میں نے آٹومیٹک پستول رکھنا شروع کر دیا،قانون کو کوئی نہیں پوچھتا تھا اور پولیس مشتعل سیاہ فاموں کے کسی گروہ سے الجھنے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتی تھی
مصنف : میلکم ایکس( آپ بیتی)
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط :38
انہی دنوں میں نے .25 کا آٹومیٹک پستول رکھنا شروع کر دیا۔ یہ میں نے چند ری فرز کے عوض خریدا تھا جو ایک نشے باز نے کہیں سے چرایا تھا۔ میں اسے کمر کے میں درمیان میں بیلٹ کے نیچے رکھتا تھا کیونکہ میں نے سنا تھا کہ پولیس والے معمول کی تلاشی میں اس جگہ کو نہیں تھپکتے۔ میں بھیڑ بھڑ کے والی جگہوں پر ناآشنا لوگوں کے ساتھ الجھنے سے ہمیشہ بچتا۔ نارکوٹیکس پولیس والے ایسی جگہوں پر یونہی آپ سے الجھ جاتے ہیں اور دورانِ تلاشی کچھ نہ کچھ آپ کی جیب میں ڈال دیتے ہیں۔ اسی لیے میں عموماً کھلی جگہوں پر کام کرتا تھا۔ اب مجھے یاد نہیں آتا کہ میں پستول کیوں اٹھائے پھرتا تھا۔ غالباً حفاظت خود اختیاری کے تحت تاکہ اگر کوئی مجھے پھنسانا چاہے تو میں بچ سکوں۔
میں نے ری فرز کی فروخت کافی کم کر دی کیونکہ احتیاط کا تقاضا یہی تھا۔ ذرا سا بھی شک ہوتا تو میں کمرہ بدل لیتا۔ سوائے سیمی کے کسی کو میری رہائش کا علم نہیں ہوتا تھا۔
بہت جلد یہ بات مشہور ہو گئی کہ میں ہارلم کے نارکوٹیکس اسکواڈ کے خصوصی فہرست میں شامل ہو گیا ہوں۔ اور آئے دن وہ کہیں نہ کہیں مجھے گھیر کر تلاشی لینے لگے۔ لیکن میں فوراً اتنی بلند آواز سے کہ جسے دوسرے بھی سُن لیں کہتا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے اور میں نہیں چاہتا کہ مجھ پر کوئی ناجائز چیز ڈالی جائے۔ اس پر پولیس والے محتاط ہو جاتے کیونکہ ہارلم میں پہلے ہی قانون کو کوئی نہیں پوچھتا تھا اور پولیس مشتعل سیاہ فاموں کے کسی گروہ سے الجھنے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتی تھی۔ ہارلم کے سیاہ فاموں میں ایک تناﺅ پیدا ہو رہا تھا اور محسوس ہوتا تھا کہ کوئی گڑبڑ ہونے والی ہے جو کہ جلد ہی ہو گئی۔
میرے لیے یہ سختی کے دن تھے، مجھے ری فرز چھپانے کے لیے نت نئی جگہیں ڈھونڈنا پڑتی تھیں۔ میں پانچ ری فرز کسی سگریٹ کی خالی ڈبی میں ڈال کر اسے کسی لیمپ پوسٹ یا کوڑے دان کے قریب گرا دیتا۔ گاہک سے کہتا کہ وہ پہلے پیسے ادا کرے پھر اسے بتاتا کہ کہاں سے ری فرز اٹھا لے۔ لیکن اپنے باقاعدہ گاہکوں کو اس کھکھیڑ میں نہیں ڈالتا تھا۔ میں نے کچھ ریڈ کراس کے پٹیوں والے ڈبے اکٹھے کر لیے تھے، جن کا استعمال کافی فائدہ مند رہا۔ مرکزی ہارلم کی نارکوٹکس فورس نے مجھے اتنا ہراساں کیا کہ مجھے اپنا علاقہ بدلنا پڑا اور زیریں ہارلم میں 110th Street منتقل ہو گیا۔ وہاں زیادہ نشہ باز تھے لیکن سب گھٹیا نشہ کرتے تھے یہ بدترین گھیٹو (کچی بستی) تھی جہاں غریب ترین لوگ رہتے تھے۔ وہ لوگ جو زندگی کے مسائل کو سہنے کے لیے نشے کا سہارا لینے پر مجبور تھے میں وہاں بھی زیادہ عرصہ نہیں رہا۔ وہاں میرے سرمائے کا کافی نقصان ہوا کچھ نشہ باز حیوانی جبلتوں کے مالک تھے۔ مجھ سے ریفرز خریدنے کے بعد انہوں نے میرا پیچھا کرنا شروع کر دیا اور بہت جلد میرے طریقہ کار سے واقف ہو گئے۔ میں جب بھی اپنا پیکٹ کہیں گراتا تو وہ کسی دروازے کے پیچھے سے نکلتے اور ری فرز کے پیکٹ پر ایسے جھپٹتے جیسے مکئی کے دانوں پر مرغی۔ جب آپ کسی Ghetto میں داخل ہوتے ہیں تو آپ خود بھی جانور اور گدھ بن جاتے ہیں، یہاں آ کر آپ کو صحیح معنوں میں Survival کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔
بہت جلد دوبارہ مجھے سیمی سے قرض لینے کی ضرورت پیش آ گئی۔ کبھی مجھے مال خریدنے کے لیے پیسے لینا پڑتے کبھی اپنے نشے کے لیے اور کبھی کبھی تو محض کھانا کھانے کے لیے بھی پیسے مانگنا پڑتے۔ سیمی نے مجھے ایک نیا خیال دیا کہنے لگا ”ریڈ تمہارے پاس ابتک ریل روڈ شناختی کارڈ ہے نا؟“ وہ میرے پاس تھا اور کمپنی نے اسے واپس نہیں لیا تھا۔ ”تم اسے استعمال کیوں نہیں کرتے جب تک معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوتا کچھ دن ٹرین میں بھاگ دوڑ کر کے دیکھ لو“ وہ ٹھیک کہتا تھا تجربے نے مجھے سکھایا کہ اگر آپ ”ریل روڈ لائنز امپلائی آئڈنٹی فیکیشن کارڈ“ کنڈیکٹر کو اعتماد کے ساتھ دکھائیں تو وہ آپ کو نہ صرف ریل پر سوار ہونے کی اجازت دے دیتا تھا بلکہ آپ کو مفت سفر کی سلپ بھی دے دیتا تھا۔ میں نے سوچا کہ اس طرح میں ”ایسٹ کوسٹ“ کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے بینڈز کے ساتھ آنے جانے والے دوستوں کو ریفرز بھی بیچوں گا۔ میرے پاس نیو ہیون کا شناختی کارڈ تھا۔ ایک دو ہفتے دوسری کمپنیوں میں کام کر کے میں نے ان کے شناختی کارڈ بھی حاصل کر لیے۔ نیویارک میں میں بڑی مقدار میں سلائیاں بناتا انہیں ایک مرتبان میں بند کرتا اور کنڈیکٹر کو قائل کرتا کہ میں اس کا ہم پیشہ ملازم ہوں اور گھر جانے کے لیے سفر کر رہا ہوں وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے سفر کی اجازت دے دیتے۔ بہت سے گورے یہ بات کبھی تسلیم نہیں کرتے کہ کسی کالے میں اتنی عقل بھی ہو سکتی ہے کہ وہ انہیں دھوکہ دے سکے۔
جس شہر میں میرے دوست اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں وہاں ریفرز فروخت کرنے پہنچ جاتا۔ آج تک کسی نے سفری منشیات فروش کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔
میں کسی ایک بینڈ کے ساتھ وابستہ نہیں تھا جب میرے پاس مال ختم ہو جاتا تو میں نیویارک واپس آ جاتا اور مسلح ہو کر دوبارہ سفر پر نکل کھڑا ہوتا۔ کسی بھی او ڈی ٹوریم یا جمنازیم میں داخلے کے لیے میں چوکی دار سے کہتا کہ میں کسی فنکار کا بھائی ہوں بلکہ اکثر اوقات وہ مجھے فنکار ہی سمجھ لیتے تھے۔ میں اندر جا کر لنڈی ہوپنگ کا مظاہرہ کرتا۔ کبھی رات فنکاروں کے ساتھ ہی گزار لیتا کبھی ان کے ساتھ ہی اگلے قصبہ کو چلا جاتا کبھی تھوڑی دیر کے لیے نیویارک واپس آ جاتا۔ معاملات ٹھنڈے پڑ چکے تھے افواہ یہی تھی کہ میں شہر چھوڑ چکا ہوں جس کی وجہ سے نارکوٹکس سکواڈ کافی مطمئن تھا۔ چھوٹے قصبوں میں لوگ بعض اوقات مجھے فنکار سمجھ کر گھیر لیتے اور آٹوگراف بھی لیتے۔ ( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔