کتنے ویرانوں کے دل روشن تھے ہم سے ہائے ہم(2)

کتنے ویرانوں کے دل روشن تھے ہم سے ہائے ہم(2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ذکر ہے شاہ جی کا! مَیں نے انہیں مضطرب، بے چین اور فکر مند کبھی نہیں دیکھا۔ شاہ جی نہ اس وقت تکبر اور غرور کی چتون ماتھے پر سجا کر نکلے جب ایسے لوگ ملک پر حکمران تھے جو شاہ جی کی بات کو حکم کا درجہ دیتے تھے اور نہ شاہ جی کو کسی نے اس وقت گھبرایا ہوا یا خوفزدہ دیکھا جب ایسے حکمرانوں کا دور آیا جو شاہ جی کے ”عشق“ کا وجود مٹانے کے درپے تھے اور شاہ جی اور ہمسفروں کے خون کے پیاسے تھے۔ نہ اچھے وقتوں میں اپنے ”عشق“ کے ناقدین سے ناتہ توڑا، نہ اس خوف میں مبتلا ہوئے کہ مخالفین سے یارا نہ حکمرانوں کی ناراضگی کو دعوت دے سکتا ہے، حتیٰ کہ مارشل لاءکے دور میں جنرل ضیاءالحق کے مقربین سے تعلق پیدا کرنے کا شوق بھی نہ اپنایا۔ جو دوست تھے، انہیں ہر حال میں دوست سمجھا ،البتہ برے وقتوں میں جن ابن الوقتوں نے دامن بچایا، ان سے فاصلہ کم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ،بلکہ لاتعلقی کا اظہار کیا کہ مصیبت اور آزمائش کی چھینٹ ان کے دامن تک نہ پہنچ جائے۔ بہت کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہوگی کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اپنے شاہ جی سے براہ راست بات کرتے تھے۔ کسی نے شکایت کی کہ شاہ جی نے ”مساوات“ میں”جماتئیے“ بھرتی کر لئے ہیں۔ معتبر راوی کا کہنا ہے کہ بھٹو مرحوم نے شاہ جی سے فون پر اس شکایت کے درست و نادرست ہونے کی بابت دریافت کیا اور شاہ جی نے پوری جرا¿ت سے اعتراف کیا کہ یہ شکایت نہیں، حقیقت ہے اور سبب یہ بتایا کہ پیپلز پارٹی کے جیالوں سے غروب آفتاب کے بعد کام نہیں لیا جا سکتا۔
جب تک شاہ جی مدیر رہے، یہی اچھرہ کے پالے قائد عوام کے قصائد لکھتے رہے اور جونہی شاہ جی کے ”عشق“ کے اقتدار کا سورج غروب ہوا،کئی دستر خوانی بلاﺅ کپڑے جھاڑ کر محترم مجیب الرحمن شامی کے نعمت کدے کی دیوار سے آلگے۔ محترم مجیب الرحمن شامی بھی نرالی شان کے مدیر ہیں ۔کسی کو دھتکارنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ محمد صلاح الدین نے ہاتھ تھاما ،مگر دونوں کا تجربہ تلخ رہا۔ ایک تو دنیا میں نہیں ،اللہ تعالیٰ محترم شامی صاحب کو صحت و تندرستی کے ساتھ سلامت رکھے ،آمین! اپنوں بیگانوں سب کا خیال رکھتے ہیں۔ اب چپ رہیں تو اور بات ہے، مگر محاورتاً منہ لگائی ڈومنی کی تال بے تال تحریریں محفوظ ہیں ۔محاورے میں تو ڈومنی ہی ہے ،مگر قارئین آپ ڈوم بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اب سمندر کو اٹھنے کی تلقین کرتے پائے جاتے ہیں، مگر سمندر اٹھتا نہیں، بلکہ پُرشور لہروں کے ہاتھوں سفید جھاگ کا ایک پوچا جناب کے چہرے پر اچھال کر جواب ضرور دیتا ہے۔
شاہ جی کا ذکر لاہور کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ لاہور جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب! جہاں منتخب روزگار لوگ اکٹھے تھے ۔ شہد میں بھیگی ہوئی زبان !رویہ ایسے کہ کیا کوئی جگر گوشہ اختیار کرے گا۔ یہ غالباً 1958ءکی بات ہے۔ پہلی بار لاہور گیا تو راہ چلتے ایک تانگہ بان نے میٹھے لہجے میں للکارا :”پہلوان جی! ذرا بچ کے“ ....اس فقرے کی حلاوت آج تک محسوس ہوتی ہے۔ سال بھر لاہور جانے کی خاطر رقم جوڑتا۔ سال کے آخر میں ایک ہفتہ گزارتا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ رب رحمن کی نعمتیں آسمانوں سے اترتیں، زمین سے سبزہ و گل کی صورت اگتیں۔ مٹی کی سوندھی خوشبو روح کی تازگی کا سبب بنتی۔ کئی افتخار وا عزاز سے اللہ سبحانہ، و تعالیٰ نے اس قوم کو نوازا تھا۔ سامراجی قوتوں سے نبرد آزما مسلمان ممالک، پاکستان کی طرف امداد طلب نظروں سے دیکھتے۔ الجزائر کے مجاہدین کے قائدبن بااللہ تو فرانس کی قید میں تھے اور جلاوطن حکومت کے سربراہ فرحت عباس پاکستانی پاسپورٹ پر دنیا بھر میں نو آبادیاتی قوت فرانس کے خلاف تحریک چلاتے۔پاکستان عالم اسلام کے قائد کا درجہ رکھتا تھا۔ ابھی عرب کی سرزمین کو آنے والے عذابوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سیال سونے سے نہیں نوازا تھا۔ غرض لاہور زندگی کی علامت تھا اور اس جملے میں پوری صداقت تھی:” جس نے لاہور نہیں دیکھا کچھ نہیں دیکھا “....داتا کی نگری،حضرت علامہ اقبال ؒکی آخری آرام گاہ ،جسے قائد اعظم ؒنے قراردادِ پاکستان کے لئے منتخب کیا۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ لاہور ہوٹل میں 5 روپے یومیہ پر کمرہ مل جاتا۔ راولپنڈی سے لاہور تک 4 روپے بس کا کرایہ۔ ریل میں اس سے بھی کم، رزق وافر ،لاہور کے کھانوں کا اپنا مزا۔ لاہور کی مال روڈ پُرسکون، شانتی اور سرور کا عجیب عالم! رات کے سناٹے میں تنہا چہل قدمی کا وہ لطف کہ ہفتے بھر کا قیام سال بھر کی تھکن اورکلفتیںدور کر دیتا اور محنت مزدوری کے لئے توانائی رگ جاں میں بھر دیتا۔ ابھی ہم ایٹمی قوت نہیں بنے تھے ،تاہم خود کو محفوظ و مامون سمجھتے تھے۔ ابھی ہندوستان کو مکا دکھانے والا قائد اعظم ؒکا جانشین لیاقت علی خان دوست نما دشمنوں کی سازش کا نشانہ نہیں بنا تھا۔ پھر دوستوں کی سازش اور دشمنوں کی جارحیت نے پاکستان دولخت کر دیا ۔ہمارے سب اعزاز و افتخار چھنتے چلے گئے۔ اب وہ لاہور کہاں ،ویسی رونقیں کہاں!زبان کی حلاوتیں کہاں، کام و دہن کی لذتیں کہاں! ایک ہجوم ہے جس میں سانس گھٹتا ہے۔عالم اب تو یہ ہے:
ستم ہو یا کرم سمجھا نہ جائے
سوئے منزل کو رستہ نہ جائے
گھٹا جاتا ہے دم اس بھیڑ میں بھی
مگر اس بھیڑ کو چھوڑا نہ جائے
مگر کیا کیجئے ،لاہور میں دل لگا رہتا ہے ۔اب اپنے شاہ جی بھی لاہور ہی میں آسودہ ¿خاک ہیں، یوں بھی میرے چاہنے والے، میرے بزرگ، ہمجولی لاہور میں بستے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی امان میں رکھے، تپتی ہوا(گرم ہوا )سے بھی بچائے ،آمین! دو دن گزر جائیں تو فون پر خیریت پوچھتے ہیں۔ پیار کے سندیسے آتے ہیں۔ شاہ جی سے ملاقات جس دور میں ہوئی، عجیب کشمکش کا زمانہ تھا۔ ٹکراﺅ کا دور ،فکری حوالے سے بھی اور جسم و جاں کی قوت آزمانے کے حوالے سے بھی ۔پیپلز پارٹی کے جیالے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو ”قائدعوام“ نہ کہنے والوں سے الجھ پڑتے۔ جیب و داماں کی خیر منانے کا وقت تھا۔ دوسری طرف بھی جذبوں کا یہی عالم تھا۔ تحریر و تقریر میں لفظوں کا انتخاب جان جلانے اور ذہن کو مشتعل کرنے کے تمام لوازمات موجود ،ادب و احترام تحریر و تقریر میں عنقاہوچکا تھا۔ ایسے میں شاہ جی کا دم غنیمت تھا۔ ملتے تو اتنا پیار نچھاور کرتے کہ انہیں روزنامہ ”مساوات“ کا مدیر باور کرنا دشوار ہو جاتا۔ مَیں بھی شاہ جی کے سامنے زبان کو قابو میں رکھتا ۔
پھر مارشل لاءآگیا۔ بہت سے دوسرے دوستوں کے ساتھ اپنے شاہ جی بھی جیل چلے گئے۔ عجیب بے بسی کا عالم تھا۔ ”ٹیلنٹڈ کزن“ ساتھ چھوڑ گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا سوہنا منڈا عقد ثانی کر کے ہنی مون پر چلا گیا۔ کوثر نیازی نے پروگریسو پیپلز پارٹی بنا کر لاتعلقی کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر عبدالخالق اپنے کلینک تک محدود ہوگئے۔ خورشید حسن نشانہ بن چکے تھے،البتہ بابائے سوشلزم شیخ رشید احمد اور شاہ جی اپنے عشق سے دستبردار نہیں ہوئے، نہ جنون عشق کا انداز چھوڑنے پر آمادہ ہوئے۔پھر پتہ چلا شاہ جی رہا کر دئیے گئے، مگر ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں تھا۔ ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں۔ ایک دن کسی دوست نے پیغام دیا کہ شاہ جی راولپنڈی میں ہیں۔ ہمیں بلاتے ہیں۔ کہاں؟ جواب میں پیغامبر نے بتایا کہ کل صبح ہوائی اڈے پر! اگلے دن بہت جستجو کے بعد شاہ جی سے ملاقات ہوئی۔ شاہ جی کے ساتھ ایک اور صاحب بھی تھے۔ شاہ جی کے پاس امریکہ کا ویزا بھی تھا اور ہوائی جہاز کا ٹکٹ بھی، تاہم دشواری ان مراحل سے گزرنے کی تھی، جن سے گزرے بغیر کسی مسافر کے لئے جہاز پر سوار ہونا ممکن نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے عزت رکھی، شاہ جی کے سامنے شرمندگی سے بچایا۔ مشاہد اللہ خان کام آئے اور شاہ جی بخیریت امریکہ روانہ ہوگئے۔ محمد خان جونیجو کے دور میں واپس آئے، تو چودھری انور عزیز (جو اس وقت وفاقی وزیر تھے) ان کے یہاں ملاقات ہوئی۔ اب یہ شاہ جی کا بڑا پن تھا۔جب محترم مجیب الرحمن شامی کے ” قومی ڈائجسٹ “میں شاہ جی کا تفصیلی انٹرویو شائع ہوا تو اس میں شاہ جی نے بطور خاص اس واقعہ کا میرے نام کے ساتھ ذکر کیا، پھر شاہ جی جب بھی اسلام آباد آتے ،حاضری کا حکم ملتا۔ شاہ جی کی باتیں سنتے۔ ایک دن مَیں نے اسلام آباد ہوٹل میں شاہ جی سے شکوہ کیا کہ ہارون رشید کو اپنا سمجھ کر روزنامہ ”امت“ میں شائع ہونے والی تحریریں حوالے کیں کہ ان میں سے سو کالم منتخب کر دیں۔ کئی برس ہوتے ہیں، ہارون رشید نے ملنا ملانا اور بات چیت بھی بند کر دی۔ شاہ جی زور سے ہنسے اور کہا اوّل تو ہارون رشید پر اعتبار کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟ دوسرے یہ حرکت تو ہارون رشید خود میرے (شاہ جی کے) ساتھ بھی کرچکا ہے،البتہ میرے کالم کتابی صورت میں شائع کرنے کا وعدہ کرکے پیشگی تیس ہزار روپے بھی دے گیا ۔یہ میری خوش قسمتی کہ برادرم فاروق فیصل خان نے میرے کالموں کو کتابی صورت دینے کا وعدہ کیا اور بدقسمتی کہ مَیں نے ارائیں زادے پر اعتبار کرلیا ۔شاہ جی نے حضرت امیر خسرو کی کہانی بھی سنائی:
کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا
آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا
شاہ جی اب ہم میں نہیں ۔اللہ ان کی کوتاہیاں معاف فرمائے۔ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت کا لازماً سزا وار ہوگا جو ساری زندگی خلق خدا کی بھلائی میں مصروف رہا اور اپنا اثر و رسوخ مستحق لوگوں کی اعانت کے لئے استعمال کرتا رہا۔ اس کے لئے دعا کرنے والے ہزاروں اور ناراض تلاش کرنا دشوار اور یہ اللہ کا کرم ہی تو ہے کہ شاہ جی کے عشق (پیپلز پارٹی) کی تباہی کا منظر طلوع ہونے سے قبل شاہ جی کو دنیا سے اٹھا لیا ،جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک اور سادہ دل بندے فیض احمد فیض کو سوویت یونین کے بکھرنے کا منظر دیکھنے سے محفوظ رکھا:
اشک میں تھرائے ہم یا برق میں لہرائے ہم
زندگی تیرے لئے کچھ روشنی لے آئے ہم
ہر خموشی کو صدا ، ہر درد کو آواز دی
کتنے ویرانوں کے دل روشن تھے ہم سے ہائے ہم
(ختم شد)  ٭

مزید :

کالم -