خواب میرے سانس کے اندر اتر آئے، پسینہ تمہارے ماتھے پہ

 خواب میرے سانس کے اندر اتر آئے، پسینہ تمہارے ماتھے پہ
 خواب میرے سانس کے اندر اتر آئے، پسینہ تمہارے ماتھے پہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: زاہد مسعود
 قسط:10
ایئر ہوسٹس نے میرے ہاتھ میں پکڑا شیشہ کئی ٹکڑوں میں 
توڑ دیا میں کئی ٹکڑوں میں ٹوٹ گئی 
تو اس نے کہا 
اب تم ایک ہی وقت میں بہت سے اسٹیشنوں پر ایک ساتھ 
اُتر سکتی ہو....
اور جہاز مجھے گراتا ہوا بہت دور نکل گیا 
(ایک بار )
________
خواب میرے سانس کے اندر اتر آئے، پسینہ تمہارے 
ماتھے پہ آنکھوں 
میں لہو....اور میں نے جانا 
موت بھی اور عشق بھی....دونوں باتیں ایک ہیں....
(ایکتا )
________
رات نہائی ہوئی کبوتری کی طرح میری کھڑکی میں آبیٹھی ہے 
اور دیے سے باتیں کرنے لگتی ہے 
(عین الیقین)
________
ہم نے محبتوں کو اتنا برداشت کیا کہ ہماری آنکھوں کا تیل نکل آیا 
اور ہماری رنگتیں سیاہ پڑ گئیں ، ہماری زبانیں اکڑ گئیں 
تاکہ کچھ کر نہ سکیں 
(نفی اثبات )
________
میں نے اپنا آسمان دیکھا، میں نے اپنی زمین دیکھی 
آسمان پر ستارے نہیں تھے، زمین پر فصل نہیں 
(حکم کا یکہ )
________
کہیں کہیں چوراہوں پر کاغذ جلنے کی بو ہو گی 
پھر ہوا چلی پھر میری آنکھیں آنکھیں نگر نگر جلیں 
مجھے میری آنکھوں کی آگ سے پہچانو 
(شناخت کا دن )
_______
پیٹ بھر جائے تو دل خالی ہو جاتا ہے 
اندھے کنویں کی طرح جس میں فاختہ کی آواز کی گونج 
امڈ گھمڈ برستی رہتی ہے....
(کون مرا )
______
میری ہنسی مکی کے بھٹے بھوننے کی سی ہے
اور میرا رونا کپاس پر بارش جیسا 
میرا محبوب مرے ہاتھوں میں اپنے پاﺅں چھوڑ گیا 
اور میرے ہونٹوں پر اپنی آنکھیں 
میری بانہوں کے پھیلاﺅ تک تم میرے ہو 
اس سے آگے میں تمہاری ہوں....
(میں اور وہ)
_______
کیوں کہ مجھ سے بھی پوچھا گیا تھا 
کہ طوائفوں کی طرح اُداس 
اور داشتاﺅں کی طرح نامطمئن 
اور دوسری بیویوں کی طرح مایوس کیوں رہنا چاہتی ہو
(جنون خیز)
نسرین نے اردو شاعری کو منفرد اور انوکھی تشبیہات اور استعاروں سے نوازا اور جہاں ضرورت محسوس کی اُردو نظموں میں پنجابی اور انگریزی الفاظ کو بھی اس قدر مہارت سے استعمال کیا کہ وہ ان کے شعری تسلسل میں ڈھل گئے۔ 
نسرین انجم بھٹی بلاشبہ اردو کی جدید شاعرہ تھیں اور 70ءاور 80ءدہائی کے حوالے ایک منفرد اسلوب کی شاعرہ تھیں۔ وہ آنے والے ادوار میں بھی تخلیقیت کا ایک معتبر حوالہ ثابت ہونگی۔ 
وہ قلیل عرصے میں ایک زبردست پوٹینشل کے ساتھ کام کرنے میں اس لیے بھی کامیاب رہیں کہ ان کو خودنمائی اور نام و نمود میں کوئی کوئی دلچسپی نہ تھی اور نہ ہی وہ مالی مفادات کی اسیر تھیں۔ وہ ایک درویش صفت انسان تھیں اور انسانوں کے رنج و الم سے جڑی ہوئی شاعرہ تھیں۔ انہوں نے اپنے کچھ ہم عصروں کے برعکس عجز کے ساتھ قناعت کی زندگی گزاری اور غیر ضروری طور پر ادبی سیاستوں میں ملوث نہ ہوئیں۔ اگرچہ اپنے نظریات اور خیالات کی بناءپر ان کو نوکری اور زندگی میں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے ایک بہادر انسان کے طور پر آزمائشوں کا مقابلہ کیا اور اپنی قانع طبع کے باعث اسلوب شعر کو تبدیل نہ کیا۔ 
نسرین انجم بھٹی کی اردو شاعری جدید نظم میں خصوصاً ایک باعزت مقام رکھتی ہے اور انہیں اس حوالے سے اُردو شاعری کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ ہ بلاشبہ ایسی شاعرہ تھیں جنہوں نے شعری ارتقاءمیں اپنا بھرپور حصہ ڈالا اور اردو شاعری کے سفر کو چند قدم آگے لے کر گئیں۔ 
زاہد مسعود
( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -