سرحد
بڑی عجیب سی کیفیت تھی، زمین کے سینے پر کھنچی ایک لکیر کے دوسری طرف پاﺅں رکھتے ہی مَیںایک دوسری مملکت میں تھا۔ایک دوسری تہذیب میں تھا۔ ایک دوسرے نظام میں تھا۔ مگر یہ کیا! زمین کا رنگ بھی وہی پہلے جیسا تھا۔ درخت بھی اس لکیر کے دونوں جانب ایک ہی طرح کے تھے اور پرندے بلا روک ٹوک اس سفید لکیر کے آر پار اڑتے ہوئے، نیچے کھڑے انسانوں کی بے بسی پر چہکاریں مار رہے تھے۔ تھوڑا سا غور کیا تو لکیر کے دونوں جانب کھڑے انسانوں کی رنگت، شکلیں اور خدوخال بھی ایک ہی طرح کے تھے، حتیٰ کہ میرے موبائل فون پر سگنل بھی میرے ہی ملک سے آ رہے تھے.... مگر!! مَیں اب ایک دوسرے ملک میں کھڑا تھا۔ ہم اردو اور پنجابی کے لگ بھگ پندرہ شاعر پاکستان سے ہندوستان مشاعرہ پڑھنے جا رہے تھے۔ یہ 2007ءکی بات ہے۔ چندی گڑھ کی پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر صحبتی کا یہ جملہ آج بھی میرے کانوں میں گونجتا ہے :”کیاسٹیج پر بیٹھے ہوئے شاعروں کی شکل دیکھ کر کوئی بتا سکتا ہے کہ ان میں سے پاکستانی کون ہے اور ہندوستانی کون“؟
2010ءمیںویانا سے چیک ری پبلک جاتے ہوئے ٹرین میں یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ کس وقت مَیں آسٹریا کی حدود سے نکل کر چیک ری پبلک کی حدود میں داخل ہو گیا۔ نہ زمین کی رنگت بدلی ،نہ آسمان کے تیور، نہ سوار ہونے اور اترنے والی سواریوں کی شکلیں بدلیں، نہ موسم کے انداز۔ مگر ایک وردی والا چیکر ٹرین میں آیا اور ہم جتنے ”غیر یورپی“ اس ٹرین میں سفر کر رہے تھے، ان سب سے راہداری کا پروانہ طلب کیا۔ پاسپورٹ پر ٹھپا لگایا او رہمیں یہ احساس دلایا کہ ہم ایک دوسرے ملک میں داخل ہو رہے ہیں، مگر اس بار بھی پرندے، ہوائیں، سورج، درخت اور دریا ہم پر مسکراتے ہوئے اپنی مرضی سے ایک سے دوسرے ملک میں بغیر کسی ویزے کے دندناتے ہوئے پہنچ گئے۔
سرحدوں کی سیاسی، تاریخی، معاشی یا معاشرتی حقیقت جو بھی ہو، یہ انسان کے تہذیبی ارتقا اور تمدن کی اخلاقیات پر ایک سوالیہ نشان ضرور ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے نظریہ¿ ملکیت میں وسعت یا بالغ نظری آنے کے بجائے انسان نے اپنے اوپر حیات کی شرائط مزید تنگ کر لی ہیں۔ مشترکہ مفادات کے حلقے مزید محدود ہوگئے ہیں۔ انسان پر انسان کے خوف کے اثرات اور گہرے ہوتے چلے گئے ہیں۔ چھن جانے کے خوف اور چھین لینے کی ہوس نے مہلک سے مہلک ہتھیاروں کو جنم دیا۔ ساری دنیا کو حاصل کرلینے کے بے ہودہ خواب نے ساری دنیا کو برباد کر دینے والے ایٹم بموں کو ایجاد کیا۔ کمزوروں نے یہی حربہ اپنے دفاع میں آزمایا۔ گویا انسان نے یہ طے کر لیا کہ دنیا بس اس زمین سے ہی شروع ہوتی ہے اور اسی زمین پر اس کا اختتام ہے۔ آج سب ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک فخریہ طور پر ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ یہ اعلان در حقیقت پوری انسانیت اور کرہ¿ ارض کو برباد کر دینے والے سامان کی ملکیت کا اعلان ہے۔
خیر بات کہاں سے کہاں جا پہنچی! مَیں نے گاڑی میں لتا منگیشکر اور رفیع کے گانوں کی کیسٹ لگائی اور مدھر تانوں میں کھو گیا۔ دل ہی دل میں شکر کیا کہ ان آوازوں سے لطف اندوز ہونے کا حق کسی ویزے کا محتاج نہیں۔ یقیناً بے شمار لوگ ہندوستان میں نصرت فتح علی خاں اور راحت فتح علی خاں کی آوازوں سے محظوظ ہو رہے ہوںگے۔ اخبار کی ایک خبر ذہن میں گدگدائی کہ نو منتخب وزیر اعظم کی خواہش ہے کہ اپنی والدہ کو امرتسر کے قریب اپنے آبائی گاﺅں میں آبائی گھر دکھانے کے لئے لے جائیں۔ شریر ذہن نے شوشہ چھوڑا کہ اپنا گھر دیکھنے کے لئے تو ویزا لینا پڑے گا.... اسی طرح ہندوستان کے ایک وزیر اعظم اپنا گھر دیکھنے پاکستان میں آئے تھے۔ویزا لے کر.... ذہن کی رو پھر بہک گئی۔ انسان اتنا مختار کب ہوگا کہ وہ اپنے قائم کردہ حصاروں سے نکل کر سوچ سکے۔ کیا حکمرانی سے مراد دوسرے انسانوں پر حکومت ہے؟ کیا ہم معاملات زندگی ایک ضابطے کے حوالے کر کے اپنی توانائیاں تسخیر کائنات میں نہیں لگا سکتے۔ کیا ہمارا سارا زور جھوٹ اور فریب کے بل بوتے پر چند لاکھ انسانوں کا حق غصب کر کے اپنا پیٹ بھرنے پر مرکوز رہے گا۔ ہم کب تک اپنی ہی فوج سے اپنے ہی ملک کو فتح کرتے رہیں گے۔
اس کائنات کی تو خیر کوئی سرحد نہیں، یہ زمین بھی بہت بڑی ہے۔ انسانوں کی سرحدیں وہاں تک ہوتی ہیں، جہاں تک ان کے دل کی بات سمجھنے والے موجود ہوں۔ چلیں اگر زمین کم بھی پڑ گئی ہے تو ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کی بجائے، اس زمین پر بستی بستیوں کو راکھ کا ڈھیر بنانے کی بجائے،بارود کی بارش سے زمین کو انسانی خون میں نہلانے کی بجائے ہم یہ کیوں نہیں سوچ سکتے کہ بربادی اور تباہی کا باعث بننے والے ان ایٹم بموں سے جان چھڑوا کر ، راکٹوں، میزائلوں، توپوں، ٹینکوں، ڈرون حملوں اور بندوقوں کو کہیں سمندر کی تہہ میںیا خلا کی بے سمت ویرانیوں میں ہمیشہ کے لئے دفن کر دیں اور اللہ کی تخلیق کی ہوئی اس لامتناہی کائنات پر اپنا تصرف جمائیں ۔ہماری سرحدیں کہکشاﺅں پر محیط ہوں، ہمارا راج خلاﺅں کے لامتناہی سلسلوں میں آگے اور نظامِ ہستی ہمارے اشاروں پر رقص کرے۔فیض صاحب کی یاد آرہی ہے:
کون ایسا سخی ہے جس سے کوئی
نقدِ شمس و قمر کی بات کرے
جس کو شوقِ نبرد ہو ہم سے
جائے تسخیر کائنات کرے