"آغازِ بے بسی ہی آغازِ صبر ہے"
آغازِ بے بسی ہی آغاز صبر ہے۔ ایک ایسا آغاز جس میں خوشی کے ساتھ غم ,صحت کے ساتھ بیماری ہے۔ جب مقامِ منزل پر پہنچنے سے پہلے منزل کھو جائے۔جب انسان کی تدبیر اس کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو جائے انسان کا علم وعقل اس کاساتھ نہ دے ، اس کا عمل اس کی مدد نہ کر سکے تو وہاں مجبوری کا احساس اسے صبر کے دامن کا آسرا تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔انسان زندہ رہ کر بھی زندہ نہیں رہتا اور انسان مر کر بھی نہیں مرتا.....۔ اور اسی بے بسی اور مجبوری سے صبر کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں خواہش اور حاصل نامکمل ہوتا ہے۔کبھی خواہش کا پلڑہ بڑھ جاتا ہے اور حاصل کا کم رہ جاتا ہے۔کبھی حاصل بڑھ جاتا ہے اور خواہش نہیں رہتی۔ وہ بے بسی کی ریوار پھلانگ نہیں سکتا ۔اور پھر مجبوری اس کو صبر کا رستہ دکھلاتی ہے۔حضرت جنید بغدادی سے صبر کے بارے میں پو چھا گيا تو انہوں نے کہا بغیر منہ بنائے اور ناگواری کا اظہار کیے کڑوے گھونٹ کو حلق سے نیچے اتار لینے کا نام صبر ہے۔ذوالنون مصری کا قول ہےکہ مخالفت سے بچنے اور مصیبت کو خندہ پیشانی کے ساتھ جھیل لینے اور اپنے آپ کو ایسے موقعوں پر پُر سکون رکھنے اور فقر کی حالت میں بھی تو نگری کے اظہار کا نام صبر ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ حسن ادب کے ساتھ مصیبت کو برداشت کر لینے کا نام صبر ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری زندگی ہماری خواہشات کے مطابق نہیں گزر سکتی۔ انسان ناپسندیدہ حالات کو صبر کا دامن تھام کر گزار لیتا ہے۔ احساس اور صبر کا آپس میں گہرا تعلق ہے جتنا احساس زیادہ ہو گا درد کی شدت بڑھے گی اتنا صبر کا پیمانہ بڑھے گا۔
جب انسان یہ جان لیتا ہے کہ کوئی ہستی ہے جو اس کی زندگی کی باگ ڑور سنبھالے ہوئے ہے اس کے ارادوں اور اس کے عمل میں اس ہستی کا امر شامل ہے اور اس کی زندگی کے تمام فیصلے امرِ مطلق کے تابع ہیں اور ٹل نہیں سکتے ۔ تو پھر یہاں سے انسان اپنی بے بسی سے آشنائی حاصل کرتا ہے ۔ بے بسی کا آغاز ہی صبر کا آغاز ہے۔ لہزا بات صرف مجبوری بے بسی کی نہیں ۔صبر سے وابستہ بے بسی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ہم زندگی میں سب کچھ نہیں کر سکتے ۔ ہم اپنی زندگی کے مالک و مختار نہیں ۔ ہم قدرت رکھنے کے باوجود قادر نہیں وہ زات مطلق ہمارے ظاہر اور باطن پر اختیار رکھتی ہے۔ اس کا امر غالب ہے ۔ وہ ذات چاہے تو مرتبوں کو پستیوں میں ڈال دے، چاہے تو غریب الوطنی کو سرفرازیاں عطا کر دے ۔ چاہے تو وہ ذات یتیموں کو پیغمبر بنا دے اور چاہے تو مسکینوں کو مملکت عطا کر دے ۔
جو انسان کو بار بار حکم فرماتی ہے کہ صبر کرو ۔ تحقیق سے پہلے تسلیم کر لو ۔ جو سمجھ میں نہ آ ئے اس پر صبر کرو اور جب سمجھ میں آئے تو پھر اس پر تحقیق کرو ۔واصف علی واصف نے مقام صبر اور مقام شکر کے بارے میں کیا خوب فرمایا تھا کہ "دنیادار جس مقام پر بیزار ہوتا ہے ، مومن اس مقام پر صبر کرتا ہے اور مومن جس مقام پر صبر کرتا ہے ،مقرب اس مقام پر شکر کرتا ہے ، کیونکہ یہی مقام وصالِ حق کا مقام ہے" ۔ آغازِ بے بسی ہی آغازِ صبر ہے۔ اور صبر کے آخری مقام سے مقام شکر کا آغاز ہوتا ہے۔ ۔اللّہ سے لو لگانے والوں کی آنکھوں میں ہمیشہ آنسو رہتے ہیں۔صبر ان کی آنکھوں سے جھلکتا رہتا ہے۔ دل سوزو گداز سے بھرے رہتے ہیں ۔ ان کی پیشانیاں سجدوں کے لیے بیتاب رہتی ہیں ۔ اور یہ تاج صرف اور صرف خوش نصیبوں کے سر پر سجتا ہے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
.
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔