کراچی اور لاہور کے ووٹروں کی سوچ
تقریباً دو ہفتے کراچی اور اس کے نواحی علاقوں میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ ریٹائرڈ زندگی میں جب آپ سفر کرتے ہیں تو یادیں بہت آتی ہیں کہ کبھی شاید آپ کے ساتھ وی آئی پی سلوک ہوتا تھا، لیکن اس زندگی میں نہ تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہتے تھے ’’راہ میں تیری آنکھوں کو ہم بچھائیں گے‘‘۔۔۔ نہ ہی آپ کی تراش خراش وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسی رہ جاتی ہے کہ آپ آسانی سے پہچانے بھی جا سکیں۔
پیر صاحب پگاڑا کا خاندان ہو مرحوم غلام مصطفےٰ جتوئی کا یا آج کل اپنے گھر سے کراچی میں کسی دوست کو ملنے کی خاطر بھی ہیلی کاپٹر میں آنے جانے والے بلاول بھٹو زرداری کا گھرانہ سب مقامات پر اب سیکیورٹی کے نام پر اتنے فاصلے اور اس قدر دوریاں ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔
اب تو کراچی کے بڑے ہوٹل بھی خفیہ مسکن لگتے ہیں، کیونکہ ان کے اردگرد قلعوں جیسی فصیلیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب بڑے ہوٹلوں میں شادیوں کا رواج تھا، لیکن آج حالت یہ ہے کہ ان کے شادی ہال ویران رہتے ہیں۔ تلاشی، شناختی کارڈ، قطار پھر قطار اور پھر قطار۔
ان سب سیکیورٹی انتظامات نے پاکستان کو صرف پانچ سے دس فیصد شہریوں تک ہی محدود کر دیا ہے۔ باقی پاکستانیوں کو آپ ’’ایٹم بم‘‘ کے فروٹ کھلائیں یا گوادر کے تحفہ کی ’’دال ساگ‘‘ سے 20کروڑ عوام کی بھوک مٹائیں۔ اب عوام محض وعدوں پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔
میں نے عام ووٹروں سے کراچی میں ایسی ایسی باتیں سنیں کہ میں ان دوستوں کو بڑی سوچ رکھنے والا طبقہ شمار کرنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ آج وہاں ڈالر کے نرخ بڑھنے کی وجوہات سے لے کر مہنگائی پر ایک عام کراچی کا شہری بھی یہ بات کھل کر کہتا ہے کہ اب کراچی والوں کو ہی اٹھنا ہوگا۔ وہی اس ملک کا اب قرض اتاریں گے۔
وہی اس ملک کی تقدیر کو سنبھالیں گے اور وہی اب ایسے لوگوں کو سامنے لائیں گے جو گھر سے ایران کے صدر کی طرح ’’ٹفن‘‘ میں اپنا کھانا لے کر دفتر جائیں گے اور خود اپنی سبزی ترکاری خریدنے بازار میں بغیر کسی پروٹوکول کے دیکھے جائیں گے۔
کسی کو جلسے کرنے اور اپنے قصے کہانیاں سنانے کی ضرورت نہیں ہوگی، کیونکہ جس قدر ترقی کے منصوبوں کی باتیں اب تک ہو چکی ہیں یا آگے اشتہاروں میں دکھائی جائیں گی۔
اس کا فائدہ چند لاکھ ووٹروں کو شاید ہوا ہوگا، لیکن جب آپ 20کروڑ پاکستانیوں کو سامنے رکھ کر یہ تمام سکیمیں دیکھیں گے تو شاید آٹھ دس برس کے بچے کو بھی معاملات سمجھا سکیں گے۔
حالانکہ بچوں کو تو ابھی مزید دس برس ووٹر بننے کو درکار ہیں۔ پاکستان کا آج کا قرض کب اترے گا؟ کیسے اترے گا؟ کیا زبردستی عوام کی کرنسی۔ ڈالر، ریال، دینار پاؤنڈ ضبط کرنے کا کوئی پروگرام بنائیں گے؟ اب تک کسی کو کوئی علم نہیں، نہ ہی حکومت کے متعلقہ محکموں یعنی وزارت خزانہ نے کوئی بات کی ہے۔ کراچی والے تو آج اس بات پر بھی پریشان ہیں کہ وہ روٹی اور سالن لینے بازار جاتے ہیں تو اس کی خریداری پر بھی انہیں اصل قیمت سے تقریباً پانچواں حصہ الگ جی ایس ٹی ادا کرنا پڑتا ہے۔ آخر عوام کو ہی کب تک نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔
کوئی تاجر یا دکاندار حکومت کو الگ انکم ٹیکس کی ادائیگی بھی کرتا ہے تو حالت یہ ہے کہ کروڑوں روپے کی روزانہ خرید و فروخت کرنے والا بھی صرف عام آدمی جتنے جی ایس ٹی کے برابر ہی رقم ادا کر رہا ہے۔
ایسے میں نہ تو کبھی ملک کا قرضہ ادا ہو گا اور نہ ہی یہ ملک آگے بڑھ سکے گا۔ کراچی کے کرکٹ میچ میں آنے والے بھی سات گھنٹوں تک اسی بحث میں مصروف تھے اور باقی مقامات پر بھی ایسی ہی تشویشناک گفتگو ہی سنائی دی۔
لاہور واپسی پر البتہ سب خیریت کی اطلاع ملی۔ پتہ چلا کہ اب میٹروبس کی کم سے کم ٹکٹ 50سے ایک سو روپے کرکے شاید قرضہ اتارنے کی سبیل کی جائے، لیکن لاہوریوں کا کہنا تھا، کس کی جرات ہے کہ وہ کرایہ بیس سے تیس بھی کر سکے۔
انہیں میٹرو بسیں چلانی ہیں یا کچھ اور مقصود ہے؟ ملتان تو میں گیا نہیں، لیکن لاہوریوں کی بھی اب نرالی باتیں سننے کو مل رہی ہیں، جن لوگوں نے اپنا تن، من اور دھن سب کچھ لاہوریوں کے لئے لُٹا دیا، انہیں جب گوالمنڈی، نسبت روڈ، شاد باغ یا پھر ماڈل ٹاؤن سے ’’اوئے باؤ‘‘ کے الفاظ سنائی دیں گے تو ان کے تو دماغ ہی گھوم جائیں گے۔
حیرانی تو مجھے اس وقت ہوئی جب زندہ دلان لاہورکے ساتھ ساتھ پنجاب کے تقریباً تمام دوسرے شہروں سے آکر بسنے، کام کرنے اور ضرورت کے مطابق لاہور آنے والوں کے جذبات کا اندازہ ہوا۔
ان کا یہ پختہ خیال بلکہ عزم ہے کہ وہ اپنے چھوٹے شہروں کو بھی ’’لاہور‘‘ بنائیں گے۔ اپنے اس عزم میں وہ کامیاب ہوتے ہیں یا ان کی آنے والی نسلیں ، لیکن لاہور کو اس طرح ترقی کا مرکز بنا دیا گیا ہے کہ شاید کل کلاں خود لاہوری بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ کاش وہ ایل ڈی اے کو سمجھا سکتے کہ بھائی کچھ تو میانوالی، بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، رحیم یارخان، بہاولنگر، لودھراں، وہاڑی، خانیوال، اٹک یا پنجاب کے دیگر اضلاع کے لئے بھی کرو۔
لاہور کو ہی سب کچھ دے دو گے تو پھر یہاں ایسی نقل مکانی ہوگی کہ آپ کراچی کو بھول جائیں گے۔ مارکیٹیں اور پلازے ہی پلازے ہوں گے ، لیکن وہاں پر جانے کے لئے آپ کو آدھا دن درکار ہو گا۔ بنکاک (تھائی لینڈ) نے یہ سارا کام 40برس کیا تھا لیکن آج تک توبہ کرنے میں مصروف ہیں، کیونکہ سڑکوں پر متعدد فولادی ستون لگا کر ایک سڑک پر آٹھ اوور ہیڈ برج تعمیر کرکے بھی آج تک ان کے معاملات حل نہیں ہوئے۔
یہاں لاہور کو بھی اب استنبول بنا کر آپ لاہوریوں کو زیرو کر رہے ہیں، کیونکہ ترکی کے ہر شہری کی اوسط آمدنی لاہور میں رہنے والوں سے 113گنا زیادہ ہے۔ وہ جہاں ایک سو ادا کر سکتا ہے، لاہوری وہاں دس روپے نہیں دے سکتا۔ وقت آنے والا ہے جب ہر لاہوری اس جعلی ترقی پر ’’آہ و زاری‘‘ سیمینار کرائے گا۔