جب آئینی حدود سے تجاوز نہ کرے،لیکن اِس کے باوجود بعض سیاست دان فوج کا نام لے لے کر ابہام پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، فوج کے ترجمان تو کہہ رہے ہیں کہ فوج الیکشن میں ایک دن کی تاخیر بھی نہیں چاہتی اور نہ ہی اس کا اعلان کرنا فوج کا کام ہے،الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار اور ذمے داری ہے اور آئین کے اندر یہ اختیارات پوری وضاحت کے ساتھ درج ہیں اب ان دفعات کے ہوتے ہوئے اگر بعض سیاست دانوں کو انتخابات ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے اور وہ بار بار یہ بات کہتے چلے جاتے ہیں تو قصور اُن کی نظر کا ہے کسی ادارے یا ادارے کے کسی ترجمان کا نہیں۔
موجودہ اسمبلی کی مدت31مئی کو پوری ہو رہی ہے اِس کے بعد ساٹھ دن کے اندر انتخابات کرانا آئینی ضرورت ہے،اِس لحاظ سے31جولائی سے پہلے پہلے نئے انتخابات ہو جانے چاہئیں یہ جس ادارے کا کام ہے اُسے اپنی ذمے داریوں کا احساس ہے اور وہ حلقہ بندیوں کا ابتدائی کام مکمل کر چکا ہے۔اب اس پر اعتراضات سامنے آ رہے ہیں جن کا قانون کی روشنی میں جائزہ لینا بھی الیکشن کمیشن کا کام ہے،حلقہ بندیوں کی جو تفصیلات سامنے آ رہی ہیں اس میں اگر کسی ایک حلقے یا دو چار حلقوں میں کسی کو جائز اعتراضات ہیں تو ان کا جائزہ قانون کی روشنی میں لے کر ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا، لیکن معترضین اس طرح شور مچا رہے ہیں جیسے کوئی انوکھا کام ہے، دُنیا بھر میں حلقہ بندیوں پر اعتراضات ہوتے ہیں، وہ دور بھی کئے جاتے ہیں اور اگر غیر ضروری ہوں تو مسترد بھی ہوتے ہیں ان کی بنیاد پر انتخابات کے التوا کی بات کبھی نہیں کی جاتی،امریکہ میں ڈھائی سو سال سے زیادہ عرصے سے انتخابات اپنے مقررہ دن پر ہوتے ہیں اور آندھیاں، طوفان یا سیلابی ریلے بھی ان پر اثر انداز نہیں ہوتے، لیکن حیرت ہے کہ ہمارے جو سیاست دان چار سال سے کہہ رہے تھے کہ الیکشن اس سال ہو رہے ہیں وہ الیکشن کے سال میں 180درجے کا یوٹرن لے رہے ہیں۔ ایک سیاست دان جو نگران وزیراعظم کے امیدوار ہیں یہ کہتے پائے گئے کہ انتخابات نہیں ہو رہے اب کوئی ان سے پوچھے کہ اگر انتخابات نہیں ہو رہے تو پھر نگران وزیراعظم کس مرض کی دوا ہو گا اور کیوں بنایا جائے گا؟یہ تو مقرر ہی انتخابات کے لئے کیا جاتا ہے اور آئین میں اس کے ذمے یہی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے اگر اُس نے انتخابات ہی نہیں کرانے تو پھر اُسے کس مقصد کے لئے نگران بنایا جائے؟
میجر جنرل آصف غفور نے واضح کر دیا ہے کہ فوج ایک دن کے لئے بھی انتخابات کا التوا نہیں چاہتی، چند ہفتوں سے ’’باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ کا بھی بڑا چرچا کیا جا رہا تھا اور اس کے ڈانڈے کہیں سے کہیں ملائے جا رہے تھے،فوج کے ترجمان نے وضاحت کر دی ہے کہ اس کا مقصد پُرامن پاکستان ہے اور اس کا غلط مفہوم نہ نکالا جائے، فوج کا نہ تو اٹھارہویں ترمیم سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی آرمی چیف نے کبھی یہ کہا کہ اس ترمیم میں سب کچھ غلط ہے اس ترمیم میں اچھی باتیں ہیں۔ البتہ میجر جنرل آصف غفور نے اس کے بارے میں جو باتیں کیں بہت سے سیاست دان بھی ایسی ہی باتیں کرتے ہیں اس ترمیم کے تحت صوبوں کو جو اختیارات دیئے گئے صوبے شاید اس کے لئے تیار نہیں تھے اور اچانک اختیارات اور ذمے داریوں کے بوجھ سے پریشان ہو گئے،کیونکہ جو ذمے داریاں صوبوں کو سونپی جا رہی تھیں اس کے لئے ادارے درکار تھے جو صوبوں کے پاس نہیں تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت جو محکمے صوبوں کے حوالے ہونے تھے وہ صوبوں کو مل ہی نہ سکے کہ اُن کے پاس ایسی کوئی تیاری نہ تھی کہ ان محکموں کو چلا سکیں،چنانچہ ان پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہو سکا۔
اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ ترمیم کو ماہرین کی کمیٹی ری وزٹ کرے اور جہاں جہاں مشکلات درپیش ہیں اُن کا حل نکال لیا جائے جو محکمے صوبوں کو نہیں مل سکے صوبے اُن کی ذمے داری سنبھالنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کر لیں اور جہاں تیاری نہیں ہے وفاق اُن کی مدد کو آئے اور ادارے بنانے میں اُن کی معاونت کرے،اگر پھر بھی اٹھارہویں ترمیم کی کوئی شق بدلنے کی ضرورت محسوس ہو تو اس پر پارلیمینٹ میں بحث ہو سکتی ہے۔ایک یا چند اعتراضات کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ پوری ترمیم ہی ریورس کر دی جائے،حالانکہ طویل عرصے تک اس پر غورو و خوض ہوا اور اس کے بعد اس کی منظوری ہوئی، تجربے نے اگر اس میں کسی سقم کی نشاندہی کی ہے تو اسے دور کیا جا سکتا ہے، پروپیگنڈے کے انداز میں اس کی واپسی کا تذکرہ غیر مناسب ہے۔
ترجمان نے ایک اہم بات جنرل قمر جاوید باجوہ کی حالیہ بریفنگ کے حوالے سے یہ کی ہے کہ اس میں جو لوگ شریک ہی نہیں تھے وہ اس پر مضمون لکھ رہے ہیں اِس کی وجہ غالباً یہ بنی کہ بریفنگ آف دی ریکارڈ تھی اور بعض شرکا نے اپنی پسند کے حصے بیان کر دیئے اور باقی حصوں کی تفصیلات اس طرح سامنے نہیںآئیں جس طرح آنی چاہئیں تھیں غالباً اسی وجہ سے قیاس آرائیوں کو ہوا ملی، اور اس ’’آف دی ریکارڈ‘‘ بریفنگ کے بعض حصے بھی سامنے آ گئے اور پھر اس پر من پسند تبصرے بھی کئے گئے۔ بہتر ہوتا کہ بریفنگ کے بعد اس کے منتخب حصے آئی ایس پی آر کی وساطت سے مشتہر ہو جاتے تاکہ قیاس آرائیوں کا سلسلہ آگے نہ بڑھتا۔بہرحال اب پاک فوج کے ترجمان نے تقریباً ہر مسئلے پر کھل کر بات کر دی ہے اور قیاس آرائیوں کا راستہ بھی بند کر دیا ہے۔ تاہم اس شوق میں مبتلا لوگ کوئی نہ کوئی نیا دروازہ کھول ہی لیں گے اُنہیں اس سے روکنا آسان نہیں۔